جہیز کے نام پر دلہن والوں کی طرف سے دولہا یا دولہا والوں یا خود دلہن کو کچھ دینا خالص ہندو تصور ہے اور عملاً محض برصغیر یعنی قدیم متحدہ ہندوستان کی رسم و رواج ہے۔ جو ایک طرف دولہا اور دولہا والوں کے لیے شرمناک و ذلت آمیز ہے تو دوسری طرف دلہنوں کے لیے ان کے بنیادی حق سے محرومی اور مستقل مصیبت و عذاب ہے کہ لڑکی کے ماں باپ خود اپنی بیٹی کو پرایا دھن، تکلیف دہ اور زبردستی کا بوجھ تصور کرتے ہیں۔ بیٹوں کی طرح بیٹی کو وراثت میں اس کا حصہ دینے کی بات کرنا بھی جرم تصور کیا جاتا ہے۔
اردو میں بولا جانے والا لفظ جہیز اصلاً ہندی لفظ دھیج ہے۔ اگرچہ عربی میں بھی لفظ جہیز، تجہیز اور جہاز موجود ہے لیکن عربوں میں یہ لفظ اردو والے لفظ جہیز کے معنی میں نہیں بولا جاتا، نہ اس معنی میں استعمال ہوتا ہے کہ وہاں اردو والے جہیز کا تصور ہی نہیں ہے۔
جہیز یا دھیج کی حقیقت یہ ہے کہ ہندو مائتھالوجی یا دھرم میں باپ کی وارثت میں بیٹی کا کوئی حصہ نہیں ہے کہ آج ہندوؤں میں طلاق، وراثت، نان و نفقہ وغیرہ کی جو باتیں کی جاتی ہیں، وہ اسلام کے نظام، احکام و مسائل سے لے کر ۱۹۵۴ و ۱۹۵۶ء میں بنائے گئے ہندو میرج ایکٹ وغیرہ کے حوالے سے کی جاتی ہیں۔ ورنہ وہاں تو باپ کے مرنے کے بعد صرف بڑا بیٹا ہی تمام وراثت کا مالک اور جانشین قرار دیا گیا ہے۔ حتی کہ شوہر کی موت کے بعد اگر بیوہ بھی ستی ہونے سے بچ جائے اور کسی دھرم شالا وغیرہ میں جانے کی بجائے گھر میں ہی رہنا چاہے تو وہ بھی بڑے بیٹے ہی کی آدھین اور ماتحت قرار دی گئی ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی بدمزاج بڑا بیٹا نہ چاہتا تو گھر کے تمام دیگر افراد مرنے والے کی وراثت سے محروم قرار دے دئے جاتے۔
ہندو دھرم کے احکام، تعلیمات اور روایات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس صورتحال کو دیکھتے اپنی بیٹی سے محبت، پیار و شفقت رکھنے والے ہندو باپ نے اپنی زندگی ہی میں اپنی بیٹی کو کچھ دینے کیا فیصلہ کیا اور پھر اس کے لیے مختلف حیلے دھیج، ٹیکہ، چوتھی، گونا، چھوچھک، بھات، راکھی اور سندارا وغیرہ ناموں سے مختلف رسوم ایجاد کیں اور ان کو رواج دیا۔ یہاں یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ہندو باپ نے یہ رسمیں اس لیے اپنائی تھیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کو اپنی زندگی میں اپنی وراثت سے وہ کچھ دے جائے جو اس کے دھرم نے نہیں دیا تھا، لیکن افسوس کے اس خطے کے مسلمان باپ نے یہ رسمیں اس لیے اپنا رکھی ہیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کو اپنی وراثت کے اس حق سے محروم کردے جو دینِ اسلام نے اس کا حق بتایا ہے اور خود قرآنِ کریم میں تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اس کو فریضۃ من اللہ قرار دیا ہے ۔
جو لوگ اسلامی شریعت اور اللہ و رسول کے احکام و تعلیمات کو نہ سمجھتے ہیں نہ مانتے ہیں، اور اپنی ناقص اور محدود رسائی والی تنگ نظر عقل سے اس کسر کو پورا کرنا چاہتے ہیں، جو ان کے نزدیک، اللہ کے بنائے ہوئے قانون میں بیان ہونے سے رہ گئی ہے یا ان کی نظر میں وہ غلط ہے اللہ تعالیٰ نے قوانین وراثت بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا ہے ’’تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد (لڑکا ہو یا لڑکی) میں سے نفع (مدد و خدمت وغیرہ سمیت) تم سے قریب تر کون ہے (وراثت کے) یہ حصے اللہ نے مقرر کردیے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔‘‘ (النساء:۱۱)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے وراثت کے قوانین بیان کرنے کے بعد ان پر عمل کرنے والوں کو خوشخبری دی ہیں، ایسی ایسی بڑی جنتوں میں ہمیشہ کے لیے داخل کرنے کے وعدے کیے ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور اس کو بہت بڑی کامیابی فوزِ عظیم قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کوہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کی آگ میں پھینک دینے کی دھمکی دی ہے اور ہولناک و رسوا کن عذاب سے ڈرایا ہے۔
