جہیز پورے سماج پر ایک بدنما داغ اور ایک ایسی مہلک بیماری ہے، جس نے پورے ہندوستانی سماج کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور آج پور معاشرہ اس کی شکنجوں میں جکڑا ہوا سسک رہا ہے۔ ہر فرد متاثر ہے، ہر خاندان اس کی عملی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی سنگینی کا احساس نہیں۔
جہیز انسانی حرص اور خود غرضی کی پیداوار ہے۔ یہ ایک جبر ہے جو پورے معاشرہ پر مسلط ہے۔ جب تک یہ جبر نہیں ٹوٹتا، شادی میں آسانی پیدا نہیں ہوسکتی۔ اللہ کے پیارے نبیؐ نے معاشرہ کو ایسا بنانے کی تاکید کی جس میں شادی آسان ہوجائے تاکہ بدکاری نا ممکن ہو۔ صحابہ کرامؓ اس تعلیم پر عامل ہوئے تو ان کی زندگی خوشگوار اور معاشرہ پاک و صاف رہا، لیکن جب ہم اس تعلیم سے روگرداں ہوئے تو پریشانیوں نے ہمیں آدبوچا۔
علمائے دین کا ایک طبقہ اور چند تعلیم یافتہ حضرات جہیز کی موجودہ صورت کو جہیز فاطمی کی مثال دے کر جائز ٹھہرانے کی سعی کرتے ہیں، جو اسلامی غیرت کے منافی اور سماجی بے حسی کی بدترین علامت ہے۔
بے حسی نے ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ ہم نہ کنواری لڑکیوں کی آنکھوں سے جھلکتے درد کرب کو دیکھتے ہیں، نہ ان کی حسرتناکیوں کو محسوس کرتے ہیں۔ جوان لڑکیوں کے چہروں سے شباب کی لو گھٹتی جارہی ہے، مزاج میں تلخی بڑھتی جارہی ہے، مثبت نظریات پر سے ان کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے، اعلیٰ قدروں کی باتیں انہیں کھوکھلی اور وعظ و نصیحت بے معنی لگنے لگتی ہیں اور وہ سماجی رویہ کی شاکی بنتی جارہی ہیں۔ ان کا پورا وجود سراپا احتجاج ہے مگر ہمارے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔
وہ جب دیکھتی ہے کہ سماج کی حریص نگاہیں اس کی خوبیوں، اس کے حسن سیرت اور اس کے حسن اخلاق پر نہیں بلکہ سامان جہیز پر ہیں، تو وہ اندر سے ٹوٹ جاتی ہے۔ حسرت و مایوسی، محرومی اور ذہنی اذیت اسے گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور کرتی ہے یا پھر خود کشی پر۔ یہیں سے بے راہ روی کے راستے بھی کھلتے ہیں۔ نفسانی تقاضوں کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ غلط قدم اٹھاتی ہے، جس سے معاشرہ میں فحاشی و بے حیائی پروان چڑھتی ہے۔حرس و آز کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ نہ فحاشی اور بدکرداری کی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہوس کی غلامی ہمیشہ ہل من مزید کا مطالبہ کرتی ہے خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو اور یہی وجہ ہے کہ اس سماج میں جس طرح اخلاق کا بحران بڑھ رہا ہے وہ ایک طوفان کی شکل اختیار کرلے گا جس میں پورا معاشرہ بہ جائے گا۔
ہندوستان میں مردم شماری کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں عورتوں کی تعداد مردوں کی بہ نسبت کم ہوتی جارہی ہے۔ اگر جہیز کے ڈر سے لڑکیوں کے قتل کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو وہ دن دور نہیں کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے ایک چوتھائی رہ جائے گی۔ تب نفسانی و شہوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے مرد عورتوں پر وحشیانہ حملے کریں گے یا پھر ہم جنسی کا شکار ہوکر اللہ کے عذاب کا نشانہ بنیں گے۔ جہیز کے نتیجے میں پیدا ہونے والے یہ خدشات بے بنیاد نہیں۔ اس کے بدنتائج کا تجربہ بھی آئے دن ہوتا رہتا ہے۔
انسان اپنے جال میں خود پھنس جاتا ہے۔ جہیز کی رسم عارضی فائدہ کے لیے شروع ہوئی لیکن وہ ایک مستقل سر درد بن گئی۔ اس کے دور رس اثرات اور زہرناک نتائج کا اس وقت گمان بھی نہ ہوگا۔ آج اس کے اثرات کے زد میں نہ صرف فرد، بلکہ پورا سماج اور ساری انسائیت ہے۔ زندگی کی حرمت بھی پامال ہورہی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس مہلک مرض کے ابلیسی رقص کو خاموش رہ کر دیکھا جائے یا اس کے تدارک کی تدبیر کی جائے۔ یہ تدبیر کون کرے؟ پہل کس کی جانب سے ہو؟ کہاں سے شروع ہو؟ جہیز جیسے عفریت سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہر چہار جانب سے کوشش ہونی چاہیے۔ فرد ہو یا سماج، دانشور طبقہ ہو یا سرکار، سب کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ مسئلہ ہمارا ہے اور بالآخر ہم ہی اس کا شکار ہیں۔