میری بھانجی ناہیدہ نے سمندر کے نظارے کی ایسی تصویر کھینچی کہ دل للچانے لگا۔ باوجود بس کا سفر اور گھنٹوں کی مسافت کے میں نے ولیمے کی دعوت قبول کرلی اوراپنی رشتہ داروں کے ساتھ شیموگہ سے بھٹکل کے لیے نکل گئی۔ ناہیدہ نے ساحلِ سمندر کے ایک بنگلے کو ہم مہمانوں کے لیے بک کرلیا تھا۔
بنگلے کا محلِ وقوع ایسا تھا جیسے سمندر کی موجوں کے شور اور لہروں پر سانس لیتا ہوا بجرہ۔ ولیمے میں آئی خواتین کہنے لگیں: ’’شیموگہ سے آنے کی تکلیف دور ہوگئی اور بس کا کرایہ وصول ہوگیا۔‘‘
سمندر کے سینے پر پھسلتی ٹھنڈی ہوا، موجوں کا ہلکا ہلکا شور اور بچوں کی آہستہ آہستہ کھی کھی، جیسے لوریاں دی جارہی ہوں۔ کھانے کے بعد خواتین لیٹتے ہی خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے لگیں۔
علی الصبح اٹھ گئے اور سائبان میں پڑی کرسیوں پر آکر بیٹھ گئے۔ دور افق سے سرخ رنگ کا طبق نما سورج پانی سے سر اٹھانے لگا۔ سمندر کی لہریں آنکھ مچولی کھیلنے لگیں۔ سمندر کے کنارے سروقد ایستادہ ناریل کے درخت۔ اس نظارے نے ناہیدہ کی بات کی تصدیق کردی کہ نہ آتی تو افسوس رہتا۔ ناہیدہ نے بتایا کہ رات ایک حادثہ ہوگیا۔ شادی بیاہ میں یہ ریت بن گئی ہے کہ دلہن کو دی جانے والی چیزیں ہوں یا دلہن کی لائی ہوئی چیزیں، ساری عورتیں یا تو دیکھنا چاہتی ہیں یا دکھائی جاتی ہیں۔ دلہن ممبئی سے بیاہ کر لائی گئی تھی۔ چیزیں دیکھنے کا اشتیاق آنکھوں میں کھنچ آیا۔ دوسری طرف سسرال والوں کا سینہ بھی پھولنے لگا کہ ہماری بہو کی چیزیں دیکھی جائیں گی۔ عورتیں چیزیں دیکھنے میں منہمک ہوگئیں۔ ایک لڑکا بھی چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ عورتیں یہ سمجھیں کہ دلہے کا کوئی بے تکلف دوست ہوگا۔ اس لیے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس نے قیمتی موبائل فون اٹھایا اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ قیمتی کپڑا اور ڈالر عورتوں کی نظریں بچاکر غائب کردیے اور آہستہ سے کھسک گیا۔ ساس کو ہوش آیا تو یہ چیزیں غائب تھیں۔ پچاس ساٹھ ہزار کا نقصان ہوگیا۔ کس سے کہتی، دانت بھی اپنے ہونٹ بھی اپنے۔ کچھ کہتی تو ولیمے کی خوشی کے رنگ میں بھنگ پڑجاتا۔ انسان کا بس چلے تو کچھ کرے۔ ورنہ صبر کا تلخ گھونٹ پی کر رہ جائے۔ جہیز کی نمائش کبھی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے اور کبھی بڑے چرکے لگا جاتی ہے۔ قدرت کا عجیب نظام ہے کہ بڑے سے بڑے غم کو بھی پائیداری نصیب نہیں ہے۔ وقتی طور پر انسان متاثر ہوتا ہے اور پھر زندگی کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتا ہے۔ ناہیدہ، اس کی بہو اور بیٹے کو شاید کچھ دیر اس کا قلق رہا ہو تو رہا ہو ورنہ دوسری خواتین سمندر کے مزے لوٹنے میں مصروف تھیں۔