لیمونیر کھاتے پیتے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ نوجوان ہوا اور اپنا کاروبار شروع کیا، تو وہ بھی پھل پھول گیا۔ اسی دوران اسے اپنے محلے کی ایک لڑکی سے محبت ہوگئی۔ وہ نسبتاً غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اس لیے لیمونیر نے رشتہ بھجوایا تو فوراً قبول کرلیا گیا۔
وہ ایک شریف، محنتی، دیانت دار اور سادہ نوجوان تھا۔ اتنا سادہ کہ اسے دوسرے کے چھل و فریب کا احساس نہ ہو پاتا۔ بیوی سے بہت محبت کرتا تھا۔ اسے کبھی یہ خیال نہ آیا کہ بیوی نے کسی اور وجہ سے اسے قبول کیا ہے۔
لیمونیر بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا۔ بیوی بھی اس کا خیال رکھتی۔ ادھر شوہر کے من میں وہی بسی رہتی۔ دکان جاتا، تو وہاں بھی اسی کے خیالوں میں کھویا رہتا۔ گھر میں ہوتا تو اس کا دل چاہتا کہ بیگم ہی کو تکتا رہے۔
کھانے کے وقت بھی وہی نظروں میں سمائی رہتی، حتی کہ وہ کئی احمقانہ حرکتیں کر جاتا۔ کبھی طشتری میں پانی ڈال دیتا اور گلاس میں سالن! کبھی تولیے کے بجائے اپنی قمیص سے منہ پونچھ ڈالتا۔ تب اپنے احمقانہ پن پر وہ ہنستا اور بیوی سے کہتا ’’دیکھا، میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ پاگل ہوجاتا ہوں۔‘‘
وہ خاموشی سے بیٹھی مسکراتی رہتی۔ کبھی کبھی شرما کر ادھر ادھر دیکھنے لگتی جیسے شوہر کی پیار بھری نگاہیں بے چین کیے ہوئے ہیں۔ کبھی موضوع بدلنے کی سعی کرتی، مگر لیمونیر میز کے نیچے سے ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھامتا اور سرگوشی کرتا: ’’میری پیاری جینی، میری پیاری جینی۔‘‘
بعض اوقات جینی ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھی۔ تب وہ مصنوعی ترشی سے کہتی ’’ارے، ارے! ہوش و حواس میں آؤ۔ کھانا کھاؤ اور مجھے بھی کھانے دو۔‘‘
وہ سرد آہ بھرتا اور ہولے ہولے کھانا کھانے لگتا۔
پانچ سال تک وہ اولاد سے محروم رہے۔ پھر اچانک بیوی نے خوش خبری سنائی۔ لیمونیر مسرت کے مارے ناچنے لگا۔ اس نے پھر بیوی کو کام کرنے سے روک دیا۔ گھریلو کام کرنے کی خاطر اپنی آیا کو بلوالیا جس نے لیمونیر کو پالا تھا۔ وہ اس کی بہت عزت کرتا تھا۔ اب بیگم کے ناز نخرے پہلے سے زیادہ اٹھائے جانے لگے۔
محلے میں اس کی صرف ڈور ٹور نامی نوجوان سے دوستی تھی جو مقامی مجسٹریٹ کے دفتر میں کلرک تھا۔ ڈور ٹور بچپن سے اس کی بیوی کا بھی شناسا تھا۔ یہی وجہ ہے شادی کے بعد وہ لیمونیر کے گھر آنے لگا۔ رفتہ رفتہ اتنی دوستی بڑھی کہ ڈور ٹور ہفتے میں تین دن ان کے گھر آتا اور کھانا بھی وہیں کھاتا۔
ڈور ٹور کبھی لیمونیر کے لیے تحفہ لاتا، کبھی اس کی بیگم کو پھول پیش کرتا۔ کھانے کے بعد اکثر وہ ٹہلنے نکل جاتے یا تھیٹر دیکھتے۔ جب لیمونیر ترنگ میں ہوتا تو بیوی کی سمت مڑتا اور کہتا: ’’جب تمہارے جیسی شریک حیات اور تم جیسا دوست ہو، تو انسان خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہے۔‘‘
لیکن وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ دوران زچگی وہ چل بسی۔ لیمونیر اس صدمے سے مرتے مرتے بچا۔ اگر معصوم بچے کی صورت نظر نہ آتی تو وہ خود کشی کرلیتا۔ مگر بیٹے کی کلکاریوں نے اسے جینے کا حوصلہ دے ڈالا۔