ارشاد باری ہے: ’’یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں (جنتوں) میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور یہی بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرجائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا۔ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘ (النساء:۱۳،۱۴)
ان آیتوں میں یوں تو اللہ اور رسول کی تمام اطاعت وفر مانبرداری پر خوشخبری و بشارت اور جنتوں میں ہمیشہ کے لیے داخلہ کے وعدے ہیں اور نافرمانی کرنے والوں کے لیے بھی اس طرح وعید ہیں۔ دھمکیاں اور ڈراوے ہیں لیکن خاص طور سے وراثت کے احکام و قوانین بیان کرکے ان کو حدود اللہ قرار دینا اور پھر یہ خوشخبریاں و وعیدیں سنانا قوانین وراثت کو اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل بنادیتا ہے۔ اس طرح یہ ایک بڑی خوفناک آیت ہے جس میں ان لوگوں کو ہمیشگی کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے قانونِ وراثت میں کوئی تبدیلی کریں یا ان کی کسی بھی طرح خلاف ورزی کریں یا ان دوسری حدود کو توڑیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں واضح طور پر مقرر کردی ہیں۔ لیکن یہ سخت افسوس ناک امر ہے کہ اس قدر سخت وعید کے باوجود مسلمان بالکل یہود کی سی جسارت کے ساتھ اللہ کے مقرر کردہ قوانین کو بدلتے اور اس کی حدود کو توڑتے ہیں۔ خاص طور سے اس قانونِ وراثت کے معاملہ میں جونافرمانیاں کی گئی ہیں وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے خلاف کھلی بغاوت کی حد تک پہنچتی ہیں جن میں عورتوں کو میراث سے مستقل طور پر محروم کرنا بہت ہی سنگین ہے۔
ستم یہ ہے کہ جسارت بیجا کرتے ہوئے بیٹیوں کو وراثت سے محرم کرنے والی جہیز جیسی غیر اسلامی رسم کو سندِ جواز عطا کرنے کے لیے اس کو سنتِ رسول قرار دے ڈالا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے نہ اپنی کسی بیٹی کو جہیز دیا نہ آپ کی کوئی بیوی (امہات المؤمنین، ازواج مطہرات) جہیز لائیں نہ ہی کسی صحابی یا صحابیہ کا ایسا عمل پایا جاتا ہے اور نہ ہی عربوں میں آج تک ایسی کوئی رسم کہیں پائی جاتی ہے۔
اس کے برعکس دینِ اسلام نے دولہا کو اپنی دلہن و بیوی کے مہر اور نان و نفقہ کے لیے ذمہ دار قرار دیا ہے۔ بر صغیرکے مسلمانوں میں بالعموم مہر نقد ادا کرنے کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے بلکہ اکثر مقامات پر تو اسے عیب تک سمجھا جاتا ہے، ہاں نوجوان دولہے بڑی شان کے ساتھ اپنی مردانگی کو ذلیل ورسوا کرتے ہوئے عورتوں سے مہر معاف کراتے ہوئے ضرور دیکھے جاتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کے اسوئہ حسنہ اور صحابۂ کرام کی سیرت سے بھی مہر اور نان و نفقہ کی بات ثابت ہوتی ہے۔
عربوں میں لفظ جہیز استعمال ضرور ہوتا ہے لیکن اس کی تمام تر ذمہ داری دولہا اور اس کے متعلقین کے سر ہوتی ہے۔ دھیج کی غیر اسلامی اور خالص ہندوانہ رسم کو جہیز کے نام پر سنت رسول ثابت کرنے والے لوگ حضرت فاطمہ کے نکاح کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہیں اور دھیج کی ہولناکی کے نام پر یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے مختصر جہیز دیا تھا اس لیے مختصر جہیز ہی دیا جائے۔ حالانکہ اگر رسول اللہ ﷺ سے جہیز دینا تسلیم کرلیا جائے تو اسکا واضح مطلب یہ ہوگا کہ یہ سنت ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے ظاہری وسائل کے لحاظ سے کام لیا۔ اس لیے ہم اپنے وسائل کو سامنے رکھ کر اس سنت پر پرجوش انداز میں کمالِ شوق و رغبت سے عمل پیرا ہوں جبکہ سیدۃ النساء حضرت فاطمہؓ کے نکاح کی جو تفصیلات زرقانی، شرح مواہب اور تواریخ حبیب اللہ وغیرہ کتب سیرت و تاریخ میں ملتی ہیں اور مولانا برہان الدین سنبھلی استاذ تفسیر و حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ نے معاشرتی مسائل اور جہیز، ہندوستانی معاشرہ کا خطرناک مرض میں جو کچھ لکھا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سماجی لعنت اور ناسور کے لیے کوئی شائبہ اور شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔
