جہیز کے لیے خواتین کو قتل کیے جانے اورخواتین کو ستائے جانے کے واقعات ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ’’جہیز مخالف قانون‘‘ پر اس وقت سخت تنقید کی جارہی ہے اور خود سپریم کورٹ نے بھی گذشتہ دنوں جہیز کے لیے قتل اور خواتین کو ستائے جانے کے اشو پر سخت رویہ اپناتے ہوئے حکومت کو پھٹکار لگائی تھی۔ اب حکومت اس ’جہیز مخالف‘ قانون کو مزید سخت بنانے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔ اس سلسلہ میں ’’قومی کمیشن برائے خواتین‘‘ نے بھی اپنی تجاویز حکومت کو دی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ حکومت اس قانون کو مزید سخت بنائے اور جہیز کے لیے قتل یا ایذا رسانی کے مجرم کو ۷ سال کی قید کے بجائے دس سال کی قید یا عمر قید کی سزا دے۔ یہ تجویز قانون کی دفعہ ۳۰۴ (بی) کے لیے دی گئی ہے جس کا تعلق جہیز کے لیے قتل سے ہے۔ جبکہ دفعہ ۴۹۸ (اے) کا کوئی ذکر نہیں جس کے تحت جہیز کے لیے جسمانی یا ذہنی اذیت دینے کا معاملہ آتا ہے۔ اور حقیقت میں یہی دفعہ سب سے زیادہ تنازعہ اور اختلاف کا سبب ہے کیونکہ قتل تک تو چند انتہائی بدنصیب خواتین ہی پہنچ پاتی ہیں جبکہ اکثریت اسی ذہنی اور جسمانی اذیت کو سہتے ہوئے گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
جہیز مخالف قانون کے خلاف اچانک اس سماجی ابال کا سبب وہ معاملے ہیں جو گذشتہ سال ایک جنوری سے لے کر ۳۱؍دسمبر تک ’’قومی کمیشن برائے خواتین‘‘ کے پاس پہنچے۔ گذشتہ سال کل 16000 معاملات کمیشن کے پاس آئے جن میں544 جہیز کے لیے قتل اور2784 جہیز کے لیے ستائے جانے کے تھے۔ او ریہ بات قابلِ غور ہے کہ یہ اعداد و شمار صرف ان معاملات کے ہیں جو کمیشن کے پاس پہنچے۔ جبکہ کتنے معاملات ایسے ہیں جو پولیس کی رپورٹ میں نہیں آتے اور ایسے معاملات کا تناسب بھی کافی ہوتا ہے جن میں خاتون کے گھر والے اپنی عزت بچانے یا غربت و افلاس کے سبب معاملات کو قانون کے دروازے تک نہیں لے جاپاتے۔
حقیقت یہ ہے کہ جہیز کے لیے قتل اور خواتین کا استحصال اور ظلم کا مسئلہ اب ہمارے ہندوستانی معاشرے کا رستا ناسور بن گیا ہے۔ گذشتہ بیس سالوں سے بھی زیادہ مدت سے جہیز مخالف قانون کی موجودگی کے باوجود اس طرح کے معاملات میں اضافہ نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ قانون اس مسئلہ کا حل نہیں ہے اور اگر یہ بات غلط ہے تو یہ سوال ضرور اٹھایا جائے گا کہ جہیز مخالف قانون بن جانے کے یہ مسئلہ ختم کیوں نہیں ہوا؟ صرف یہ کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ اس میں مسلسل اضافہ نوٹ کیا جارہا ہے۔ ہاں ایک اور خاص بات اور لوگوں کے سامنے آتی ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال نے ہمارے معاشرے میں نئے مسائل کو جنم دے دیا ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ معاملہ چاہے شوہر بیوی کے درمیان گھریلو تنازعہ کا ہو یا لڑکی کے سسرال والوں سے اختلاف کے سبب علیحدگی کا، خرچہ نہ ملنے کا ہو یا عام گھریلو اختلافات کا ہر صورت میں جہیز مخالف قانون کا سہارا لے کر لڑکی سسرال والوں کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔ گویا اس قانون نے خواتین کے اس اہم مسئلہ کو جس کے لیے وہ بنایا گیا ہے ختم کرنے کے بجائے ایک ایسے نئے معاشرتی مسئلہ کو جنم دیا جس سے خاندانوں اور رشتوں کا ٹوٹنا یقینی ہوجاتا ہے۔
