کون نہیں جانتا کہ ہمارے سماج اور مسلم معاشرے میں جہیز کامسئلہ تباہی مچائے ہوئے ہے۔ اس کی خرابی پر بحثیں اور تقریریں بھی خوب ہوتی رہتی ہیں۔ اس کے باوجود آج بھی جہیز کی رسم ہمارے سماج کے دامن پر ایک گہرا بدنما داغ ہے جس کے مٹنے کی بظاہر کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اس کے خلاف جتنے زوروشور سے آواز اٹھائی جارہی ہے اتنی ہی تیزی سے جہیز کی یہ بیماری بڑھتی اور پھیلتی جارہی ہے۔ کیونکہ ہم بولتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ یہ تضاد ہماری معاشرتی زندگی کو کھوکھلا کیے دے رہا ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں میں جہیز کی اس بیماری کے پھیلنے کی وجہ یہ غلط تصور ہے کہ نبی کریم، شہنشاہِ امم حضرت محمد ﷺ نے اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز دیا تھا، جب کہ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے۔ امر واقعہ، جیسا کہ کتابوں کے مطالعے سے سامنے آیا ہے، یہ ہے کہ حضور نبی رحمتؐ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کی رقم سے ان کا گھر علیٰحدہ بسانے کے لیے گھریلو ضرورتوں کا انتہائی ناگزیر سامان منگوایا تھا۔ ویسے بھی حضرت علیؓ تو حضورِ انورؐ کے زیر پرورش تھے اس لیے اگرآپؐ خود بھی اس سلسلے میں کچھ فرماتے تو وہ حضرت علیؓ کا علیٰحدہ گھر بسانے کاسامان ہوتا نہ کہ حضرت فاطمہؓ کا جہیز۔
معاملہ یہیں ختم نہیں ہوگیا ہے کہ دلہن والے اپنے طور پر دلہن کے ساتھ اس کی اپنی ضرورت کا اور بعض گھریلو سامان اپنی گنجائش کے حساب سے خوشی خوشی دے دیں۔ اب تو دلہا اور اس کے والدین کی طرف سے باضابطہ فہرست پیش کرکے ’’جہیز‘‘ کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس فہرست میں صرف وہی چیزیں شامل نہیں ہوتیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے بلکہ لڑکے کے لیے بھی کئی چیزوں کے مطالبے کے علاوہ کثیر نقد رقم بھی مانگی جاتی ہے۔ بہر حال عجیب عجیب مطالبے ہوتے ہیں۔ لڑکے والوں کی گویا یہ کوشش ہوتی ہے کہ لڑکی کے والدین یا سرپرستوں سے وہ تمام اخراجات سود در سود وصول کرلیے جائیں جو لڑکے کی پیدائش سے لے کر اس کی تعلیم کی تکمیل اور پھر ملازمت کے حصول تک خرچ ہوئے ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر لڑکے کی بالعموم یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ لڑکی ’’پیسے کمانے کی مشین‘‘ بھی ہو، مثلاً ٹیچر ہو۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ لڑکی کی تعلیم و تربیت اور پرورش و پرداخت کے لیے اس کے والدین کو بھی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اور خرچ اٹھانا پڑتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ان کے گھر اور خاندان میں بھی لڑکیاں ہیں اور انہیںبھی اس صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑے گا۔
