آخر کار اس ہنگامہ نے اپنی معراج پا ہی لی جس سے لڑکیاں کل ہی سے خوف زدہ تھیں۔ بات کا اختتام بھی آخر میں وہی ہوا جس کا کالج کی ساری لڑکیوں کو خدشہ تھا اوریہ خدشہ ایک طرح سے اپنی جگہ پر درست بھی تھا کیونکہ مسز سانیال کے ساتھ پرنسپل مس سروجہ کاکل کا رویہ کسی حد تک بھی مناسب نہ تھا۔ بات بہت معمولی تھی۔ بہت چھوٹی سی تھی۔ اگر وہ مسز سانیال کو آٹھ دن کی رخصت دے دیتیں تو شاید یہ معمولی سا واقعہ اتنا غیر معمولی ہرگز نہ بنتا اور نہ ان کے آفس کی دیواروں ہی سے باہر نکلتا اور نوبت مسز سانیال کے استعفے تک نہ آتی۔ وہ کل ہی دس دن کی چھٹی کے بعد واپس آئی تھیں اور انھوں نے صبح ہی اپنی کالج کی ڈیوٹی جوائن کی تھی لیکن ان کے شوہر کے اچانک حادثہ کے تار نے انھیں پھر چھٹی لینے پر مجبور کردیا تھا اور ان کے دل میں دہلی پہنچنے کے لیے بہت بے چینی پیدا کردی تھی۔
یہ کل کے چوتھے پیریڈ کا واقعہ ہے کہ انھیں ایک ٹیلی گرام ملا تھا جس میں انھیں اطلاع دی گئی تھی کہ مسٹر سانیال اچانک ایک کار سے ٹکراگئے ان کی حالت اچھی نہیں ہے اور وہ دہلی کے ولنگٹن ہاسپٹل میں داخل کردئے گئے ہیں۔ وہ اس وقت تھرڈ ایر انگلش لٹریچر کا کلاس لے رہی تھیں۔ ساری لڑکیوں نے دیکھا تھا کہ مسز سانیال اس غیر متوقع اور غم انگیز تار کو پاکر نیم پاگل سی ہوگئی تھیں اور انھوں نے اسی لمحہ آٹھ دن کی چھٹی کی درخواست مس سروجہ کے نام لکھی تھی۔ وہ تار بھی انھوں نے اپنی درخواست کے ساتھ منسلک کردیا تھا۔ اور پھر وہ کلاس انھوں نے چھوڑدیا۔
جب وہ اس درخواست اور تار کو لے کر پرنسپل مس سروجہ کے آفس میں داخل ہوئیں تو انھوں نے ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے مسز سانیال سے کرسی پر بیٹھنے کو کہا لیکن دوسرے ہی لمحے مس سروجہ کے ہونٹوں کی مسکراہٹ ان کے غمزدہ چہرے کو دیکھ کر ایک دم مٹ گئی۔ انھوں نے گھبرائے ہوئے لہجہ میں مسز سانیال سے پوچھا : ’’اس وقت تم اتنی پریشان کیوں ہو؟‘‘
مسز سانیال نے لرزتے ہاتھوں سے چھٹی کی درخواست اور وہ تار ان کی میز پر رکھ دیا۔ اور پھر خود بھی ہچکیوں کے درمیان اس المناک حادثے کے بارے میں انھیں سب کچھ بتادیا۔ مس سروجہ نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ دیر تک ٹیلی گرام کو گھورتی رہیں اور کسی نئی گہری سوچ میں ڈوبی رہیں۔
سوچوں کے اس بیکراں سمندر سے نکلنے کے کچھ دیر بعد انھوں نے مسز سانیال کے چہرہ پر ایک معنی خیز نگاہ ڈالی اور بولیں:
’’تم کل ہی دس دن کی چھٹی کے بعد ان کے پاس سے واپس آئی ہو اور تار کے مطابق کل ہی ایکسیڈنٹ بھی ہوگیا، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
’’مسز سانیال ان کے منھ سے ہمدردانہ الفاظ کے بجائے یہ غیر متوقع جملہ سن کر حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگیں۔ اور پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولیں وہ مجھے اسٹیشن تک پہنچانے آئے تھے ہوسکتا ہے واپسی میں حادثہ ہوگیا ہو۔‘‘
’’میرے خیال میں یہ تار فرضی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ مس سروجہ نے دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے اپنی روایتی صاف گوئی سے کام لے کر کہا۔