محض قانون کے ڈنڈے سے جانوروں کے ریوڑ کو تو ہانکا اور کنٹرول کیا جاسکتا ہے مگر انسانی معاشرے کو محض اسی کے ذریعہ سے سیدھا اور چست درست نہیں رکھا جاسکتا اور وہ بھی اس صورت میں جب سماج میں فکری فساد، رشوت ستانی، کرپشن اور ’’مائٹ از رائٹ‘‘ کا دور دورہ ہو۔ ہمارا سماج بھی اس وقت اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہے جہاں تلخ حقیقتیں قدم قدم پر ہمارا اور قانون بنانے والوں کا منھ چڑھاتی ہیں اور شاید یہ بات قانون بنانے والے بھی جانتے ہیں کہ قانون اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکتا مگر کیوں کہ وہ اس سے آگے کچھ کرنا نہیں چاہتے یا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لیے قانون کو کھلونا بناکر عوام کو دے دیتے ہیں کہ وہ اس سے کھیلتے رہیں۔ انہیں اس بات کی بھی چنداں فکر نہیں کہ اس کھلونے سے کھیلنے والے اپنے ہاتھ پاؤں زخمی کرلیتے ہیں یا اپنے منھ دانت سے خون نکال لیتے ہیں۔ جہیز مخالف قانون کا غلط استعمال اس کا منھ بولتا ثبوت ہے۔
تو پھر مسئلہ کی جڑ کہاں ہے اور حل کیا ہے یہ بڑا سوال ہمارے سامنے آتا ہے۔
ہم جس سماج اور معاشرے میں رہتے ہیں اس میں عورت کا مقام و مرتبہ کیا ہے یہ طے ہوتا ہے اس کی قدیم تہذیبی روایات اور مذہبی کتابوں اور احکامات سے۔ اور ہماری قدیم روایات اور مذہبی مستندات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہاں عورت ہزاروں سال سے ’’تاڑن کی ادھیکاری‘‘ رہی ہے۔ اس کی حیثیت گھر میں موجود دودھ دینے والی گائے بھینس سے زیادہ نہیں۔ وہ مرد کے مقابلے میں حقیر اور کم تر ہے۔ اسی جذبہ نے سماج میں جہیز کے فروغ کو جنم دیا اور آج بھی یہی ذہنیت جہیز کے لیے ستائے جانے اور مارڈالنے کا سبب ہے۔ اگر وہ مرد کے ہم مرتبہ اور برابر تصور کی جائے تو نہ جہیز کا تصور جنم لے اور نہ جہیز کے لیے قتل کرنے اور ستائے جانے کے واقعات پیش آئیں۔ چنانچہ اس حقیقت کا اگر ہم انکار کرتے ہیں تو کتنے ہی قانون اور کیسے ہی سخت قانون بنالیں، اس برائی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ’’مساوات مرد و زن‘‘ کے اس ’’ترقی یافتہ‘‘ دور میں بھی عورتیں ماری جائیں، پیٹی جائیں اور آخر کار قتل کردی جائیں، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مساوات مرد و زن محض ایک دلفریب اور لبھاؤنا نعرہ ہے۔ ایسا نعرہ جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر واقعی اس مسئلہ کا حقیقی حل ہمارے سماج کو چاہیے تو ضروری ہے کہ وہ عورت کو حقیقی اور عملی طور پر برابری اور ہم مرتبت کا درجہ دے۔ اگر عورت کو مرد واقعی ہم مرتبہ اور برابر تصور کرتا ہے تو نہ وہ جہیز کا تمنائی ہوگا اور نہ اسے ستانے یا تکلیف دینے کا مرتکب بنے گا۔ عورت کو حقیر، کم تر اور مرد کے مقابلے کم درجہ کی مخلوق تصور کرنا ایک فکری بیماری ہے اور اس فکری بیماری سے جب تک معاشرے کو نہیں نکالا جائے گا ہمارا سماج جہیز کی لعنت سے پاک نہیں ہوسکتا۔