کیا ان جوانمردوں کو اللہ کی تائید پر اور اس کے نتیجے میں اپنے قوتِ بازو اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں جو وہ لڑکی کے والدیان سے ’’جہیز‘‘ اور’’گھوڑے جوڑے‘‘ وغیرہ کی بھیک مانگتے ہیں؟ افسوس ہے! انتہائی شرم کامقام ہے کہ وہ بے غیرتی اختیار کیے ہوئے ہیں کہ لڑکی کے والدین اور سرپرستوں پر ظالمانہ دباؤڈال کر اپنے لیے سامانِ زیست بلکہ اسبابِ عیش و آرام مہیا کرتے ہیں۔ کیا اس طرح وصول کیا جانے والا یہ سامان وغیرہ ان کی زندگی سنوار سکتا ہے؟ کیا انہیں اپنی آخرت کی فکر نہیں ہے؟ اور پھر اس دھن میں یہ نوجوان صرف نمائشی اور ظاہری چیزوں پر ریجھنے لگے ہیں۔ وہ لڑکی کے حسنِ سیرت اور اخلاق وغیرہ جیسی اہم باتوں کو بالکل نظر انداز کرجاتے ہیں۔ وہ تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کتنی بھیک مل سکتی ہے اور یہ کہ پیسوں کا پیڑ ان کے گھر میں بھی لگ جائے۔
آج کے یہ نوجوان یوں بھی نہیں سوچتے کہ جس طرح وہ خود مختلف ہنر سیکھ رہے ہیں اور پڑھ لکھ کر ڈگریاں حاصل کررہے ہیں، اسی طرح لڑکیاں بھی تو آگے بڑھ رہی ہیں، پھر لڑکیوں کو کیوں کمتر سمجھا جائے۔ ان نوجوانوں کی نظروں میں تو صرف اور صرف یہ چیزیں سمائی ہوئیں: ’’جوڑے‘ ‘ کی رقم جہیز کا سامان اور لڑکی کامال، انہیں ’’شریک حیات‘‘ سے کوئی سروکار نہیں۔ جہیز وغیرہ کے لین دین کی اس جنگ میں فی الحال مرد بظاہر غلبہ پائے ہوئے ہیں اور عورت کمزور اور مغلوب دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں بے گناہ اور معصوم صنفِ نازک کا خون بہایا جارہا ہے اور بڑی بے دردی سے بہایا جارہا ہے۔ قیمتی جہیز نہ لانے اور دیگر مطالبات زر کی تکمیل نہ کرنے کے جرم میں دلہنوں کو زندہ جلا دینا، زہر دے کر یہ گلا گھونٹ کر مار دینا وغیرہ عام سی باتیں ہوکر رہ گئی ہیں۔ جہیز وغیرہ کی اس بیماری نے نہ معلوم کتنی بھولی بھالی اور معصوم دوشیزاؤں کے جذبات کا گلا گھونٹ دیا، ارمانوں کا خون کردیا۔ جہیز ایک ایسی بھیانک آگ ہے جس میں نہ صرف لڑکی بلکہ اس کے والدین اور تمام خاندان جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ جہیز وغیرہ کی فرمائش محض اس لیے ہی نہیں کی جاتی کہ آرام و آرائش اور دل بستگی کا سامان اور مال و زر حاصل ہو، بلکہ مرد اپنی برتری ثابت کرنے کے جنون میں عورت کو ذہنی اور عملی طور پر کچلنے اور اس بات پر مجبور کرنے کے لیے کہ وہ خود کو مردوں کے مقابلے میں کمتر اور حقیر سمجھے، اس طرح کی فرمائشیں کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے جہیز ہمارے سماج میں مرد کی جھوٹی برتری کا وسیلہ بنا ہوا ہے۔
جہیز وغیرہ کو بیماری ،نا سور، بدنما داغ اور لعنت وغیرہ کہہ دینے اور کہتے رہنے سے اب کام چلنے والا نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کو دور کرنے کے لیے عملاً کیا کیا کیا جانا چاہیے۔ جہیز کی اس آگ کی تباہ کاریوں سے چھٹکارا پانے کے لیے اجتماعی جدوجہد اور آپسی تعاون ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ جہیز کے لینے اور دینے پر حکومت نے جو قانونی پابندی عائد کر رکھی ہے اورجہیز کا مطالبہ کرنے والوں کو سزا دینے کی جوشق ہمارے قانون میں موجود ہے اس پر پوری طرح اور انتہائی سختی کے ساتھ عمل ہونا چاہیے۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ ہماری حکومت نے جہیز، گھوڑے جوڑے اور ہنڈے وغیرہ کے خلاف قانون تو بنا رکھا ہے لیکن عملاً وہ قانون کی کتابوں اور دفتری فائکوں کی زینت ہوکر رہ گیا ہے۔ اگر لوگ اس قانون کے الفاظ سے ایسی گنجائش نکال لیتے ہیں کہ جہیز کے لین دین کے باوجود سزا سے بچ جائیں تو اس قانون کو اس طرح واضح اور سخت بنانا چاہیے کہ حیلہ سازی کی کوئی گنجائش ہی نہ نکل سکے۔