’’لیکن مجھے ہر حالت میں وہاں پہنچنا ہے۔ میرے ساتھ کوئی ایسا مذاق نہیں کرسکتا۔ اگرچہ تار بھیجنے والے کا نام بسنت ہے اور اس نام کا میرا کوئی رشتہ دار وہاں نہیں ہے۔‘‘
’’جذباتی نہ بنو، میرے خیال کے مطابق پہلے تم خود ایک جوابی ٹیلی گرام یہاں سے ان کے آفس کے پتہ پر کردو۔ پوری طرح معلوم ہوجائے تو چلی جانا۔ تمہیں معلوم ہے کہ پچھلے دنوں لڑکیوں کی پڑھائی کا کس قدر نقصان ہوا ہے۔ اب تم پھر چھٹی لینا چاہتی ہو۔‘‘
’’اس کی ذمہ داری میرے اوپر ہے میں صحیح وقت پر ان کا کورس ختم کرادوں گی۔ آپ بے فکر رہیں۔‘‘
’’تمہارے اتنا کہنے سے کچھ نہ ہوگا۔ کالج کی پرنسپل ہونے کی حیثیت سے ریزلٹ کی ذمہ داری میرے اوپر ہے۔‘‘
’’لیکن میرا کیس سیریس ہے میڈم۔ میں ہر حالت میں جاؤں گی چاہے چند چند ہی لمحوں کے لیے جاؤں۔‘‘
’’تم اگر جاؤ گی تو اس میں میری مرضی ہرگز شامل نہ ہوگی۔ میں موجودہ حالت میں ہرگز چھٹی نہیں دے سکتی۔ ہاں اگر تم ایک جوابی تار دہلی بھیج دو اور اس کے جواب میں بھی یہی لکھا ہوا آئے تو میں ضرور چھٹی دے دوں گی۔ تم آج ٹیلی گرام دے کر کل تک کا انتظار کرسکتی ہو۔‘‘
’’لیکن میڈم، میرا سہاگ۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ ایک دم خاموش ہوگئیں۔ جیسے کربناک خوابوں میں کھوگئی ہوں۔
مس سروجہ نے چہرہ پر بناوٹی غصہ لاتے ہوئے کہا : ’’میرا دل اتنا کمزور نہیں کہ تمہارے آنسوؤں میں بہہ جائے۔ مجھے تم سے زیادہ لڑکیوں کی پڑھائی کا خیال ہے۔ تم لوگوں کو اپنے شوہر اتنے پیارے ہوتے ہیں تو پھر نوکری کرنے کیوں آتی ہو؟ ہمیں دیکھو ہم نے شادی صرف اسی لیے نہیں کی کہ میں اپنی پوری زندگی تعلیم کی راہوں پر قربان کردینا چاہتی ہوں۔‘‘
مسز سانیال خاموشی سے سب کچھ سنتی رہیں اور سوچتی رہیں کہ آخر آج مس سروجہ اس ایک معمولی بات پر کیوں اڑ گئی ہیں۔ انھوں نے تو اس سے پہلے کبھی ان کی کسی بات پر غصہ نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ اس وقت ان کا موڈ خراب ہو … لیکن … لیکن … اور وہ روتی ہوئی ان کے کمرہ سے باہر آگئیں۔
ایک گھنٹہ اور گزرگیا تھا۔ دہلی جانے والی گاڑی کا وقت بھی گزر گیا تھا۔ نہ جانے کیوں پرنسپل مس سروجہ انھیں چھٹی دینے کے لیے راضی نہ ہوئی تھیں۔ مسز سانیال نے اسٹاف روم میں رو رو کر برا حال کرلیا تھا اور اس کے بعد کوئی کلاس بھی نہیں لیا تھا۔ ان کے اداس اور مضمحل چہرہ پر آنسوؤں کے بیشمار شبنمی قطرے موتیوں کی طرح گرنے لگے تھے۔ وقت جوں جوں گزر رہا تھا ان موتیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ کالج کی ہر دلعزیز اور پُر وقار پروفیسر مسز ملک جن کی بات مس سروجہ نے کبھی نہ ٹالی تھی وہ بھی مسز سانیال کی سفارش میں بہت کچھ کہہ کر تھک چکی تھیں۔ لیکن مس سروجہ اس معاملے میں نہ جانے کیوں پتھر کی نہ ہلنے والی چٹان بن کر رہ گئی تھیں۔جس میں جذبات نام کی کوئی چیز جنم ہی نہ لے سکتی تھی۔ یہ دیکھ کر اسٹاف روم میں بھی اداسی چھا گئی تھی۔ ہر کوئی ان کی طرف سے مایوس ہوچکا تھا اور ہر پروفیسر کو اپنے مستقبل میں لینے والی ضروری چھٹیوں کے لمحے یاد آگئے تھے۔ غم اور اداسی کی لہریں جب اسٹاف روم سے نکل کر کامن روم میں پہنچیں تو ان لہروں سے سب سے زیادہ متاثر تھرڈ ایر کی لڑکیاں تھیں کیونکہ مسز سانیال کا سب سے زیادہ تعلق اسی کلاس سے تھا۔ یہی وہ کلاس تھا جس کا ہر روز ایک پیریڈ وہ لیا کرتی تھیں۔ اس کلاس کی ہر لڑکی انھیں پروفیسر سے زیادہ اپنی بڑی بہن سمجھتی تھی۔ ان کی چھٹیوں کی نامنظوری ہر ایک کے لیے حیران کن بات تھی۔ کیونکہ ہر لڑکی جانتی تھی کہ اب سے دو سال پہلے مسز سانیال کو خود مس سروجہ نے کوشش کرکے کانپور سے اپنے کالج میں ٹرانفسر کرالیا تھا۔ وہ اپنے ڈپارٹمنٹ میں ایک اسمارٹ اور محنتی پروفیسر کی حیثیت سے مشہور تھیں۔ ان کی سروس زیادہ پرانی نہ تھی پھر بھی وہ اتنی تجربہ کار مانی جاتی تھیں کہ وہ جس کالج میں جاتیں وہاں کا انگلش لٹریچر کا ریزلٹ مثالی حیثیت کا بن جاتا۔ اس لیے اب ان کے استعفیٰ کی خبر ایک بھاری مسئلہ بن کر لڑکیوں کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی۔
ایسے نازک موقع پر جب ان کے شوہر مسٹر سانیال کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہو ان کی آٹھ دن کی چھٹی کی درخواست مس سروجہ اتنی بے رحمی سے نامنظور کردیں گی یہ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ اگرچہ مس سروجہ کالج بھر میں اپنی اصول پسندی اور سخت گیری کے لیے مشہور تھیں پھر بھی لڑکیاں ان کی نرم دلی کے بارے میں یہ بھی جانتی تھیں کہ انھوں نے ایک بار اپنی نئی اور قیمتی جرسی صرف اس بات پر اپنی ملازمہ کو دے دی تھی کہ اس بے چاری نے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے ان سے اس کی قیمت پوچھ لی تھی۔ وہ نفسیاتی طور پر اس کا مقصد سمجھ گئی تھیں اور اپنی کئی سو روپے کی جرسی زبردستی اپنی اس ملازمہ کو پہنا دی تھی۔ مسز سانیال سے ان کے اچھے تعلقات تھے۔ وہ لڑکیوں میں بھی کافی گھلی ملی رہتی تھیں۔ یہاں تک کہ لڑکیوں کی ضد پر کسی بھی پروگرام میں وہ کئی کئی گیت یا اپنے پسندیدہ شاعر نخشبؔ کی غزلیں سنادیتی تھیں اور آفس میں وہ ہمیشہ ایک گزیٹیڈ آفیسر کی طرح پیش آتی تھیں لیکن آج تک کسی لڑکی نے تصور میں بھی نہ سوچا تھا کہ وہ اتنی سخت بھی ہوجائیں گی کہ بے چاری مسز سانیال کے آنسوؤں سے بھی ان کا دل نہ پسیجے گا۔
جب پانچویں پریڈ کے بعد بہت سی لڑکیوں نے مسز سانیال کو اسٹاف روم میں روتے ہوئے دیکھ لیا تو ان ساری لڑکیوں کے دل اُن کے لیے تیز تیز دھڑکنے لگے اور سب کی آنکھوں سے ان کا غم چھلکنے لگا۔ رنگ برنگے دوپٹے فکر آمیز انداز میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔
’’کیوں نہ ہم سب پرنسپل صاحبہ کے پاس چلیں۔‘‘ ہر وقت مسکرانے والی صبیحہ نے کہا۔
قمر نے بتایا کہ وہ مسز ملک تک سے انکار کرچکی ہیں اور اب ان سے کچھ کہنا بیکار ہی ہے۔
رابعہ نے اپنی رائے پیش کی ’’جانے میں ہرج ہی کیا ہے؟‘‘
’’اگر مسز سانیال نے استعفیٰ دے دیا تو ہم سب کی پڑھائی کا کیا ہوگا؟‘‘ نجمہ نے اپنی فکر کا اظہار کیا۔
’’اتنی معمولی بات پر وہ ہرگز استعفیٰ نہیں دے سکتیں۔‘‘ افروز نے پُر یقین لہجہ میں کہا۔
’’تمہیں شاید نہیں معلوم جب ہم پکنک منانے کالا گڑھ گئے تھے تو انھوں نے اپنی زندگی کے حالات بتاتے ہوئے ہم سے کیا کہا تھا؟‘‘ سب لڑکیوں نے اشتیاق بھری نظروں سے سوشیلا کی طرف دیکھا۔
ناہید ایک دم بولی ’’کیا کہا تھا؟‘‘
’’وہ صرف شوق کی خاطر یہ نوکری کررہی ہیں ورنہ ان کے شوہر ہرگز اس نوکری کے حق میں نہیں ہیں۔‘‘ سوشیلا کے بجائے باتونی لڑکی ششی نے جواب دیا۔