مشہور محدث و مؤرخ حافظ ابن عبدالبر کی شہرئہ آفاق کتاب ’’الاستیعاب‘‘ میں ہے کہ رسول اللہ کے چچا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے والد خواجہ ابوطالب کثیر الاولاد تھے اور وسائل آمدنی محدود و قلیل تھے، اس لیے رسول اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ کو بچپن سے ہی اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ آپ نے ہی ان کی تربیت اور پرورش کا انتظام کیا تھا، یہاں تک کہ مدینہ آنے کے ایک سال بعد حضرت فاطمہؓ سے ان کا نکاح کردیا۔ ظاہر ہے اس صورت میں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے ایک سرپرست اور مربی کا رول ادا فرمایا تھا، مستقل علیحدہ سکونت کے لیے گھریلو ضروریات کا بھی آپ انتظام فرماسکتے تھے اور وہ لڑکی کا باپ ہونے کے ناطہ ہی نہیں خود لڑکے کے سرپرست اور مربی کی حیثیت سے بھی ہوسکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے جو عالم الغیب اور علیم و حکیم ہے اور مستقبل و دور دراز پیش آنے والے تمام امور کو پہلے ہی سے جانتا ہے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک غیر اسلامی رسم کو سنت کے معنی پہنانے کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی اور سارے امکانات کے دروازے بند کردیے، اب مسلمان چاہے جو کہتے اور کرتے رہیں۔
زرقانی، شرح مواہب میں خود حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے دریافت فرمایا: علیٍ آپ کے پاس الگ گھر بسانے کی گھریلو ضروریات کے لیے کیا ہے۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا : ایک گھوڑا، ایک تلوار اور ایک زرہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ فرمایا: روز روز پیش آنے والی جنگوں کی وجہ سے گھوڑے اور تلوار کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے لیکن زرہ کے بغیر آپ جیسے آدمی کا کام چل سکتا ہے، آپ اسے فروخت کردیں۔
اس بات کو عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس زمانہ کے حالات میں گھوڑے اور تلوار کی طرح زرہ کی بھی کتنی شدید ضرورت تھی، مگر بہرحال حضرت علیؓ نے وہ زرہ حضرت عثمان غنیؓ کے ہاتھ چار سو درہم میں فروخت کردی اگرچہ حضرت عثمانؓ نے اپنی طرف سے وہ زرہ حضرت علیؓ کو بطورِ ہدیہ دے دی، جس پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمانؓ کو بہت زیادہ دعائیں دیں اور رسول اللہﷺ کے فرمانے پر حضرت بلالؓ نے اس رقم میں گھریلو ضرورت کی چیزیں، خوشبو، کپڑے ، بستر اور چمڑے کا تکیہ وغیرہ تیا رکیا۔
کیا ان تمام تفصیلات کے سامنے آنے کے بعد بھی برصغیر متحدہ ہندوستان کے مسلمان جہیز کو سنتِ رسول قرار دے کر اپنی بیٹیوں کو پرایا دھن سمجھتے رہیں گے اور انھیں اولاد کا درجہ نہ دے کر اپنی وراثت کے حق سے محروم کرتے رہیں گے؟اور نوجوان دولہے اپنی شان مردانگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے جہیز کے نام چھین جھپٹ، بھیک یا رشوت یا ڈکیتی جیسے اس گھناؤنے عمل کو جاری رکھیں گے؟ اور مہر نقد ادا کرنے کی بجائے بھکاریوں کی طرح معاف کراتے رہیں گے؟
یہاں یہ امر خاص طور سے قابلِ توجہ ہے کہ جہیز اور دیگررسوم و رواج کے فروغ اور لڑکیوں کو وراثت سے محروم کرنے میں عورتوں کا بہت اہم رول ہے کہ مائیں بیٹیوں کو اور بھاوجیں اپنی نندوں کو وراثت کے قانون کے تحت پورے حق کی ادائیگی میں بہت بڑی رکاوٹیں بنتی ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ وراثت میں سے حصہ دے دیا گیا تو ہمارے بیٹوں کے حصے میں کمی آجائے گی جبکہ وہ ان سے بڑھاپے میں خدمت اور نسل کے چلنے کی آس لگائے بیٹھتی رہتی ہیں، حالا نکہ اگر بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دینے کا نظام عام ہوگا تو ان کی بہوؤں کو بھی اسی طرح حصہ ملے گا، جو ان کے اور ان کے بیٹوں کے گھروں میں آئے گا جبکہ ان کی بیٹیوں کا مستقبل بھی محفوظ ہوگا۔
——