حافظہ اور اس کی افزائش

محمد جاوید اقبال

قوتِ حافظہ اللہ تعالیٰ کی ایک بیش بہا نعمت ہے۔ اس قوت سے کام لے کر انسان علم کی دولت سے مالا مال ہوسکتا ہے،اپنے فرائضِ زندگی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے سکتا ہے اور مطلوبہ منزل تک جلد پہنچ سکتا ہے۔ طلبہ و طالبات کے لیے حافظہ کی اہمیت اس حیثیت سے بہت زیادہ ہے کہ وہ سیکھنے کے مرحلے میں ہوتے ہیں اور انھیں امتحانات کے مراحل سے بھی گزرنا ہوتا ہے۔
حافظہ کی تعریف
حافظہ ذہن کی اس قوتِ عمل کا نام ہے، جو دیکھی، سنی یا پڑھی ہوئی چیزوں کو محفوظ کرلے اور بوقتِ ضرورت دہرادے۔ دراصل یہی دیکھی سنی اور پڑھی ہوئی چیزیں ذہن کے باریک باریک خلیوں میں نقش ہوجاتی ہیں اور بوقتِ ضرورت یہی نقوش تازہ ہوجاتے ہیں،یہی قوتِ حافظہ ہے۔ اگر نقوش گہرے ہوں تو چیزیں جلد یاد آجاتی ہیں اور اگر نقوش ہلکے اور مدھم ہوں تو چیزیں دیر سے یاد آتی ہیں۔
غیر معمولی حافظہ
مسلمانوں میں کتنی ہی ایسی مثالی شخصیات گزری ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی قوتِ حافظہ سے نوازا تھا۔ امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی ائمۂ اربعہ امام ابن تیمیہ کا حافظہ غیر معمولی تھا، انھیں ہزاروں احادیث مع اسناد یاد تھیں۔ امام بخاری کے بارے میں مشہور ہے کہ انھیں چھ لاکھ احادیث زبانی یاد تھیں۔ ان احادیث میں سے انھوں نے ۲۲۷۵ احادیث صحیحہ منتخب کرکے صحیح بخاری میں جمع فرمائی ہیں۔ مشہور شاعر المتنبی نے ایک مقابلہ یہ کہہ کر جیتا تھا کہ ایک بار پڑھی ہوئی چیز اسے ازبر ہوجاتی ہے۔ بدیع الزماں الہمدانی پچاس اشعار کی ایک نظم بس ایک بار سنتے اور جوں کی توں دہرادیتے۔ مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے ایک کتاب مصر میں پڑھی اور واپسی پر من وعن تحریر کردی۔ مولانا آزاد کو چیزیں مع تفصیلات یاد رہتی تھیں اور برسوں بعد بھی وہ انھیں جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ دہرا دیتے تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے ان کے حافظہ کی نہایت تعریف کی ہے۔ ان کے حافظہ اور ذہانت سے بڑی بڑی شخصیات مرعوب رہتی تھیں، جب ان کی عمر صرف سولہ سال تھی تو مولانا شبلی نے ان کے حافظہ اور علمیت سے متاثر ہوکر فرمایا ’’تم تو علمی نمائش میں رکھنے کے قابل ہو۔‘‘ مولانا مودودیؒ کا حافظہ بھی بہت اچھاتھا۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا ’’گویا میرے ذہن میں ہزاروں خانے ہیں، میں اپنی معلومات کو جس خانے میں محفوظ کرنا چاہوں محفوظ کرلیتا ہوں اور وقتِ ضرورت نکال لیتا ہوں۔‘‘ نیپولین بونا پارٹ کو اپنے زبردست قوتِ حافظہ کی وجہ سے بھی شہرت حاصل ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں کئی اشخاص کو مختلف عنوانات پر املا کرادیتا تھا۔ اس کی یادداشت کا یہ عالم تھا کہ اسے اپنے تمام سپاہیوں کے نام یاد تھے۔