’’تو … تو … وہ ضرور استعفیٰ دے سکتی ہیں۔‘‘ سب لڑکیوں کے منھ سے ایک ساتھ نکلا۔
آخر کار یہی طے ہوا کہ پرنسپل صاحبہ کے پاس جانا ہی چاہیے۔ وہ سب آفس کی طرف چل پڑیں۔ کسی کو امید نہ تھی کہ مس سروجہ ان کی بات مان لیں گی۔ ان کی ضدی طبیعت سے سب واقف تھیں لیکن پھر بھی وہ ان کے پاس اس طرح جارہی تھیں جیسے کسی نرم روندی کی لہریں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہوں۔ اور سامنے کسی منھ زور چٹان سے ٹکرانے والی ہوں۔ یہ لہریں اس چٹان سے تو کیا ٹکراتیں پہلے آفس کے دروازہ پر پڑے ہوئے نیلے پردے سے ٹکرائیں قمر جو اسٹوڈینٹ یونین کی صدر تھی اور جو دن میں کئی بار مس سروجہ کے پاس بلائی جاتی تھی، لڑکیوں کے ہر معاملہ میں پیش پیش رہتی تھی اور ان سے بیباکانہ طور پر گفتگو کرلیتی تھی، اسی نے پردہ کو ہلکی سی جنبش دی۔ لیکن یہ دیکھ کر لڑکیوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مس سروجہ کی جگہ انھیں مس ناگر کا موٹے نقش والا بھیانک چہرہ ان کی کرسی پر نظر آرہا تھا۔ سب لڑکیاں ٹھٹک کر رہ گئیں۔ مس سروجہ آفس سے کیوں غائب ہوگئیں؟ اور ان کی جگہ غیر متوقع طور پر کالج کی وائس پرنسپل مسز ناگر کیوں کام کررہی ہیں؟ مسز ناگر کے بتانے پر معلوم ہوا کہ مس سروجہ کی طبیعت خراب ہوگئی ہے اور اس وقت وہ اپنے کمرہ میں آرام کررہی ہیں۔ کالج بلڈنگ سے چند قدم کے فاصلہ پر پرنسپل صاحبہ کا بنگلہ تھا۔ سب لڑکیوں نے وہاں تک جست بھری۔ لیکن وہاں ان کے چپراسی سے یہ سن کر ساری لڑکیوں کے دل ڈوب گئے کے پرنسپل صاحبہ نے کسی سے بھی ملاقات کرنے کے لیے منع کردیا تھا۔ اس کے بعد یہ بات ایک پہیلی بن چکی تھی اور مسز سانیال کے ایک سنجیدہ مسئلہ کے لیے ان کا یہ رویہ کالج کے ہر فرد کے لیے گہری نفرت کا باعث بن گیا تھا۔
اس طرح چھٹا گھنٹہ بھی بیت گیا۔
پھر چھٹی بھی ہوگئی۔
اور بات کل کے لیے ٹل گئی۔
اور یہ آج کی بات ہے کہ پہلا پیریڈ بھی ختم نہ ہونے پایا تھا کہ ریحانہ نے نہ جانے کہاں سے یہ خبر پاکر سنائی کہ پرنسپل صاحبہ گذشتہ شب کی کسی گاڑی سے کہیں چلی گئی ہیں۔ چوکیدار کے کہنے کے مطابق انھوں نے اس سے پہلے کبھی اس گاڑی سے سفر نہیں کیا تھا۔ رات جب وہ تنہا گئی ہیں تو ان کی آواز بھاری تھی۔ وہ اچھی طرح بول بھی نہیں پارہی تھیں۔ انھیں رکشہ بہاری ہی نے لاکر دیا تھا لیکن وہ اسے اپنے ساتھ اسٹیشن تک بھی نہیں لے گئی تھیں۔ یہ بات ہوا کی طرح سارے کالج میں پھیل گئی اور پہلے ہی پیریڈ سے کلاسز میں مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ شروع ہوگئی۔ دوسرا پیریڈ کس قدر بے چینی کے عالم میں گزرا۔ کالج کی پوری فضا کل کے واقعہ کے اثر سے خاصی سوگوار تو تھی ہی لیکن اس سوگواری میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب یہ بات پوری طرح یقین کی حد کو پہنچ گئی کہ واقعی پرنسپل صاحبہ کالج نہیں آئی ہیں۔ اور ان کی جگہ وائس پرنسپل مسز ناگر کام کررہی ہیں۔ تیسرے پیریڈ کو شروع ہوئے ابھی کچھ ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ رابعہ نے آکر یہ اطلاع بھی دے دی کہ ابھی ابھی جب وہ پانی پینے کے لیے باہر گئی تھی تو مہری نے اسے پورے یقین کے ساتھ یہ بتایا کہ مسز سانیال نے اپنا استعفیٰ لکھ کر مسز ناگر کو پیش کردیا ہے۔
