پھولوں سے گھرے ہوئے اس چھوٹے سے گھر میں سکون ہی سکون تھا۔ مکان تو اینٹ، سمنٹ اور کنکریٹ سے بنتا ہے جبکہ ایک مکان کو گھر بنانے کے لیے خلوص، پیار، محبت، اعتماد، ایثار اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
سوچوں میں گھری عفرا چاہت سے لگائے ہوئے پودوں کو پانی دے رہی تھی شام کا وقت اور ہوا میں خنکی تھی۔ وہ موسم سے بے نیاز اپنے آپ میں مگن تھی۔ اچھے خاصے خوشحال گھرانے کی بیٹی آج معاشی پریشانیوں کو حل کرتے ٹینس ہوجاتی اور شیطان ورغلانے لگتا۔ آج بھی ایسا ہی ہوا۔ اس نے کام پر جاتے ہوئے شہزاد کو آواز دی۔
’’سنئے ذرا آج یاد سے فیض کی دوا اور سیرلیک لیتے آئیے گا۔‘‘ دو روز سے کہہ رہی ہوں آپ کو یاد ہی نہیں رہتا۔
’’یاد تو ہے مگر کیا کروں؟ ‘‘وہ واپس پلٹتے ہوئے بولا۔
’’کیوں کیاہوا؟ اس نے فکر مندی سے اپنے پیارے ساتھی کو دیکھا جو تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔
’’بس پیسے نہیں ہیں! ورنہ بچوں سے بڑھ کر بھی کیا ہے۔ ایک تو کمر توڑ مہنگائی اور اوپر سے کاروبار میں گھاٹا، کروں تو کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا! بس اللہ ہمیں اس بحران سے نکالے وہ بہترین کارساز ہے۔ تجارت میں اتار چڑھاؤ تو آتے رہتے ہیں وقت کا پہیہ ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔‘‘
’’تم کیوں اپنا دل چھوٹا کرتی ہو۔‘‘ وہ اسے تسلی دینے لگا۔
رات دھیرے دھیرے بیت رہی تھی اور شہزاد کی آنکھوں میں نیند کا دور دور تک پتہ نہیں تھا کروٹیں بدل بدل کر وہ تھک گیا اور اٹھ بیٹھا۔ فیض کی رونے کی آواز پر عفرا کی آنکھیں کھل گئیں اور شہزاد کو بیٹھے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔
’’کیا ہوا! ایسے کیوں بیٹھے ہو، سوئے کیوں نہیں؟‘‘ وہ دیوار گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے بولی جو دو بجا رہی تھی۔
’’فیض کو ادھر دو اور مجھے ایک گلاس پانی پلاؤ۔‘‘ وہ فیض کو لینے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا۔
’’کیا بات ہے سوئے کیوں نہیں اب تک؟‘‘ وہ گلاس تھماتے ہوئے فکر مندی سے پوچھنے لگی۔
’’کچھ نہیں، نیند نہیں آئی اب سوجاؤں گا۔‘‘ اس نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا۔
فیض کو سلانے کے بعد وہ اس کے پاس آبیٹھی اور دھیرے دھیرے بالوں میں انگلیاں کرنے لگی تب وہ پرسکون ہوتا چلا گیا اور آخر نیند کی آغوش میں جاپہنچا۔
صبح کو عفرا نے کاروبار کی باتیں چھیڑ دیں۔ ’’دکان میں سامان ختم ہوگیا ہے۔ دو سال کے ادھار ابھی تک باقی ہیں نیا مال نہیں منگوا سکا۔ دوسری دکانوں کو سپلائی بھی بند ہے قرض بھی ہوگیا ہے۔ گاڑی کی مرمت کرانی ہے سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔‘‘
’’اپنے دوست شبیر حسن سے کچھ قرض لے لیجیے وہ ضرور آپ کی مدد کریں گے اور بقیہ رقم کہاں سے لاؤگی؟‘‘ اس نے فوراً ٹوک دیا۔
’’میرے پاس زیور بہت ہے تقریباً پندرہ تولے، اس میں سے کچھ فروخت کردیں۔‘‘ اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’تم کیا سمجھتی ہو، میں تمہارا زیور بیچ کر اسے کاروبار میں لگاؤں گا۔‘‘ اس نے ناپسندیدگی سے کہا۔
’’اس میں کیا برائی ہے آپ ٹھنڈے دل سے سوچئے۔‘‘ وہ اسے سمجھانے لگی۔
’’آخر قرض دے گا کون؟ اور پھر قرض ادا کرنے کی سکت بھی ہونا چاہیے، تھوڑا زیور بیچنے سے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