حفظ کے اصول
٭… حفظ کا پہلا اصول یہ ہے کہ آدمی خوش گمان ہو کہ جو کچھ وہ یاد کرنا چاہتا ہے وہ اسے لازماً یاد ہوجائے گا۔ اسے اپنے ذہن میں یہ بات راسخ کرلینی چاہیے کہ اس کی قوتِ حافظہ اچھی ہے۔ اسے یہ جملہ بار بار دہرانا چاہیے I have a wonderful memory ’’میر ی قوتِ حافظہ بہت اچھی ہے۔‘‘ اس کے برخلاف جو شخص یہ گمان کرے کہ میری قوتِ حافظہ کمزور ہے تو کچھ دن کے بعد اس کاحافظہ واقعی کمزور ہوجائے گا، جو شخص اس طرح کا گمان رکھتا ہے وہ گویا اپنی قوتِ حافظہ کی چادر میں ایک بڑا سوراخ کرلیتا ہے۔ ایسے لوگ خود اپنے دشمن ہوتے ہیں۔
٭… آپ جو کچھ یاد کرنا چاہیں اس کا عزم کرکے کاربند ہوجائیں۔ یہی وہ بنیادی پتھر ہے جو حافظہ کی عمارت کو مضبوط و مستحکم بناتا ہے۔ عزم وارادہ کے بغیر آپ کوئی بھی چیز یاد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
٭… کسی چیز کو یا دکرنے کے لیے توجہ سے دیکھنا، سننا یا پڑھنا از بس ضروری ہے۔ آدمی جتنی زیادہ توجہ کسی شے پر مرکوز کرے گا، اتنی ہی جلد وہ چیز ذہن نشین ہوگی اور اس کے نقوش گہرے اور دیرپا ہوں گے۔ اس کا آسان اور سہل طریقہ جس کے ذریعے توجہ مرکوز کرنے کی مشق ہوسکتی ہے، یہ ہے کہ آپ الٹی گنتی گننا شروع کریں۔ پہلے دس سے ایک تک، اس کے بعد بیس سے ایک تک۔ اسی طرح گنتی کو بڑھاتے جائیں۔ اس عمل سے توجہ کو مرکوز کرنے کی عادت پڑجائے گی۔
دوسرا سہل طریقہ یہ ہے کہ رات کو سوتے وقت اپنے ان کاموں، باتوں اور مشغولیات کو دہرائیں جو آپ نے وقتِ عصر سے سوتے وقت تک انجام دی ہیں۔ کئی دن تک ایسا کریں پھر چند دن کے بعد دوپہر سے سوتے وقت تک کی مشغولیات کو ذہن میں تفصیل سے دہرائیں۔ یہ عمل بھی کئی دن تک کریں، پھر صبح سے شام تک کے اعمال تفصیلاً دہرانے کی مشق کریں۔ اس طرح کئی دنوں کے کام اور مشغولیات کو دہرائیں۔ ظاہر ہے یہ بغیر توجہ کے ممکن نہیں ہے۔ اس مشق کے بعد جب بھی آپ کوئی کام انجام دیں گے اس پر توجہ مرکوز کرنا بہت سہل ہوجائے گا۔ یہ عمل اگر آپ صرف ایک ماہ کرلیں توآپ اپنی قوتِ حافظہ میں غیرمعمولی اضافہ محسوس کریں گے اور جو چیز آپ پڑھیں گے اس کو یا دکرنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔
٭… توجہ اور دلچسپی میں ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔ جس چیز میں ہم زیادہ دل چسپی لیتے ہیں، اس کو اتنی ہی توجہ سے دیکھتے، سنتے یا پڑھتے ہیں۔ ہماری دل چسپی کی چیزیں ہمیں بہت جلد حفظ ہوجاتی ہیں، اور پھر ذہن میں محفوظ بھی رہتی ہیں۔ بہت سے طلبہ اپنے حافظے کی اکثر و بیشتر شکایت کرتے ہیں مگر کرکٹ کا اسکور انھیں یاد رہتا ہے، مشہور کھلاڑیوں کے نام، ان کی بالنگ ایوریج، مختلف میچوں میں ان کی کارکردگی اُن کے نوکِ زبان رہتی ہے۔