وہ بچے سے بہت محبت کرنے لگا۔ اس کی صورت دیکھتے ہی اسے مرحوم بیوی یاد آجاتی۔ وہ پھر گھنٹوں اسے تکتا اور اپنی محبوب شریک حیات کے ساتھ گزری یادیں تازہ کرتا رہتا۔ کبھی روتا، کبھی بچے کی معصوم حرکتوں پر مسکرا اٹھتا۔
وقت گزرتا رہا اور بچہ بڑا ہوگیا۔ باپ کی محبت میں کوئی کمی نہ آئی، بلکہ اب وہ دن کا بیشتر حصہ جین کی معیت میں گزارنے لگا۔ وہ اسے نہلاتا، دھلاتا، کپڑے پہناتا اور کھانا کھلاتا۔ مگر جب کاروباری مصروفیات آڑے آئیں، تو اپنی مدد کے واسطے اس نے پھر آیا کلسیٹی کو بلا لیا۔
لیمونیر کا دوست، ڈور ٹور بھی بچے کو چاہتا تھا۔ جب آتا، اس کے لیے چاکلیٹ، ٹافیاں اور بسکٹ لاتا۔ کبھی کبھی جین کو اتنی شدت سے چومتا جو عموما والدین ہی سے مخصوص ہے۔ فارغ ہوتا، تو گھنٹوں بچے کے ساتھ کھیلتا اور اس کا دل بہلاتا۔
گھر میں صرف بوڑھی آیا، کلیسٹی بچے سے الفت نہ دکھاتی۔ بلکہ وہ دونوں مردوں کو جین سے لاڈ یار کرتے دیکھتی تو طیش میں آجاتی۔ اکثر وہ تلخی سے انہیں مخاطب کرتی ’’ارے، اس کے اتنے لاڈ اٹھاؤ گے، تو یہ بڑا ہوکر بگڑا نواب نکلے گا۔ اس کا مستقبل تباہ نہ کرو۔‘‘ یہ سن کر دونوں ہنس پڑتے۔ یوں بات ہنسی کی رو میں گم ہوجاتی۔
دس سال گزر گئے۔ جین اب سمجھ دار ہوگیا۔ لیکن اسے کھیل کود، کھانے پینے اور سونے کے علاوہ کچھ کام نہ آتا تھا۔ ابھی تک وہ الف بے نہیں پڑھ سکا تھا۔ باپ کے لاڈ پیار نے واقعی اسے بگاڑ ڈالا۔ وہ بڑا ضدی، جلد غصے میں آجانے والا اور خود غرض نکلا۔
باپ اس کی ہر جا و بے جا فرمائش پوری کرتا۔ ڈور ٹور بھی وہی چیزیں لاتا جو جین کو پسند ہوتیں۔ چناں چہ کیک، پیسٹریاں اور چاکلیٹ کھاکر وہ پیٹ بھر لیتا۔ ادھر یہ صورت حال دیکھ کر کلیسٹی جلتی بھنتی رہتی۔ کبھی کبھی صبر کا دامن چھوڑ بیٹھتی تو غصے سے کہتی: ’’مونسیورا ہوش میں آئیں اور عقل سے کام لیں۔ آپ بچے کو تباہ کر رہے ہیں، لیکن یہ روش تھم جانی چاہیے۔ مونسیورا یہ چلن زیادہ عرصے نہیں چل سکتا۔‘‘
لیمونیر مسکرا کر کہتا: ’’اماں! تم سمجھتی کیوں نہیں، میں اس کی کوئی بات رد نہیں کرسکتا۔ اتنے برس ہوگئے، تمہیں یہ بات سمجھ جانی چاہیے تھی۔‘‘
چند ماہ بعد جین بیمار ہوگیا۔ ڈاکٹر کو دکھایا، تو اس نے بتایا کہ لڑکے میں خون کی کمی ہے۔ ڈاکٹر نے ہدایت دی کہ بچے کو گوشت کھلاؤ اوریخنی پلاؤ تاکہ خون پیدا ہو۔ مگر لڑکے کو تو کیک اور چاکلیٹ کھانے کا چسکا لگ چکا تھا۔ لہٰذا اس نے یخنی پینے سے انکار کر دیا۔ جب وہ رویا پیٹا، تو باپ مجبوراً اس کے لیے کیک لے آیا۔
ایک رات وہ حسب معمول صحن میں کھانا کھانے بیٹھے۔ تبھی آیا ہاتھوں میں یخنی کا ڈونگا اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے تیور بتلا رہے تھے کہ آج وہ لڑکے کو یخنی پلا کر دم لے گی۔ اس نے ڈونگا میز پر رکھا، پیالے میں یخنی ڈالی اور اعلان کیا: ’’آج میں نے بڑی مزے دار یخنی بنائی ہے۔ لڑکے کو تھوڑی بہت ضرور پینی پڑے گی۔‘‘
لیمونیر چوکنا ہوکر بیٹھ گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ کوئی طوفان آنے والا ہے۔
