یہ حقیقت ہے کہ جہیز کی رسم نے ہمارے معاشرہ میں جو صورت اب اختیار کرلی ہے وہ بے شمار مفاسد اور دینی و دنیاوی خرابیوں پر مشتمل ہے جس کے نتیجہ میں بے شمار معصوم لڑکیاں نکاح کے بغیر بیٹھی رہتی ہیں اور بے شمار وہ لوگ ہیں جو اس کام کے لیے سودی قرضے لے کر اپنے دین و دنیا کو تباہ کردیتے ہیں۔ رسمیں ایسی چل پڑی ہیں کہ بہت سی ایسی گراں قیمت اشیاء جہیز کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں جو عموماً کام نہیں آتیں۔ غرض یہ رسم بے حد مفاسد پر مشتمل ہے۔
مسلم برادریوں اور جماعتوں کا فرض ہے کہ اس رسم بد کی اصلاح کے لیے مؤثر قدم اٹھائیں، اگر حکومت اس سلسلہ میں کوئی قدم اٹھاتی ہے تو وہ بلاشبہ مسلمانوں کی صلاح و فلاح کا ذریعہ ہے مسلمانوں کو بطیب خاطر اس کی پابندی کرنی چاہیے۔
جہیز کی شرعی حیثیت اس سے زائد نہیں کہ وہ اپنی اولاد و اقرباء کی صلۂ رحمی اور اعانت و ہمدردی ہے جس کی ضرورت اور فضائل سے قرآن و حدیث کے بے شمار آیات و روایات بھری ہوئی ہیں لیکن ہر امداد و اعانت کے لیے ایسی استطاعت و قدرت مشروط ہے جس کے پیچھے شخصی یا قومی پریشانیاں پیدا نہ ہوں اور ان کی صحیح تحدید رسول ﷺ اور صحابۂ کرام کے تعامل سے ہی پہچانی جاسکتی ہے۔
رسولِ کریم ﷺ کی چار صاحبزادیاں ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھیں چاروں کا نکاح خود رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے۔ سب سے پہلی اور بڑی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا جن کی شادی مکہ مکرمہ میں ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے خالہ زاد بھائی ابوالعاص ابنِ ربیع کے ساتھ ہوئی تھی، یہ اس وقت مسلمان نہیں تھے ا ور اس وقت تک غیر مسلموں سے مسلمان عورت کا نکاح جائز تھا، ان کی شادی حضرت خدیجہؓ کی حیات میں ہوئی تھی۔ نکاح کے وقت کہیں مذکور نہیں کہ ان کو کچھ جہیز دیا گیا تھا یا نہیں اور دیا گیا تھا تو وہ کیا تھا۔ ابوالعاص کا معاملہ حضرت زینبؓ کے ساتھ نہایت شریفانہ تھا اسی لیے جس وقت رسول اللہﷺ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی تو حضرت زینبؓ اپنے شوہر کے ساتھ مکہ مکرمہ میں ہی رہیں بعد میں جب غزوئہ بدر میں مسلمانوں اور مشرکین مکہ میں پہلی جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو اس میں حیرت انگیز طور پر فتح مبین حاصل ہوئی اس میں ابوالعاص بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک تھے۔ اس جنگ میں قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے اور بہت سے گرفتار ہوکر مسلمانوں کی قید میں آئے، ان قیدیوں میں سرور عالم ﷺ کے یہ داماد ابوالعاص بھی تھے۔
یہ تھی اسلامی مساوات کہ اس قریبی رشتے کے باوجود ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی گئی جب بدر کے سبھی قیدیوں کے متعلق یہ فیصلہ ہوا کہ ان کو فدیہ کی کچھ رقم لے کر آزاد کردیا جائے تو مکہ سے سب نے اپنے اپنے عزیزوں کی رہائی کے لیے فدیہ کی رقم بھیجی۔ سرورعالم ﷺ کی صاحبزادی زینبؓ نے بھی اپنے شوہر کی رہائی کے لیے اپنے گلے کا ہار بھیج دیا۔ یہ ہار جب رسول ﷺ کے سامنے آیا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس وقت یہ راز کھلا کہ یہ ہار زینبؓ کی شادی کے وقت ان کی والدہ حضرت خدیجہ ؓ نے ان کو دیا تھا، حضرت زینب سے ان کی والدہ کی یادگارسامنے آئی تو یہ طبعی اثر ہوا۔
سردار دو عالم ﷺ کو ان کا ہار لینے میں قلبی دکھ تھا مگر مالِ غنیمت میں شرکاء جہاد کا حصہ ہوتا ہے اس لیے خود اپنی رائے سے معاف نہ کرسکتے تھے۔ صحابہ کرام سے فرمایا کہ آپ سب راضی ہوں تو ان کا ہار واپس کردیا جائے اور ابوالعاص کو ویسے ہی آزاد کردیا جائے۔ سب حضرات نے بدل و جان قبول کیا اور یہ ہار واپس ہوا، اس وقت یہ لوگوں کو پتہ چلا کہ حضرت زینبؓ کو بوقتِ شادی یہ ہار ملا تھا۔