اسی طرح بعض خواتین جو اپنی یادداشت کا رونا روتی ہیں، انھیں دوسری خواتین کے لباس یاد رہتے ہیں، جو وہ ایک ہفتہ قبل کسی شادی کی تقریب میں پہن کر آئی تھیں۔ کپڑوں کا رنگ ان کی کانٹ چھانٹ سب کچھ انھیں گویا حفظ ہوجاتا ہے اور بھلانے کی کوشش کے باوجود نہیں بھولتا، یہ سب کچھ دلچسپی کا کرشمہ ہے۔
٭… مضمون کو بار بار پڑھنے اور دہرانے سے اس کے نقوش ذہن کے خلیوں پر گہرے اورپختہ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کسی موضوع پر بار بار گفتگو کرنے یا بحث مباحثہ کرنے کا اثر بھی قوتِ حافظہ پر اچھا پڑتا ہے۔
امریکہ کے صدر ابراہم لنکن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تقریر کرنے سے پہلے اسے بار بار دہراتے تھے، اٹھتے بیٹھتے، مختلف کاموں کو انجام دیتے ہوئے یہاں تک کہ گائے کا دودھ دوہتے ہوئے وہ تیار شدہ تقریر کی تکرار کرتے، گھر کے افراد ، دوست احباب کے سامنے تکرار کا عمل جاری رکھتے پھر اس کو بار بار کاغذ پر لکھتے۔ اس طرح تقریر ان کو حفظ ہوجاتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے شب کا ایک حصہ ان احادیث کی تکرار کے لیے متعین کررکھا تھا جو وہ حضورِ اکرم ﷺ سے دن میں سنتے تھے، تکرار یاد کرنے اور یاد رکھنے میں استحکام بخشتی ہے۔
٭…مسلسل مطالعہ: مسلسل اور پابندیِ وقت کے ساتھ مطالعہ حافظے کی وسعت وقوت میں نمایاں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے چیزیں، حقائق اور اعداد و شمار ذہن میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ مختلف عنوانات کے تحت علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مسلسل مطالعے کی وجہ سے ماضی میں پڑھی ہوئی چیزوںکا بعض اوقات صفحہ تک یاد رہ جاتا ہے۔ مطالعہ کی ہوئی چیزیں مسلسل دوست احباب سے زیرِ بحث آنے کی وجہ سے یادداشت کے نقوش گہرے ہوجاتے ہیں۔ امام بخاریؒ سے کسی نے پوچھا، حافظے کا کیا علاج ہے، فرمایا: برابر مطالعہ کرتے رہو اور بس۔
٭…بامعنی اکتساب: اگر مضمون کا مطلب سمجھ کر یاد کیا جائے تو حفظ میں بہت سہولت ہوجاتی ہے۔ اس طرح حفظ کی ہوئی چیزیں جلد یاد ہوجاتی ہیں اورذہن میں تادیر محفوظ رہتی ہیں۔ اس لیے معنی و مطلب کو سمجھ کر یاد کرنا ہی بہتر ہے۔
٭…وقفہ: طویل مضمون کو یا دکرنے کے لیے وقفہ دیناضروری ہے یعنی ایک وقت میں یاد کرنے کے بجائے مختلف اوقات میں یاد کرنا چاہیے۔ اگر مضمون کافی طویل ہو تو ایک دن کے بجائے کئی دنوں میں یاد کرنا چاہیے، البتہ وقت کی پابندی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ذہن تروتازہ اور چست رہتا ہے اور ذہن کے خلیوں پر نقش گہرے ہوجاتے ہیں۔