’’کل نوشین کی شادی ہے۔‘‘ عفرا نے دعوت نامہ شہزاد کو تھماتے ہوئے کہا۔
’’مگر یہ فنکشن پلازا تو ہمارے گھر سے بہت دور ہے۔‘‘
اس نے ایک نظر کارڈ پر دوڑاتے ہوئے کہا۔
’’میری خاص سہیلی ہے وہ۔ بہت اچھا گفٹ دینا ہے مجھے۔‘‘
’’دیکھو میں تو نہیں جاسکوں گا مجھے تو فرصت ہے نہیں اور تم کچھ بھی تحفہ دے دو، جیسی تمہاری مرضی۔‘‘
’’ہاتھ کی رنگ لوں یا کانوں کے ٹاپس؟‘‘
کیسے رہیں گی وہ پوچھنے لگی۔
’’کیا کہا…؟‘‘ وہ حیرت زدہ رہ گیا۔
’’یار! تم میری اس وقت کی پوزیشن جانتی ہو! اتنا مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ اور تحفہ تو بس تحفہ ہوتا ہے کیا مہنگا کیا سستا، یہ انسان کے خلوص پر ڈپینڈ کرتا ہے اور پھر تحفہ اپنی حیثیت کے مطابق دیا جاتا ہے۔‘‘
’’کیا خیال ہے چلیں پھر بازار تم اپنی پسند سے کوئی بھی چیز لے لو۔‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں ہے میں نہیں جاؤں گی۔‘‘ اس نے منہ پھلا کر جواب دیا۔
’’نوشین نے مجھے سونے کی رنگ گفٹ کی تھی۔‘‘ اس کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
شہزاد نے ایک نگاہ اسے دیکھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔
گھر کے چھوٹے سے لان میں وہ اداس بیٹھی تھی اسے سارا ماحول ہی اداس اور غمزدہ محسوس ہورہا تھا۔ ایسالگ رہا تھا کہ سب اس کا ساتھ دے رہے ہوں۔ وہ ناشتہ لے کر بیٹھی اور پہلا نوالہ اٹھایا ہی تھا کہ اس کا دھیان شہزاد کی طرف چلا گیا۔ ’’ارے وہ تو بھوکے چلے گئے۔‘‘ اور پھر اس کے لیے کھانا مشکل ہوگیا۔
’’یا اللہ! ایسا کبھی نہیں ہوا، ہمارے درمیان کبھی کوئی رنجش نہیں آئی۔ پیار ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے کہیں وہ سچ مچ مجھ سے ناراض ہوگئے تو…؟؟‘‘
وہ ٹہل ٹہل کر سوچ رہی تھی اور سوچ سوچ کر پریشان ہورہی تھی۔ اس نے اپنا احتساب کیا اور آگاہی کے در کھلتے چلے گئے۔
شام کو اس نے جلدی جلدی کام نمٹایا، گھر کی صفائی کی، بستر کی چادر بدلی، گلدان میں تازے پھول لگائے خوش رنگ لباس پہنا اور ’’شریکِ سفر‘‘ کا انتظار کرنے لگی۔ آخر تلافی بھی تو کرنی تھی اپنے رویہ کی۔ کال بیل کی آواز پر اس نے دروازہ کھولا اور مسکراتے ہوئے دھیرے سے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام! کیسی ہو؟ ‘‘ لان کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اس نے جواب دیا۔
یہ تو غالباً مجھ سے ناراض تھی میں تو یہ سمجھ کر آرہا تھا کہ مطلع ابر آلود ہوگا۔ اس نے سر کھجاتے ہوئے سوچا۔
’’چائے لیجیے۔‘‘اس نے ٹرے آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
وہ اسے دیکھے گیا! کیا بات ہے۔
پوچھنا اس پر غضب ڈھا گیا اور وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔
’’مجھ سے غلطی ہوگئی، آپ معاف کردیجیے۔‘‘
’’لاحول ولا قوۃ! تو بھلا اس میں رونے کی کیا بات ہے۔‘‘
’’آخر تم نے میری خوبی کا اعتراف کر ہی لیا؟‘‘ شہزاد نے شوخی دکھائی۔
جھکی جھکی نظریں، بھیگی بھیگی پلکیں، اسے اس پر ڈھیروں پیار آگیا۔
اور پھر اس نے ایک لفافہ عفرا کی طرف بڑھا دیا۔
’’ارے یہ تو موتیا کے پھول ہیں۔‘‘ وہ چہک پڑی۔
’’شکریہ اتنی محبت کا۔‘‘ اس کے لہجہ میں خوشیوں کی کھنک تھی۔
سارا ماحول بھینی بھینی خوشبو سے معطر ہوگیا۔ اور پورے گھر میں زندگی رقص کرنے لگی۔