جہیز کے خلاف ہمارے سماجی دانشور اپنی تحریروں میں اور مذہبی قائدین اپنے وعظ اور بیانوں میں اور سیاسی لیڈر اپنی تقریروں اور بھاشنوں میں بھی بہت کچھ اظہارِ خیال کرتے رہتے ہیں لیکن ان سب خیالی اور زبانی باتوں سے آگے بڑھ کر ان حضرات کو چاہیے کہ اپنے اپنے گھر اپنے لڑکوں کی شادیوں میں عملی نمونہ پیش کریں اور اس کے علاوہ معاشرے میں لوگوں کے درمیان پہنچ کر اصلاحِ حال کی سنجیدہ عملی کوششیں بھی جاری رکھیں۔ اس معاملے میں لڑکیوں، خصوصاً پڑھی لکھی لڑکیوں کو بھی بلند حوصلگی اور حکمت و تدبیر سے کام لینا ہوگا۔ ان کو اپنے اندر اس خطرناک اور تکلیف دہ صورتِ حال سے نپٹنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے اور اس مصیبت سے نجات پانے کی ہمت بھی۔ ان کو اپنے والدین سے بلا جھجھک اور صاف صاف کہہ دینا چاہیے کہ وہ شادی تو کرنا چاہتی ہیں لیکن شادی کے نام پر تجارت اور بیوپار انھیں منظور نہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو دو ٹوک انداز میں واضح کردینا چاہیے کہ اس کے لیے کوئی ’’مرد‘‘ خریدنے کے بجائے ’’رفیق حیات‘‘ اور ’’قوام‘‘ تلاش کیا جائے۔
نوجوان مردوں کو بھی اس بدترین رسم کے مٹانے کے معاملے میں سب سے اہم رول ادا کرنا ہوگا۔ انہیں ہمت و مردانگی سے کام لیتے ہوئے جہیز وغیرہ لینے سے انکار کردینا چاہیے۔ اس طرح کی مثالیں قائم ہوں تو اس خرابی اور بیماری کے دور ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ انہیں قدرت نے عورت کا محافظ اور کفیل بنایا ہے۔ مرد کی تخلیق ظلم کو مٹانے کے لیے ہوئی ہے ظلم ڈھانے کے لیے نہیں۔
اس ساری خرابی کی جڑ اور اس بیماری کا علاج نہ ہوسکنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خود غرضی اور زرپرستی عام ہوگئی ہے۔ حقیقی انسانی محبت و رفاقت کے جذبات انتہائی سرد اور کمزور پڑ گئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم میں احساس ذمہ داری باقی نہیں رہا۔ جو ابدہی کا تصور اور یقین ہو تو احساس ذمہ داری بھی پیدا ہوتا ہے اور دیگر خرابیوں کا دور ہونا بھی عین ممکن ہوجاتا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ہم سب الا ماشاء اللہ، بلا لحاظ مذہب و ملت، اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہونے اور اس کے سامنے جواب دہی کے احساس سے عملاً قریب قریب عاری ہوچکے ہیں۔ آخرت فراموشی تمام خرابیوں اور بیماریوں کی جڑ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ آخرت کی جواب دہی کا تصور اجاگر اور یقین بیدار کیا جائے، اس کے بغیر اصلاح کی کوئی کوشش اثر انگیز، نتیجہ خیز اور کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اللہ پاک ہماری مدد کرے۔