٭…اجزا یا مجموعی مضمون کا یاد کرنا: حفظ کرنے کے سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی پیش آتا ہے کہ مضمون کو جزء اً جزء اً یا دکیا جائے یا مجموعی طور پر یاد کرنا مناسب ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مضمون اگر زیادہ طویل نہ ہوتو اس کو پورا ہی یاد کرنا مناسب ہے۔ مثلاً قرآن کا کوئی مختصر رکوع، کوئی مختصر نظم یا حدیث وغیرہ، لیکن اگرمضمون طویل ہو تو اس کے چھوٹے چھوٹے اجزاء بناکر یاد کرنا چاہیے۔ البتہ ان اجزاء میں باہمی ربط قائم کرلینا چاہیے۔
٭… باہمی ربط: چیزوں کو مربوط کرکے یاد کرنے سے حفظ میں بہت آسانی ہوجاتی ہے۔ غیر مرتب اور غیر مربوط چیزیں ذہن میں دیر تک محفوظ نہیں رہتیں۔ مثلاً کیمسٹری میں آگزلک ایسڈ کا ایک فارمولا COOH-COOH ہے، اس کو یاد کرنا قدرے مشکل ہے لیکن باہمی ربط پیدا کرکے ہم طلبہ سے معلوم کریں کہ کوئل کس طرح بولتی ہے۔ تو جواب ملے گا، کوہٗ کوہٗ، طلبہ سے کہا جائے بس یہی فارمولا آگزالک ایسڈ کا ہے۔ یا CGSمیں فورس کی اکائی پڑھانا ہے۔ طلبہ سے پوچھا جائے کہ دیہات میں بعض بوڑھی عورتوں سے بچنے کی تاکید کی جاتی ہے بتاؤ انھیں کیا کہا جاتا ہے؟ جواب دیا جائے گا: ڈائن۔ کہا جائے کہ بس یہی فورس کی اکائی ہے۔ مثلاً جنگِ آزادی کا سن ۱۸۵۷ء ہے یہی سن مولانا شبلیؒ کی پیدائش کا ہے۔ مولانا شبلیؒ کا سنِ وفات ۱۹۱۴ء ہے۔ اسی سال میں جنگِ عظیم کا آغاز ہوا۔ مولانا آزاد کا سنِ پیدائش ۱۸۸۸ء ہے اسی سال ڈپٹی نذیر احمد نے اپنا مشہور ناول ’’ابن الوقت‘‘ مکمل کیا۔ اس کا ربط اس طرح بھی قائم کیا جائے کہ اس میں تین مرتبہ آٹھ کا ہندسہ آتا ہے۔ مرحوم، جواہر لال نہرو سے ایک سال بڑے تھے ، اس لیے پنڈت نہرو کا سنِ پیدائش ۱۸۸۹ء ہے۔
انگریزی لفظ Ploughجس کے معنیٰ ہل چلانے کے ہیں، اس کا تلفظ پلاؤ ہے، اس تلفظ کو ہم پلاؤ سے مربوط کرکے یاد کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ہم بہت سے واقعات کو باہم مربوط کرکے ذہن نشین کرسکتے ہیں اور کراسکتے ہیں۔
٭…شدت: شدت سے مراد ذہن پر نقوش کی قوت اور گہرائی ہے۔ بعض چیزیں ہمارے ذہن پر اتنے گہرے نقوش مرتسم کردیتی ہیں ، جن کا محو ہونا ناممکن ہے۔ ہم کسی کو قتل ہوتے یا کسی لاش کو غیرمعمولی حالت میں دیکھیں تو باوجود کوشش کے بھلا نہیں سکتے۔ اس کے برخلاف صبح ناشتے میں کھائی ہوئی چیزیں شام کو بھول جاتے ہیں۔ اس لیے اساتذہ کے لیے لازمی ہے کہ تدریس میں ایسے مرحلے اور موڑ پیدا کرتے رہیں کہ پڑھائی ہوئی چیزوں کے ارتسامات قوی اور گہرے ہوتے رہیں۔
چیزیں ذہن سے محو نہیں ہوتیں
