کردار:
۱۔حجاج بن یوسف ۲۔ چرواہا
۳۔سپاہی ۴۔ ملزم
(ایک ویران مقام پر حجاج بن یوسف کھڑا ہے۔سپاہی ایک بوڑھے کو اس کے سامنے لاکر ڈالتا ہے۔)
ملزم: (روتے ہوئے)رحم کیجیے حضور ___
حجاج: (اس کی پیٹھ پر کوڑے برساناشروع کرتا ہے)
ملزم : (چیختا جاتاہے) آہ، رحم کیجیے ،میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ہائے۔آہ۔
حجاج: (ایک لمحہ رک کر )تیرا یہ جرم بھی سزا کے لیے کافی ہے۔ (پھر دو کوڑے برساتا ہے۔)
ملزم: کون سا جرم، حضووو ___؟(کراہتے ہوئے بیہوش ہوجاتا ہے۔)
حجاج: حجاج بن یوسف کے سامنے صفائی پیش کرنے کی جرات کرتا ہے۔ حجاز اور عراق کے حاکم کے سامنے! (سپاہی سے مخاطب ہو کر)سنا، یہ کہتا ہے کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا! دنیا کا ہر شخص میرے لیے مجرم ہے اور سزا کا مستحق ہے۔ (کچھ توقف کے بعد) قابل رحم تو صرف اور صرف بنو امیہ کے وفادار ہیں بلکہ قابل احترام ہیں۔ (قہقہہ لگاتا ہے۔)قابل صد احترام ہیں۔
سپاہی: اس کے لیے کیا حکم ہے ؟
حجاج: اسے ہوش میں لاؤ اور کوڑے مارو، بیہوش ہوجائے تو دوبارہ ہوش میں لاؤ اورپھر مارو؛ اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھو جب تک یہ سوال کرنا نہیں بھول جاتا۔
سپاہی: جو حکم ۔
حجاج: اب کسی قیدی کو میرے سامنے پیش نہ کرنا۔
سپاہی: باقی ملزم …؟
حجاج: سب کے سر تن سے جدا کر دو۔
سپاہی: جو حکم۔ (اس شخص کو گھسیٹتا ہوا لے جاتا ہے۔)
حجاج : (ٹہلتے ہوئے ) غیر عربوں کو قرآن پڑھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ ابوالاسود دوئلی نے قرآن مجید میں نقطے اور اعراب لگانے کا اچھا کام شروع کیا تھا تاکہ عجمی صحیح طریقہ سے قرآن مجید پڑھ سکیں۔اس کام کو پایہء تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے۔
( ایک چرواہا گذرتا ہے۔)
چرواہا: السلام علیکم ۔
حجاج: وعلیکم السلام۔ادھر آ۔
چرواہا: (اپنی جگہ سے)کیا کام ہے؟
حجاج: میں بلا رہا ہوں تو میرے قریب کیوں نہیں آتا؟
چرواہا: میں سن سکتا ہوں وہیں سے پوچھ لے۔
حجاج: تیری زبان بڑی کڑوی ہے، حالانکہ تو گھر سے شہد کھا کر نکلا ہے۔
چرواہا: (حیرت سے) تجھے کیسے علم ہوا؟
حجاج : (ہنس کر) تو زبان سے ہونٹ چاٹ رہا ہے اور مکھیاں بھی تیرے گرد منڈرا رہی ہیں۔ یقیناً کچھ قطرے تیرے کپڑوں پر بھی گر گئے ہوں گے۔ ثابت ہوتا ہے کہ تو نے شہد کھایا ہے۔
چرواہا: ہو سکتا ہے شہد کھاتے ہوئے چند قطرے میرے کپڑوں پر گر گئے ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں صفائی پسند نہیںہوں۔
حجاج : میں ایک بات اور بتا سکتا ہوں اور وہ یہ کہ تو چرواہاہے۔
چرواہا: (مزید حیرت سے)تو کمال کا شخص ہے۔ (ادھر ادھر دیکھ کر)آج میرے ساتھ بکریاں بھی نہیں ہیں۔ پھر بھی تو نے جان لیا کہ میں چرواہا ہوں۔ بیشک میں چرواہا ہوں۔ لیکن تو نے یہ کیسے جانا؟
حجاج: (قہقہہ لگا کر)تیرے لباس سے بکریوں کی بو آ رہی ہے۔
چرواہا: میں رات میں اپنی بکریوں کے ساتھ ہی سوتا ہوں اس لیے ہو سکتا ہے تجھے میرے لباس سے ان کی بو آرہی ہو۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نفاست پسند نہیںہوں۔
حجاج: تو شہد کھاتے ہوئے اس کے قطرے، کپڑوں پر گرادیتا ہے، لیکن صفائی پسند ہے۔ بکریوں کے باڑے میں سوتاہے اور عطر استعمال نہیں کرتا ، لیکن نفاست پسند ہے۔ واہ۔
چرواہا: (آہ بھر کر) میری بیوی مجھے گھر میں آنے نہیں دیتی ورنہ عطر بھی ستعمال کرتا۔
حجاج : کیوں، وہ تجھے گھر میں کیوں نہیں آنے دیتی؟
چرواہا: وہ مجھ سے ناراض ہے۔
حجاج : کیوں ناراض ہے؟
چرواہا: وہ کہتی ہے کہ میں دوسرا نکاح کرلوں تاکہ دوسری بیوی گھر کے کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹائے۔
حجاج: ظالم، پھر تو دوسرا نکاح کیوں نہیں کرلیتا؟
چرواہا: میں حجاج بن یوسف نہیں ہوں۔
حجاج : کیاحجاج بن یوسف کے دو بیویاں ہیں؟
چرواہا: وہ تو میں نہیں جانتا۔
حجاج : پھر تو نے اس کا نام کیوں لیا؟
چرواہا: تو نے مجھے ظالم کہا اس لیے۔
حجاج: حجاج بن یوسف کیسا آدمی ہے؟
چرواہا: وہ ظالم اور سفاک شخص ہے۔
حجاج : (تیوریاں چڑھا کر) اس نے تجھ پر کیا ظلم کیا؟
چرواہا: اس نےمکہ کا محاصرہ کیا اور کعبہ پر پتھر برسائے، کیا اس سے بڑا ظالم بھی کوئی ہو سکتا ہے؟
حجاج : اور؟
چرواہا: اب تک ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کو تہہ تیغ کرچکا ہے۔ کیااس سے بڑا ستمگر بھی کوئی ہو سکتا ہے؟
حجاج: (چہرہ پر غصہ کے آثار) اور ؟
چرواہا: وہ ایک خونخوار درندہ ہے۔
حجاج: اور کچھ ؟
چرواہا: حجاج بن یوسف پر اللہ کی لعنت ہو۔
حجاج: (غصہ سے)مجھے جانتا ہے؟
چرواہا: نہیں۔
حجاج: (کمر سے تلوار نکال کر )میں ہوں حجاج بن یوسف ثقفی، حجاز اور عراق کا امیر۔
چرواہا: (گھبرا جاتا ہے، پھر سنبھل کر )مجھے جانتا ہے؟
حجاج : نہیں۔
چرواہا: میں ہفتہ میں تین دن پاگل رہتا ہوں۔اور اس میں ہذیان بکتا ہوں۔ آج اس پاگل پن کا پہلا دن ہے۔
حجاج: ( زور زور سے قہقہے لگاتےہوئے تلوار میان میں رکھتا ہے۔) فوراً یہاں سے نکل جا ۔
چرواہا: (بھاگ جاتا ہے۔)