کلسیٹی نے پیالہ مالک کے سامنے رکھ دیااور اسے تکنے لگی۔ لیمونیر نے ایک چسکی لی اور بولا: ’’ہونہہ! واقعی یہ بہت لذیذ ہے۔‘‘
آیا نے پھر دوسرے پیالے میں یخنی ڈالی، اسے لڑکے کے سامنے رکھا اور چند قدم پیچھے ہٹ کر اس کا جائزہ لینے لگی۔
’’لڑکے نے منہ بڑھا کر پیالہ سونگھا اور پھر کراہت آمیز انداز میں اسے پیچھے دھکیل دیا۔ یہ دیکھ کر کلسیٹی نے بڑے چمچ سے یخنی لی اور زبردستی لڑکے کے منہ میں دی۔
لڑکے نے قے کردی اور یخنی باہر تھوک ڈالی۔ پھر طیش میں آکر پیالہ اٹھایا اور کلسیٹی کو دے مارا۔ وہ اس کے سینے پر لگا۔ اب تو وہ بھی غصے سے بھری شیرنی بن گئی۔
وہ دفعتاً بڑھی، ڈونگا لڑکے کے قریب کیا، اس کی گردن اپنے دائیں بازووں کے شکنجے میں کسی اور چمچ کے ذریعے بزور یخنی منہ میں ڈالنے لگی۔ لڑکا اس کی گرفت میں مچلنے، تڑپنے اور بل کھانے لگا مگر طاقتور آیا سے خود کو نہ چھڑا سکا۔
’’یہ منظر دیکھ کر پہلے تو لیمونیر گنگ رہ گیا۔ اسے سمجھ نہ آیا کہ کیا کرے۔ پھر حواسوں میں آیا، تو دیوانے کے مانند بڑھا۔ آیا کو گلے سے پکڑا اور اسے زور سے دھکا دیا۔ وہ نیچے جاگری، تب وہ چلایا:
’’یہاں سے دفع ہوجاؤ ظالم عورت۔‘‘
آیا فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ چہرے پر ندامت کے کوئی آثار نہ تھے۔ بلکہ آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔ چہرے پر خشونت چھائی تھی۔ وہ پاٹ دار آواز میں گویا ہوئی۔ ’’آپ نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا؟ مجھے اس لیے مارا گیا کہ میں لڑکے کو مقوی غذا کھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جب کہ آپ کی کھلائی میٹھی اشیاء اسے مار ڈالیں گے۔‘‘
مگر لیمونیر غصے کے عالم میں تھرا رہا تھا۔ وہ مسلسل یہی کہے گیا: ’’دفع ہوجاؤ، نکل جاؤ ظالم عورت۔‘‘
اب تو عورت کا پارہ مزید چڑھ گیا۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں پلے مالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور پھر ٹھہر کر بولنے لگی: ’’تم سمجھتے ہو کہ اپنی من مانی کرلوگے، نہیں بالکل نہیں اور پھر کس کے لیے…؟ اس لڑکے کی خاطر جو تمہارا بچہ نہیں۔ ہاں، وہ تمہارا بچہ نہیں، تمہارا بچہ نہیں۔ محلے میں ہر کوئی یہ سچائی جانتا ہے، تمہارے سوا! ذرا قصائی سے پوچھو، نائی سے دریافت کرو، دکان دار سے پتا کرو، سب جانتے ہیں۔‘‘
شدت جذبات کی وجہ سے بولتے ہوئے آیا کے منہ سے کف جاری ہوگیا۔ بدن ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ پھر نجانے کیا خیال آیا، اس نے خود کو سنبھال کر مالک کی طرف دیکھا… لیمونیر تو بت بنا کھڑا تھا۔ بازو کسی مردے کے مانند گرے ہوئے تھے۔ تبھی وہ مدھم جیسے گہری نیند سے جاگ کر شکستہ آواز میں بولا: ’’تم نے کیا کہا، کہا، تم نے کیا کہا؟‘‘
اب آیا کو مالک کی حالت دیکھ کر کچھ خوف محسوس ہوا۔ وہ خاموش کھڑی رہی، لیمونیر ایک قدم بڑھا اور اپنا جملہ کچھ زور سے دہرایا:
’’تم نے کیا کہا، پھر بولو، کیا کہا؟‘‘
اب آیا پرسکون لہجے میں گویا ہوئی: ’’میں نے وہی کہا جو ہر کوئی جانتا ہے۔‘‘