یہ سنتے ہی سب لڑکیوں کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔
’’اب کیا ہوگا؟‘‘ سلمیٰ کی بھاری آواز اداس ماحول میں ابھری۔
’’ہمیں اس کلاس میںابھی پورے ایک سال پڑھنا ہے۔‘‘ اوشا نے دور مستقبل کی طرف دھیان دوڑایا۔
’’ایسا نہ ہونا چاہیے۔‘‘ قدسیہ نے کہا۔
پیریڈ خالی تھا۔ ساری لڑکیاں اسٹاف روم کی جانب چلیں۔ ابھی ان سب نے گیلری میں چند ہی قدم طے کیے ہوں گے کہ اسٹاف روم کے قریب مسز میسی نے انھیں بتایا کہ وہ سب بیکار جارہی ہیں۔ اسٹاف کی سب ہی ممبر مسز سانیال کو سمجھا چکی ہیں۔ وہ کسی حالت میں بھی استعفیٰ واپس لینے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی باریک آواز نے لڑکیوں کے دلوں کے حوصلے توڑ دئیے۔ جب لڑکیاں مسز میسی کی بات کو نظر انداز کرکے کچھ اور آگے بڑھیں تو فلاسفی کی پروفیسر مسز نقوی سے ٹکرائیں انھوں نے اسٹاف روم سے نکلتے ہوئے حسبِ عادت لڑکیوں سے وقت ضائع نہ کرنے کے لیے کہا اور تنبیہ کی کہ وہ اپنی اپنی کلاسز میں چلی جائیں۔ لیکن لڑکیاں پھر بھی اسٹاف روم میں داخل ہوگئیں مسز سانیال وہاں تنہا تھیں۔ کئی لڑکیوں نے رو رو کر اپنا برا حال کرلیا۔ سلمیٰ نے تو ان کے پاؤں تک پکڑ لیے تھے وہ پھر بھی اپنا استعفیٰ واپس لینے پر راضی نہ ہوئی تھیں۔
انٹرول میں ایک بار سب لڑکیوں نے پھر ان کی خوشامد کی۔ لیکن ان کے اپنے خیال کے مطابق ایسی نوکری بیکار تھی کہ ان کے شوہر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوں اور انھیں چھٹی نہ ملے۔ ان کی پرنسپل ان کے اتنے اہم معاملہ سے یوں منھ موڑ کر غائب ہوجائے جیسے کوئی بات ہی نہ ہویہ کوئی انسانیت نہیں۔
مسٹر سانیال سے انھیں بے پناہ محبت تھی۔ دس دن کی چھٹی ان کے ساتھ گزارنے کے بعد وہ پرسوں رات ہی تو واپس آئی تھیں۔ وہ دہلی کی کسی پرائیویٹ فرم میں ملازم ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گذشتہ رات وہ ایک لمحہ کو بھی نہیں سوسکی ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کے ان گنت ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر ان کے دامن میں گرتے رہے ہیں اور جبھی انھوں نے اپنی زندگی کا یہ اہم فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے پیارے سانیال کی خاطر نوکری چھوڑ دیں گی اور کالج کی رومانی اور محبت بھری فضاؤں کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے پاس چلی جائیں گی انھیں نوکری سے زیادہ اپنے شوہر کی زندگی عزیز ہے۔ انھوں نے انگریزی تعلیم ضرور حاصل کی لیکن وہ مثالی مشرقی عورت ہیں۔ وہ عورت جو اپنے شوہر کے لیے سب کچھ قربان کردیتی ہے، جو اس کی خاطر اپنی زندگی کی بھی بازی لگا سکتی ہے۔ وہ زندگی بھر ابلی ہوئی دال کھاکر اپنا گزارا کرسکتی ہیں لیکن ایسی نوکری ہرگز نہیں کرسکتیں جس میں انہیں حلوہ کھانے کو ملے لیکن ان کے وجود پر دوسروں کا حق ہو اور ان کے پاؤں حکم کی زنجیروں سے بندھے ہوں۔ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ ان زنجیروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے توڑ دیں اور یہ زنجیریں اس صورت میں ٹوٹ سکتی تھیں کہ وہ اس نوکری سے مستعفیٰ ہوجائیں اور وہ یہ استعفیٰ لکھ کر کالج کی وائس پرنسپل کو دے بھی چکی ہیں۔