بعض ماہرینِ نفسیات کا خیال ہے کہ بعض چیزیں ذہن سے بالکل محوہوجاتی ہیں لیکن زیادہ تر ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ چیزیں ذہن میں محفوظ رہتی ہیںالبتہ وہ لاشعور میں چلی جاتی ہیں، ذہن پر زور ڈالنے سے یاد بھی آجاتی ہیں، کبھی حالتِ بحران میں حیرت انگیز طور پر ذہن میں ابھرآتی ہیں۔ مثلاً ایک انگریز لڑکی جس کے والد ہندوستان میں کسی بڑے عہدے پر فائز تھے، جب وہ ریٹائر ہوکر انگلینڈ واپس گئے تولڑکی بیمار ہوگئی اور شدتِ بخار کے سبب اس پر بحرانی کیفیت طاری ہوگئی۔ اسی عالم میں وہ قرآن شریف کی آیات اس صحت کے ساتھ پڑھنے لگی کہ اس کے اقارب و اعزا ششدر رہ گئے کہ اس لڑکی کو قرآن کی تعلیم ہی نہیں دی گئی پھر یہ قرآن کس طرح پڑھ رہی ہے۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس انگریز کے یہاں ایک مسلمان خانساماں ملازم تھا جو روز علی الصبح بہ آوازِ بلند قرآنِ کریم کی تلاوت کیا کرتا تھا اور یہ لڑکی اپنے والدین کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے کبھی کبھی اس خانساماں کی طرف نکل آتی تھی اور دیر تک قرآن مجید سنا کرتی تھی۔ اس طرح قرآنی آیات کے ارتسامات اس کے ذہن پر مرتسم ہوگئے اور حالتِ بحران میں وہ قرآنی آیات کو صحت کے ساتھ دہرانے لگی۔
کردار اور حافظہ
کردار کا حافظہ پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہ مثل مشہور ہے کہ جھوٹے آدمی کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ ذہن جتنا صالح اور پاکیزہ ہوگا اسی نسبت سے حافظہ قوی ہوگا۔ ایک بار حضرت امام شافعیؒ نے اپنے استاد حضرت وکیعؒ سے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی۔ استاد نے نصیحت فرمائی کہ اللہ کی نافرمانی سے بچو، یہی حافظہ کا علاج ہے۔ علم اللہ تعالیٰ کا نور ہے، اور وہ لوگ اس سے محروم رہتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی گناہوں سے سیاہ کرلی۔ حضرت امام شافعیؒ نے اس نکتے کو اپنی اس رباعی میں واضح فرمایا ہے:
شکوت الی وکیع سوء حفظی
فاوصانی الی ترک المعاصی
فان العلم نور من الٰہ
ونور اللّٰہ لا یعطی لعاصی
’’امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت وکیع سے شکایت کی کہ میرا حافظہ خراب ہے تو انھوں نے نصیحت فرمائی کہ گناہوں سے دور رہو کیونکہ علم اللہ کا نور ہے اور اللہ کا نور اللہ کے نافرمانوں کو نہیں دیا جاتا۔‘‘
مولانا آزادؒ کا قول ہے:
’’ایک شخص کے اخلاق و سیرت کا اندازہ اس کے حافظے کی افتاد سے کیا جاسکتا ہے۔ ایک نیک سیرت آدمی کے حافظے میں غیر ضروری اور بری باتوں کی یادداشت کے لیے کوئی جگہ نہیں نکل سکتی، لیکن ضروری اور اچھی باتیں وہ کبھی نہیں بھول سکتا۔ برخلاف اس کے ایک بداخلاق آدمی کو کتنی ہی کارآمد اور اچھی باتیں سنائی جائیں، لیکن اس کے حافظے میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں نکلے گی وہ صرف بے کار اور بری باتیں یاد رکھ سکتا ہے۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146