اچانک مالک پھر اس پر شکرے کی طرح جھپٹا اور گردن سے پکڑ کر اسے دیوار پردے مارنا چاہا۔ لیکن بوڑھی عورت نے ساری عمر خالص غذا کھائی تھی۔ لہٰذا لیمونیر اسے صحیح طرح گرفت میں نہ لے سکا۔ وہ اس کی قید سے آزاد ہوئی، دروازے کی سمت بھاگی اور وہاں کھڑے ہوکر پھر درشتی سے چلائی: ’’بے وقوف اس کی طرف دیکھو، غور سے نظر ڈالو۔ کیا وہ ڈورٹور کی ہوبہو شکل نہیں؟ اس کی ناک اور آنکھیں دیکھو، کیا یہ تم پر گئی ہیں؟ اور تمہیں وہی بتایا جو سب جانتے ہیں… سوائے تمہارے محلے میں تمہارا مذاق اڑتا ہے۔ دیکھو، اسے دیکھو!‘‘
آیا نے پھر دروازہ کھولا اور باہر غائب ہوگئی۔ جین سارے تماشے کے دوران دم سادھے بیٹھا رہا۔ آنکھوں سے خوف جھلک رہا تھا۔
ایک گھنٹا ادھر ادھر پھرنے کے بعد آیا گھر واپس لوٹی۔ وہ دروازہ آہستہ سے کھول کر اندر داخل ہوئی۔ دیکھا جین سارے کیک اور چاکلیٹ اڑانے کے بعد اب جام کی بوتل پر ہاتھ صاف کر رہا ہے۔ باپ وہاں موجود نہ تھا۔
کلسیٹی بچے کے پاس پہنچی، اسے ماتھے پر بوسہ دیا نرمی سے اس کو کمرے میں لے گئی اور وہاں سلا دیا۔ پھر واپس صحن میں آئی، میز اور فرش صاف کیا اور بکھری اشیا اپنی جگہ رکھیں۔ اس دوران وہ خاصی بے چینی محسوس کرتی رہی۔
گھر میں مکمل خاموشی طاری تھی۔ بس صحن میں لگے درختوں کے پتے ہوا میں سرسرا رہے تھے۔ دبے پاؤں مالک کے کمرے تک پہنچی، وہاں بھی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے تالے کے سوراخ پر آنکھ جما دی۔ دیکھا وہ اپنی میز پر بیٹھا کچھ لکھ رہا ہے۔ وہ مطمئن وشانت نظر آتا تھا۔
وہ باورچی خانے میں چلی آئی، برتن دھوئے اور پھر اپنے کمرے میں جاپہنچی۔ وہ دیر تک جاگتی رہی پھر نیند نے اسے آن لیا۔
آیا صبح سویرے جاگی۔ ہاتھ منہ دھوکر حسب معمول صحن اور ملحق کمروں کی صفائی کی۔ چیزیں جھاڑی پونچھیں۔ آٹھ بجے مالک کے لیے ناشتا بنایا۔ لیکن وہ ہمت نہ کرسکی کہ ٹرے اس کے پاس لے جائے۔ عورت کو علم تھا کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا۔
وہ لیمونیر کے آنے کا انتظار کرتی رہی۔ نو بجے اور پھر دس بج گئے، لیکن کسی کی آواز تک سنائی نہ دی۔ لڑکا تو گیارہ بارہ بجے آرام سے اٹھتا تھا۔
آخر وہ جی کڑا کر کے خود ہی اٹھی اور ٹرے سنبھالی۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ مالک کے کمرے تک پہنچی اور دروازے پر رک کر کچھ سننے لگی۔ اندر بدستور سناٹا طاری تھا۔ اس نے دستک دی، کوئی جواب نہ آیا۔
کلسیٹی نے بچا کھچا حوصلہ جمع کیا، دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگئی۔ اسے جو منظر نظر آیا، اس نے آیا کی چیخیںنکال دیں۔ ٹرے زمین پر گر پڑی اور وہ خوف زدہ ہوکر باہر نکل آئی۔
کمرے کے وسط میں رسی سے بندھی لیمونیر کی لاش لٹکی ہوئی تھی۔ زبان دہشت زدہ انداز میں باہر نکلی پڑی تھی۔ فرش پر اوندھی گری ایک کرسی بھی نظر آئی۔ خوف زدہ کلیسٹی کی چیخیں سن کر جلد ہی کئی مرد و زن جمع ہوگئے۔ ڈاکٹر بھی آپہنچا۔ اس نے بعد از معائنہ بتایا کہ لیمونیر تو آدھی رات کو چل بسا تھا۔
اس کی میز پر ایک خط پایا گیا۔ وہ مسٹر ڈور ٹور کے نام تھا۔ خط صرف ایک جملے پر مشتمل تھا: ’’میں بچہ تمہارے سپرد کیے جا رہا ہوں۔‘‘lll