جہیز ایک لعنت

اسماء آفرین، کریم نگر

شادی ایک بنیادی فریضہ ہے، لیکن اب یہ فریضہ ایک مسئلہ بنادیا گیا ہے جو آج ہر گھر اور خاندان کو درپیش ہوتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ وہ جہیز ہے جو معاشرے میں رواج پاکر شریعت سے بھی زیادہ اہم ہوگیا ہے۔

جہیز ایک معاشرتی برائی ہے۔ جس سے گھر اور خاندان متاثر ہورہے ہیں۔ ہمارے اس معاشرے میں لڑکی کی شادی، جہیز اور بارات کی خاطر مدارات کی وجہ سے ایسا بوجھ بن گئی ہے جو لڑکی کے والدین کی کمر توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ لڑکے والوں کی ڈیمانڈس، شادی میں بے جا رسوم، ڈیکوریشن اور آرائش، فنکشن ہالز اور دیگر درجنوں چیزیں ضروریات شادی میں ایسی شامل کردی گئی ہیں کہ ان کے بنا شادی کا تصور محال اور ان کی انجام دہی ایک بڑا معاشی بوجھ ہوتا ہے۔ اکثر والدین اس بوجھ کو بھی اٹھانے کی ہمت کرہی لیتے ہیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ شادی کے بعد تومعاملہ ختم ہو ہی جائے گا۔ مگر کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ شادی ہوجانے کے بعد بھی بیٹی والوں کی آزمائش ختم نہیں ہوتی اور لڑکے والے مختلف مواقع پر مختلف انداز میں لڑکی کے والدین سے مطالبات کرتے رہتے ہیں اور مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کو ہر طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیتے ہیں۔ مجبوراً لڑکی کے والدین ان مانگوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ بہ صورت دیگر انہیں اپنی عزت اور بیٹی کی زندگی داؤں پر لگی نظر آتی ہے۔ اور اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ دلہنوں کے قتل اور جلا کر مار دیے جانے کے پیچھے یہی ذہنیت ہوتی ہے۔ یہ ایک سماجی بحران کی کیفیت ہے جس سے آج پورا ہندوستانی سماج گزر رہا ہے۔ اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسلم سماج بھی اس میں اپنی حصہ داری رکھتا ہے۔ وہ مسلم سماج جس میں لڑکیوں کی پرورش کو جنت کی ضمانت قرار دیا گیا اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کو واجب بتایا گیا ہے۔

اگر اسلامی تعلیمات کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے نکاح کو بہت ہی آسان رکھا ہے۔ مدینہ کے چھوٹے سے شہر میں صحابہ شادی کرلیتے تھے اور اللہ کے رسول ﷺ کو خبر بھی نہ ہوتی تھی۔ اندازہ کیجیے کہ اللہ کے رسول شادی میں شریک نہ ہوئے ہوں تو اس شادی کی سادگی کا کیا عالم ہوگا۔ سادگی سے کی گئی شادی ہی دراصل سنت کی پیروی ہے۔ ایک طرف تو ہم مسلمان ہونے اور سنت کی پیروی کا دم بھرتے ہیں اور دوسری طرف یہ بدترین، فضول رسوم و رواج کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دو رنگی اور بے دینی نہیں تواور کیا ہے؟ جہیز جیسی لعنت نے جو تباہی مچا رکھی ہے وہ کسی سے چھپی نہیں ہے۔ مگر ہم اسے سختی سے ترک کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ اس میدان میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ صرف اور صرف دین سے دوری ہے۔ اگر لڑکے اور ان کے والدین یہ عہد کرلیں کہ وہ کوئی بھی جہیز طلب نہیں کریں گے اور لڑکیوں کی تلاش صرف سیرت، اخلاق اور خاندان دیکھ کر ہی کریں گے تو یقین ہے کہ اس سے ہزاروں لڑکیوں کا مستقبل درخشاں ہوگا۔ سادگی اور سنت کی پیروی کرتے ہوئے شادیاں ہوتی رہیں تو ایک بہتر معاشرے کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146