قانون اور انتظام کے معاملہ میں بھی بہت سی دشواریاں ہیں جن کے سبب قانون موجود ہونے کے باوجود وہ کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ اس میں سب سے بڑی وجہ ملک میں پولیس اور انتظامیہ کا کرپشن ہے۔ ایسی صورت حال میں جہاں ایک مظلوم کو ایف آئی آر درج کرانے کے لیے ہفتوں اور مہینوں دفتروں اور اعلیٰ حکام کے چکر کاٹنے پڑیں بھلا مظلوم کو انصاف کہاں سے مل سکتا ہے۔ اور اگر ظالم کے پاس سیاسی اثر رسوخ اور دولت کی بیساکھی ہے تو وہ انتہائی کارگر ثابت ہوتی ہے اور مظلوم مایوس ہوکر انصاف کی امید چھوڑ کر بیٹھ رہتا ہے جو اس طرح کے بیمار ذہن لوگوں کے لیے حوصلہ بڑھانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اگر قانون کے نفاذ کو عملی اور یقینی بنایا جائے تو جہیز کے معاملات کو روکا جاسکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ چنانچہ قانون کو سخت بنانے کے بجائے قانون کو نافذ کرنے والی مشینری کی اصلاح اور اسے چست درست اور صحت مند بنانا زیادہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔
شادی بیاہ اب ہمارے سماج میںعزت ومرتبہ بڑھانے، شان و شوکت کا اظہار کرنے اور مال و دولت کے ’شو‘ کا ذریعہ بن گئے ہیں اور اس میں جہاں ہمارے معاشرے کے صنعت کار اور تاجر لوگ آگے ہیں وہیں ملک کے سیاست داں خواہ وہ معمولی درجہ کے کارپوریٹر ہوں یا ریاستی اور مرکزی وزیر بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ بلکہ سیاست دانوں کے یہاں شادیوں کی شان اور ’’دھوم دھام‘‘ ہی نرالی، ہوتی ہے جس سے عام لوگوں کی زندگی اور سوچ یقینا متاثر ہوتی ہے۔ اس قسم کے واقعات سماج میں ایک مسابقت اور کمپٹیشن کی کیفیت کو جنم دینے کا ذریعہ بنتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ ’ہار‘ کی صورت میں یہی سامنے آتا ہے جس کا رونا پورا سماج رو رہا ہے۔
ہمارا سماج ایک قسم کی منافقت اور دو رنگی کی کیفیت کا بھی شکار ہے۔ وہ اس طرح کے جہیز کی مخالفت میں تحریریں بھی لکھی جاتی ہیں، تقریریں اور سمینار بھی ہوتے ہیں، عام افراد سے لے کر، سیاست داں، مذہبی لیڈران اور علماء و فضلا سبھی اس کی مذمت کرتے ہیں، مگر جب عملی اظہار کا وقت آتا ہے تو وہی منافقانہ طرزِ عمل ظاہر ہوتا ہے جو ان کی تقریروں، تحریروں اور بیانات کے خلاف ہے۔
جہیزکے کانٹے دار جھاڑاور اس کے کڑوے کسیلے پھلوں کو اس وقت تک نہیں ختم کیا جاسکتا جب تک ہم اپنے ذہنی سانچے میں عورت کے صحیح مقام و مرتبہ کو جگہ نہ دیں، حرص و ہوس اور شان وشوکت کے چھوٹے اظہار کو یکسر رد کرتے ہوئے منافقانہ رویہ کو ترک نہ کریں۔ اگر ہم عملی زندگی میں جہیز کا قابل رد ہونا ثابت کردیتے ہیں تو نہ ہمیں قانون بنانے اور اسے سخت کرنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہمیں آئے دن اپنی بہوؤں اور بیٹیوں کا نوجہ کرنا پڑے گا۔