ان کے بعد دوسری صاحبزادی رقیہؓ اور ان کی وفات کے بعد تیسری صاحبزادی ام کلثومؓ کا نکاح خود رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان غنیؓ سے کیا تھا، ان دونوں کے متعلق کہیں مذکور نہیں کہ ان کو جہیز میں کوئی چیز دی گئی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ حضرت عثمان ؓ اغنیاء صحابہؓ میں سے تھے۔ ان کے یہاں کوئی چیز بھیجنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
آخر میں سب سے چھوٹی صاحبزادی سیدۃ النساء فاطمہ زہراء تھیں، جن کی شادی رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ کے ساتھ کی تھی۔ ان کے متعلق حافظ حدیث ابن حجرؓ نے اپنی کتاب الاصابہ کی معرفت الصحابہ میں لکھا ہے کہ ان کو بوقت شادی رسول اللہ ﷺ نے یہ چند چیزیں عطا فرمائی تھیں۔
ایک بستر، ایک چمڑے کا تکیہ جس میں روئی کے بجائے کھجور کا گودا بھرا ہوا تھا، دو چکیاں، دو مشکیزے اور ایک روایت میں چار تکیے آئے ہیں اور ایک روایت میں چارپائی کا بھی ذکر ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ نے آنحضرت ﷺ سے حضرت فاطمہؓ کی نسبت کے لیے عرض کیا تو آپؐ نے ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ مال ہے؟
انھوں نے عرض کیا کہ ’’ایک گھوڑا اور ایک زرہ ہے۔‘‘
آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’گھوڑا تو تمہارے جہاد کے واسطے ضروری ہے اور زرہ کو فروحت کردو۔‘‘
انھوں نے زرہ کو فروخت کرکے اس کی رقم رسول اللہ ﷺ کے سپرد کردی کیونکہ ان کے والد حضرت ابوطالب کا انتقال ہوچکا تھا۔ ان کی پرورش بھی آنحضرت ﷺ کے گھر میں ہوئی تھی اس لیے والد کے قائم مقام بھی آپ ہی تھے۔ آپؐ نے اس رقم کو مہر کے لیے مخصوص کردیا اور کچھ درہم حضرت بلالؓ کو عطا کیے کہ کچھ خوشبو خرید لائیں اور بعض روایات میں ایک چارپائی، ایک چمڑے کے تکیہ کا بھی ذکر ہے۔ یہ چیزیں گویا خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جانب سے تیار کرائی گئیں۔
سردار دو عالم ﷺ کی چار صاحبزادیوں کے جہیز کا حال ان روایات سے آپ نے معلوم کرلیا جس سے اتنا تو معلوم ہوا کہ لڑکی کی بوقت شادی کچھ ضروری چیزیں سادگی سے دے دینا سنت سے ثابت ہے لیکن اصولِ شریعت کے لحاظ سے جو چیزیں جس درجہ میں ثابت ہوں ان کو اسی درجہ میں رکھنا ضروری ہے اور خود آنحضرت ﷺ اور صحابہؓ و تابعین کے عمل سے یہ واضح ہے کہ جہیز دینے کو نہ نکاح کا لازمی جز سمجھا گیا نہ اس کی ایسی پابندی کی گئی کہ تنگی ترشی کی ہر حالت میں جہیز ضرور ہی دیا جائے اور اس کے بغیر لڑکی کی شادی محال سمجھی جائے ۔ اس کے برعکس ہمارے زمانے میں جہیز کو جس طرح نکاح کا لازمی جز قرار دے دیا گیا ہے جس طرح اس کے بغیر لڑکی کے شادی کو ناک کٹوانے کا مترادف سمجھ لیا گیا ہے اور جس طرح اس کی مقدار میں نام و نمود اور دکھاوے کی خاطر روز بروز اضافہ کیا جارہا ہے کہ غریب سے غریب انسان قرض لے کر رشوت اور مالِ حرام استعمال کر کرکے اس مقدار کو پوری کرنا ضروری سمجھتا ہے اور جب تک اس پر قدرت نہ ہو، لڑکیاں بغیر نکاح کے بیٹھی رہتی ہیں یہ پورا طرزِ عمل سنت کے قطعی خلاف ہے اور اس سے بے شمار معاشرتی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ لہٰذا اس کی اصلاح کے لیے ہر اقدام مستحسن اور قابل تائید ہے۔ البتہ یہاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ اس قسم کی خرابیوں کی اصلاح محض قانون بنادینے سے کبھی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ لوگ دنیا کے ہر قانون سے بچنے کے لیے ہمیشہ چور دروازے نکالتے ہیں، معاشرتی اصلاح کے لیے کوئی قانون اس وقت تک مفید نہیں ہوسکتا، جب تک لوگوں کے ذہن نہ بدلے جائیں۔ لہٰذا ضرورت اس کی ہے کہ مختلف خاندانوں اور برادریوں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اس برائی کو ختم کرنے کے لیے لگن کے ساتھ کام کریں۔
نیز معاشرے میں سادگی اختیار کرنے کے لیے ہمہ گیر تحریک چلائی جائے جس کی ابتداء اعلیٰ حکام اپنے آپ سے کریں۔ سرکاری اور اعلیٰ حکام کی نجی تقریبات میں فضول خرچی سے اجتناب کیا جائے اور عملاً سادگی اختیار کرکے عوام کو دکھایا جائے اس کے بغیر اس قسم کی معاشرتی برائیوں کا انسداد ممکن نہیں۔