آج ہمارے سماج کا عجب المیہ ہے۔ لوگ جہیز کو برائی اور لعنت تصور تو کرتے ہیں مگر عملی زندگی میں اس برائی کو مٹانے کے لیے کوشش نہیں کرتے۔ جب ان کی اپنی بیٹی کی شادی کا موقع آتا ہے تو وہ سماج کی برائی کو خوب کوستے اور برا بھلا کہتے ہیں مگر جب ان کے بیٹے کی شادی کا مرحلہ آتا ہے تو سب کچھ بھول کر ایسے رشتے تلاش کرتے ہیں جہاں خوبصورت دلہن کے ساتھ گاڑیوںمیں بھر کر جہیز کا سامان بھی آئے۔ ہمارے سماج میں آپ کو ایسے والدین بھی نظر آئیں گے جو محض جہیز کے سبب کئی سال چھوٹی بیٹی کی شادی اس سے عمر میں کئی سال بڑے بیٹے سے پہلے کردیتے ہیں۔ اور پیش نظر ہوتا ہے یہی جہیز۔ مگر ان کے لینے اور دینے کے پیمانے الگ الگ ہوتے ہیں۔
شادی ایک دینی، سماجی اور معاشرتی عمل ہے جس سے سماج اور گھر بنتے ہیں۔ ہمارے رسولﷺ اور صحابہؓ کی زندگیوں میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں شادیاں انسان کی فطری ضرورت کی تکمیل، معاشرہ اور خاندان کی تعمیر اور اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لیے انجام دی جاتی تھیں اس لیے دکھاوے اور نمود و نمائش سے پاک ہوتی تھیں۔ مگر تعجب ہے کہ اب ہم اہلِ ایمان کا نظریہ بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ اور اس دینی عمل کو ہم نے خالص دنیاوی دکھاوے اور دولت و شہرت کا ذریعہ بنادیا ہے۔ اور وہ بھی یک طرفہ جہاں زیادہ بوجھ محض لڑکی والوں پر ڈالا جاتا ہے۔ حالانکہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ غیر اسلامی رسوم و رواج اور جہیز و جوڑے کا لین دین لڑکے والوں کے لیے بھی ایک بڑا بوجھ ہوتا ہے، کیونکہ وہ اسے اپنی عزت اور معیار کا مسئلہ تصو ر کرتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جاہلانہ طرزِ عمل نے سب سے زیادہ ظلم لڑکی پر کیا ہے، جہاں اس کے والدین پہلے مناسب رشتے کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں اور پھر لڑکے والوں کے مطالبات کو پورا کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔
پھر بھی سماج کے لالچی اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ فکر و عمل کا عالم یہ ہے کہ بھاری رقوم اور جہیز کے وافر سامان کے ساتھ بیٹی کو رخصت کرنے کے باوجود اس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ان کی بیٹی کی خوشیاں برقرار رہیں گی اور اس کو جہیز کے سبب اہلِ خانہ کے طنز و تشنیع سے نجات مل جائے گی۔ اگر جہیز اور بھاری رقوم کے عوض بیٹی کے لیے عزت و وقار اور سکون کی ضمانت مل سکتی تو آج کوئی بہو سسرال میں کسی ظلم کا شکار نہ ہوتی، نہ اسے ستایا اور جلایا جاتا اور اور نہ ہی کوئی زندہ لاش کی طرح اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی۔ ساری دنیا عورت کے وجود، اس کی خوبصورتی اور اس کی محبت و جذبات کو مانتی تو ہے لیکن اس کی قدر نہیں کرتی۔ اس کی آنکھوں سے سنہرے خواب چھین کر بدلے میں کرب دیتی اور نوکدار کانٹے چبھو دیتی ہے۔ یہ سماج اسی کا استحصال کرتا ہے جس سے سماج کی بنیادیں قائم ہیں۔
بے چارے، بعض دین دار، لوگ اپنی مجبوری کا رونا روتے ہوئے وہی روش اختیار کرتے ہیں جو عام سماج کی ہے۔ ایسے لوگ کہتے ہیں کہ بیٹے یا بیٹی کی شادی اگر سادگی سے بنا جہیز کے کردی جائے تو سماج میں ان کا مقام و مرتبہ گرجائے گا اور لوگ انہیں تحقیر کی نگاہوں سے دیکھیں گے۔ لیکن انہیں سمجھنا چاہیے کہ ایسے معاشرے میں جہاں برائی اور غلط رسوم ورواج پکڑ گئے ہوں، ان کے خاتمے کے لیے اس تحقیر کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا بھی ایک سماجی جہاد ہے جس کے لیے جگر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہم یہی کہیں گے آپ سماج میں اپنی ناک اونچی کیے اپنے مرتبے اور مقام کو بلند کیجیے۔ مگر یہ سماج میں اس مقام و مرتبے کی بلندی آخرت کی زندگی میں کچھ کام نہ آسکے گی بلکہ الٹے ہمارے مرتبے کو ذلیل تر کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے سماج میں شادی بیاہ کی رسوم و رواج کو لے کر شان و شوکت کے اظہار میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ایک ہوڑ لگی ہے اور اس ہوڑ میں وہ لوگ بھی شریک ہیں جو بہ ظاہر سفید پوش ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس پر غور کریں کہ اس سماجی لعنت کے سبب کتنی زندگیاں سسک رہی ہیں اور کتنے گھر برباد ہورہے ہیں۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا دین اللہ کابھیجا ہوا ہے اور آسان ہے۔ یہاں ہم ہی ہیں جو آسانی کو مشکلات میں تبدیل کردیتے ہیں۔ شادی بنیادی فریضے کے ساتھ ساتھ سنتِ رسول بھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’اس سنت کو اس قدر آسان کردو کہ زنا مشکل ہوجائے۔‘‘ لیکن ہم نے اسے الٹ دیا اور نکاح کو اتنا مشکل بنادیا کہ زنا اور بدکاری آسان ہوگئی۔ایسے معاشرے پر اللہ کی لعنت!
وہ حضرات قابلِ تحسین ہیں جنھوں نے بغیر کسی لین دین کے شادیاں ہی نہیں کیں بلکہ وہ خوش اسلوبی سے اپنے فرائض کو نبھا بھی رہے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم مسلم معاشرے کو سنوارنے اور اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ ہی اس مریض سماج کو اس بیماری سے نکالنے کی جستجوکریں۔
——