’’اگر آپ ایک دن اور یہ استعفیٰ نہ دیں اور پرنسپل صاحبہ کی واپسی کا انتظار کرلیں تو‘‘ اوشا نے اپنی رائے دی۔
’’ایک دن کی بات تو دور رہی مجھے ایک ایک لمحہ بھاری ہے۔‘‘ مسز سانیال نے پریشان کن لہجہ میں جواب دیا۔
’’میڈم جو قدم جلدی میں اٹھایا جاتا ہے معاف کیجیے گا وہ اکثر غلط ہوتا ہے۔‘‘ قمر نے پھر ایک بار اندھیرے میں روشنی کی کرن دیکھنے کی کوشش کی۔
’’میں تم سب لوگوں سے کافی پہلے دنیا میں آئی ہوں۔ میری اپنی سمجھ کے مطابق میرا یہ قدم مجھے روشنیوں کی طرف لے جائے گا۔ جہاں میرے اوپر کسی کی غلامی کے اندھیرے سایہ نہ کرسکیں گے، میں آج تک نہ سمجھی تھی کہ نوکری کیا چیز ہوتی ہے؟ لیکن کل مجھے اچھی طرح احساس ہوا کہ نوکری نوکری ہی ہے چاہے وہ کسی باشادہ کی ہو یا فقیر کی۔‘‘
’’آپ استعفیٰ نہ دے کر کالج کی وائس پرنسپل مسز ناگر سے چھٹی بھی لے سکتی ہیں۔‘‘ طاہرہ نے انھیں ایک نئی راہ دکھائی۔
’’مجھے اب نوکری نہیں کرنی ہے۔ یہ میرا اٹل فیصلہ ہے۔‘‘
’’لیکن ہمارا پورا سال اور اس سال کی پوری پڑھائی۔‘‘ کہتے کہتے مسعودہ کی آواز خاموشیوں میں ڈوب گئی۔
مسعودہ کا یہ جملہ سنتے ہی کئی لڑکیوں کے چہروں پر ہوائیاںا ڑ گئیں۔ جیسے تصور میں انھیں اخبار میں اپنا رول نمبر ہی نظر نہ آیا ہو اور وہ فیل ہوگئی ہوں۔
سب ہی لڑکیاں خاموش تھیں کوئی کسی سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا۔ ساری لڑکیاں ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے گھور رہی تھیں۔ جیسے ان میں سے ہر ایک اس استعفیٰ کی ذمہ دار ہے۔ آخر کار اس خاموشی کو توڑتے ہوئے گلوگیر آواز میں خود ہی مسز سانیال نے کہا:
’’تمہارے اس پورے سال کی پڑھائی کی ذمہ داری میرے اوپر نہیں پرنسپل مس سروجہ کی ذات شریف پر ہے۔ کاش وہ مس نہ ہوتیں اور ان کا بھی کوئی شوہر ہوتا تو شاید یہ اندازہ کرسکتیں کہ ایک ہندوستانی بیوی کے لیے اس کا شوہر کیا ہوتا ہے ۔ انھوں نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے۔ میں مجبور ہوں۔ اگر مجبور نہ ہوتی تو کیوں تمہارا محبت بھرا ماحول چھوڑ کر جانے کے لیے قدم اٹھاتی۔ میں آج بارہ بجے کی گاڑی سے دہلی جارہی ہوں۔ تم سب سے جدا ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔‘‘ کئی لڑکیاں آنکھوں میں آنسو بھر لائیں ……… کتنی ہی لڑکیوں نے آنسوؤں کی لڑیوں کو اپنے دوپٹوں میں چھپالیا۔ مسز سانیال کی آنکھیں بھی کسی قدر نم ہوگئیں لیکن اس وقت ان میں آنسوؤں کے قطرے نہیں آئے۔ شاید مسلسل روتے روتے ان کے آنسو اب ختم ہوچکے تھے۔
گیارہ ہی بجے سے ان کے جانے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ کالج میں ایسا ماتمی دن کبھی اس سے پہلے نہیں آیا تھا۔ سب ہی ملول اور افسردہ تھے سب کی آنکھیں نمناک تھیں۔ کوئی کسی سے اپنی غمگین دھڑکنوں کا حال نہیں کہہ رہا تھا لیکن دل ہی دل میں کئی لڑکیاں خدا سے گڑگڑا کر دعا مانگ رہی تھیں کہ خدا کرے اسی لمحہ مس سروجہ آجائیں اور انھیں اپنے فیصلہ پر عمل کرنے سے روک دیں۔ لیکن مس سروجہ تو جیسے برسوں کے لیے چلی گئی تھیں۔ انھیں مسز سانیال کے جانے کے وقت تک نہ آنا تھا نہ آئیں۔ اگر وہ آنے والی ہوتیں تو پھر اس طرح جاتی ہی کیوں؟ چند لڑکیوں میں سرگوشیاں ہوئیں اور آخر کار وہ ساعت بھی آئی جب مسز سانیال اسٹیشن کے لیے روانہ ہوئیں۔ اور وہ کالج سے کچھ اس طرح چلی گئیں جیسے کسی ارمانوں بھرے دل سے حسرت ہی نکل گئی ہو۔ نہ کوئی الوداعی پارٹی ہوئی، نہ کوئی فوٹو گروپ ہوا اور نہ ان کے کاموں کی تعریف ہی کی گئی۔ نہ ان کی خدمات کے سلسلہ میں رسمی تقریریں ہوئیں۔ صرف غم کا سوگوار ماحول ساری فضا پر چھایا رہا۔ چند لڑکیوں اور کچھ ٹیچرس نے اسٹیشن تک ان کا ساتھ دیا۔ گاڑی آئی، وہ اس میں سوار ہوئیں، اور اپنی پُر نم آنکھوں میں یادوں کے سوگوار چراغ جلائے اپنی زندگی کے ہمسفر کے پاس دہلی پہنچنے کے لیے روانہ ہوگئیں۔
اور اس طرح پرنسپل مس سروجہ کی ضد کے سامنے کتنی ہی لڑکیوں کا مستقبل اور مسز سانیال کی ملازمت اندھیروں میں گم ہوگئی۔
راستہ کا پورا سفر مسز سانیال نے بہت بے چینی سے گزارا اور جب گاڑی دہلی اسٹیشن پر پہنچی تو وہ جلدی سے ریلوے پلیٹ فارم سے باہر نکلیں اور آٹو میں بیٹھ کر دھڑکتے ہوئے مضمحل دل کے ساتھ ولنگٹن کے لیے روانہ ہوئیں۔ ہوسپٹل کے انکوائری آفس میں معلوم کرنے پر انھیں پتہ چلا کہ مسٹر سانیال پرائیویٹ وارڈ کے روم نمبر چھبیس میں بیڈ نمبر دو پر ہیں وہ تیز تیز قدموں سے روم نمبرچھبیس کی طرف چل پڑیں۔ گیلری میں چلتے ہوئے جیسے جیسے مختلف نمبروں کے کمرے ان کی نگاہوں کے سامنے سے گزرتے رہے ان کے دل کی دھڑکنیں بتدریج تیز ہوتی رہیں۔ روم نمبر اکیس، انھوں نے اپنی دائیں جانب دیکھ کر دل ہی دل میں دوہرایا۔
’’روم نمبر چوبیس پچیس اور اس سے آگے چھبیس ہی ہونا چاہیے۔‘‘
اور دوسرے لمحہ میں وہ روم نمبر چھبیس کے درواز ہ پر تھیں۔ لیکن یہ کیا ’’اف میرے بھگوان!میری آنکھیں کہیں دھوکہ تو نہیں کھا رہی ہیں؟‘‘ انھوں نے دل ہی دل میں سوچا، انھوں نے ایک بار پھر روم نمبر پر نگاہ ڈالی۔ انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کا دل ڈوبا جارہا ہے۔ پھر بھی انھوں نے ہمت سے کام لیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھیں۔ مسٹر سانیال کے بیڈ کے قریب واقعی ایک بھاری بھرکم عورت ہری ساڑھی پہنے بیٹھی تھی۔ وہ انھیں دوا پلارہی تھی۔ وہ ایک لمحہ کے لیے پھر ٹھٹک گئیں کیونکہ ان کے دن میں یکلخت سینکڑوں خدشات جنم لینے لگے تھے۔ مسٹر سانیال کا کردار ہمیشہ ان کے سامنے ایک شفاف آئینہ کی طرح رہا تھا۔ پھر یہ عورت کیوں؟ اگلے ہی لمحہ انھوں نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ وہ کچھ اور آگے بڑھیں نہ جانے کیوں انھیں اپنے قدم کئی کئی من وزنی معلوم ہورہے تھے۔ انھوں نے سوچا کہیں انکوائری آفس سے تو غلط اطلاع نہیں ملی؟ لیکن دوسرے ہی لمحہ ان کے دل نے تردید کی۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ چند قدم اور … وہ اپنا ہر قدم اس طرح اٹھا رہی تھیں جیسے موت و حیات کا فاصلہ طے کررہی ہوں۔ بیڈ نمبر دو! ان کی جانب اس عورت کی پشت تھی۔ انھوں نے سوچا ہوسکتا ہے مسٹر سانیال کی رشتہ دار رتلام سے ان کے پاس آگئی ہو۔ لیکن نہیں اب وہ اسے دیکھنے کے لیے بے تاب ہوگئیں۔ انھوں نے تیزی کے ساتھ اپنا اگلا قدم اٹھایا…اور پھر… وہ حیرت کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گئیں۔ وہ … وہ … تو پرنسپل مس سروجہ تھیں۔ مسز سانیال کے ذہن میں ایک ثانیہ کے لیے خیال ابھرا: ’’شاید میرے پاس آئے ہوئے اس تار کا انھیں یقین نہیں آیا اور خود مجھ سے پہلے رات کی گاڑی سے یہاں تک آگئیں۔‘‘ دونوں کی نگاہیں چار ہوئیں لیکن نہ جانے کیوں مس سروجہ کی نظریں شرم و حیا کے بوجھ سے جھک گئیں۔ وہ بالکل خاموش تھیں۔ مسٹر سانیال نیم بے ہوشی کے عالم میں سفید پٹیوں سے لپٹے پڑے تھے۔ مس سروجہ نے دوا کا آخری چمچہ مسٹر سانیال کے حلق میں ڈال کر ان کے سر کو آہستہ سے تکیہ پر رکھ دیا اور ان کے آدھے منھ پر چادر ڈال دی۔ مسز سانیال خاموش کھڑی تھیں۔ مس سروجہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں بولیں۔
’’مسز سانیال تم آہی گئیں اور تم نے مجھے دیکھ بھی لیا۔ اب میں تم سے کچھ چھپانا بھی نہیں چاہتی۔ تم نے تو شاید یہ سمجھا ہوگا کہ مسٹر سانیال میرے لیے اجنبی ہوں گے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ جان کر تمہیں حیرانی ہوگی کہ مسٹر سانیال کئی سال تک میرے کلاس فیلو رہے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کی ان گنت راہیں ان کے ساتھ چل کر طے کی ہیں لیکن میری بدقسمتی یا میرے حالات کے سنگ دل تقاضے کہ میرے ارمانوں کی لاش پر تمہارے سہاگ کی شہنائیاں بج اٹھیں۔ ان کے ہاتھ میں تمہارا ہاتھ چلا گیا۔ تمہاری زندگی کی راہوں میں چراغ جل گئے اور میں آج تک اندھیروں میں بھٹک رہی ہوں۔ میں نے ان سے ایک وعدہ کیا تھا کہ میں شادی کروں گی تو صرف تمہارے ساتھ، ورنہ اپنی زندگی یوں ہی گزار دوں گی۔ اور میں آج تک اپنا وہ وعدہ نبھا رہی رہوں۔ اب میری خوشیوں کی دھوپ غم کے سائے میں بدل چکی ہے۔ میں نے آج تک تمہیں یہ راز نہیں بتایا کہ تمہارا ٹرانسفر میں نے صرف اس لیے اپنے کالج میں کرایا تھا کہ تم میرے یہاں رہو گی تو اس بہانہ کبھی نہ کبھی مسٹر سانیال کو میں بھی دیکھ کر اپنے من کے دیوتا کی پوجا کرلیا کروں گی۔‘‘ اتنا کہتے کہتے وہ خاموش ہوگئیں شاید کچھ اور سوچنے لگی تھیں۔ مسز سانیال کو خاموش دیکھ کر انھوں نے پھر بات آگے بڑھائی۔‘‘ کل میں نے تمہاری چھٹی کی درخواست نامنظور کرکے اپنے دل پر بڑا جبر کیا تھا لیکن میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھی کیونکہ ٹیلی گرام دیکھنے کے بعد کئی گھنٹوں تک میری آنکھیں آنسو بہاتی رہی تھیں۔ میں چاہتی تھی کہ تم سے پہلے اس موقع پر مسٹر سانیال کے پاس پہنچوں۔ میرے اس عمل سے تمہارے دل میں بہت سی بدگمانیاں پیدا ہوگئی ہوں گی لیکن تم اپنے دل میں انھیں جگہ نہ دینا کیونکہ بات دل کے رشتوں کی ہے۔ ہر کوئی دل کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم ہمیشہ ان سب باتوں کو ایک راز کی طرح اپنے دل میں رکھو گی۔ مسٹر سانیال کی حالت اب خطرے سے باہر ہے تم بے فکر رہو اور جب تک یہ اچھے نہ ہوں ان کے پاس رہ سکتی ہو۔ میں اب واپس جارہی ہوں اور پھر وہ کمرہ سے تیزی سے باہر نکل گئیں لیکن مسز سانیال خاموشی کے ساتھ کھڑی ششدر بنی یہی سوچتی رہیں کہ کیا مس سروجہ ان کی خوشگوار زندگی کی راہوں میں پڑا ہوا پتھر ہیں؟ یا پھر انجانے میں ان کی ذات مس سروجہ کی زندگی کے لیے تاریکیوں کا پیکر بن گئی ہے۔