جہیز کی بیماری

شعبہ حسنین ندوی

جب ہم قرآن و احادیث میں اسلامی معاشرہ کو تلاش کرتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک ایسے معاشرہ کی تصویر آتی ہے جس میں خیر اور نیکی کی محبت رچی بچی ہوتی تھی، جس میں برائیوں کا نام و نشان نہ تھا اور شیطان ہر شر و فساد سے مایوس ہوگیا تھا، دوسری طرف جب ہم آج کے مسلم معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں۔جو قرآن و حدیث کے احکامات کو ماننے کا دعویٰ کرنے والوں نے آباد کررکھا ہے تو ہم عجیب کشمکش کے شکار ہوجاتے ہیں، کیونکہ ہمیں ان دونو ںمعاشروں میں بڑا تضاد نظر آتا ہے آج کا مسلم معاشرہ قرآن و حدیث والے اسلامی معاشرہ سے کوئی میل نہیں کھاتا۔

جب ہم موجودہ مسلم معاشرہ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں بے شمار برائیاں اور باطل رسوم رواج نظر آتے ہیں۔ ہر برائی کا برابر اثرہوتا ہے اور ہر باطل رسم اپنے ماننے والوں کے سماج، معاشرے اور ذہن و فکر پر برے اثرات ڈالتی ہے۔ لیکن ان میں بعض برائیاں ایسی ہیں جن کے اثرات بہت گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ ان برائیوں میں سرفہرست ’’جہیز‘‘ ہے۔ اس رسم نے خوفناک وبا کی صورت اختیار کرلی ہے اس کے دو افسوسناک پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ وقت کے نام نہاد علما نے ’’جہیز فاطمی‘‘ کا سہارا لے کر اسے شرعی بنادیا ہے اور دوسرا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج کا تعلیم یافتہ طبقہ ہی اس خوفناک مرض بلکہ سماجی لعنت میں سب سے زیادہ مبتلا ہے۔ جو جس قدر تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ڈگری کا حامل ہے وہ اسی قدرزیادہ اس فکری بیماری میں مبتلا ہے۔ تعلیم حاصل ہونے اور بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد انسان کو سمجھدار اورروشن خیال ہونا چاہیے لیکن جہیز کے معاملہ میں تعلیم یافتہ طبقہ بالکل اندھا اور تاریک خیال نظر آتا ہے۔

جہیز کے سلسلے میں اگر ہم قرآن و احادیث سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ جہیز کی شرعی اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں ہے، بلکہ قرآن کی ایک آیت اس کے جواز پر غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ ۔ ’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ۔‘‘ (نساء: ۲۹)۔قرآن کریم کی یہ آیت نکاح اور ازدواجی مسائل کے تذکرے کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس سے جہیز جیسے مطالبوں کی حرمت صاف ظاہر ہوتی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو ان کی رخصتی کے وقت جو کچھ دیا تھا اس کو جان بوجھ کر لوگ غلط معنی پہنا کر اپنی خواہش نفس کی تسکین کا ذریعہ بناتے ہیں۔

اس سلسلہ میں کچھ باتیں ذہن میں رہنی چاہئیں، اول یہ کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی لختِ جگر کو جو چیزیں عنایت فرمائی تھیں وہ نہایت درجہ معمولی تھیں اور بنیادی ضرورتیں تھیں، او ریہ چیزیں جہیز کی تعریف میں نہیں آتیں، حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو ایک چادر، ایک مشک اور ایک تکیہ دیا تھا جس میں (اذخر نامی) گھاس بھری ہوئی تھی۔ (نسائی ۶/۱۳۵، مطبوعہ بیروت) اور بعض کتابوں میں ایک بستر کا بھی تذکرہ ملتا ہے، کیا یہ چیزیں واقعتا جہیز ہیں؟ پھر کیا ان چیزوں کو موجودہ دور کے پرتکلف اور انواع و اقسام کے سامانوں اور دنیا بھر کے خرافات سے کوئی تعلق ہے؟

دوم یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کو جو چیزیں عنایت فرمائی تھیں، وہ اپنی طرف سے نہ تھیں بلکہ دراصل حضرت علیؓ سے ’’مہر معجل‘‘ لے کر خریدوائی تھیں، چنانچہ یہ واقعہ اس طرح مذکور ہے کہ حضرت علیؓ کے پاس ایک زرہ تھی جسے انھوں نے بطور ’’مہر معجل‘‘ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے فروخت کرنے کا حکم دیا، اس سے ۴۸۰ درہم حاصل ہوئے، پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا کہ اس رقم سے کچھ خوشبو، کپڑے اور فلاں فلاں چیزیں خرید کر لاؤ۔ (زرقانی شرح مواہب)

چنانچہ اس فہرست میں تکیہ اور بستر بھی تھا، یہ ہے جہیزِ فاطمی کی حقیقت۔ ظاہر ہے کہ اول تو یہ سرے سے جہیز نہیں ہے لیکن اگر اس کو بالفرض جہیز تسلیم بھی کرلیا جائے تو وہ لڑکے کے باپ کی طرف سے نہیں ہے، بلکہ داماد سے حاصل کردہ مہر کے پیسوں سے ہے، لہٰذا اس کو جہیز اور وہ بھی فرمائشی جہیز سے کیا نسبت؟

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت علیؓ خود نبی کریم ﷺ کی کفالت میں تھے، اور نبی کریمﷺ نے جو کچھ بھی دیا لڑکی کے باپ ہونے کی حیثیت سے نہیں دیا، بلکہ حضرت علیؓ کا کفیل ہونے کی حیثیت سے دیا۔

بہر حال جہیز ایک غیر اسلامی رسم ہے جو ہمارے معاشرہ میں مقبول ہوچکی ہے، یہ ایک سماجی لعنت ہے جس میں ہم بری طرف گرفتار ہورہے ہیں۔ ہمارے سماج کا یہ ایک ناسور ہے جو رس رہا ہے، یہ ایک جان لیوا مرض ہے جس نے سیکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نو عمر لڑکیوں اور دلہنوں کی جان لی ہے۔ مگر سماج میں بسنے والے لوگ خرگوش کی نیند سورہے ہیں اور بے فکر ہیں۔ نہ انہیں اپنی ذات کی فکر ہے، نہ غیروں کے ہاتھوں غفلت و عصمت کے نیلام ہونے کا خوف ہے اور نہ ہی سماج کی بیٹیوں کو دہکتے ہوئے آگ کے شعلوں سے بچانے کی تڑپ۔

کیا یہی عقلمندی ہے؟ کیا یہی دانشمندی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہم اپنی حالت میں سدھار لانے کے لیے کیوں نہیں کھڑے ہوجاتے؟

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146