’’حالات بہت خراب ہیں‘‘

محمد اکمل عزیز

جملہ ’’حالات بہت خراب ہیں۔‘‘ ہر زمانے میں بڑی کثرت سے بولا جاتا رہا ہے۔ سنا ہے کہ فرعون کے زمانے کی جو تحریریں ملی ہیں، انہیں پڑھنے کے ماہر افراد نے بتایا کہ ان میں بھی یہ چار الفاظ پائے گئے ہیں’’حالات بہت خراب ہیں‘‘ اس سے یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ دنیا کے حالات شروع ہی سے بہت خراب چلے آرہے ہیں۔

ہم نے یہ الفاظ اپنے دادا کے زمانے میں سنے تھے اور اب تک سنتے چلے آرہے ہیں۔ اگرچہ اس زمانے میں ان الفاظ کا مفہوم معلوم نہیں تھا، اور نہ ہی یہ سمجھ تھی کہ حالات کیوں خراب ہیں؟ مگر چونکہ یہ الفاظ اپنے والد اور دادا کے منہ سے بھی سنے تھے، اس لیے ہمیں یقین تھا کہ حالات واقعی خراب ہی ہیں۔

ماضی کو چھوڑیں، آج بھی دنیا میں ہر جگہ حالات کی خرابی کا رونا رویا جاتا ہے اور شاید قیامت تک رویا جاتا رہے گا۔ اعلیٰ سرکاری افسر ہو یا کلرک اور چپراسی، کاروباری شخص ہو یا عام دوکاندار، شاندار دفتر میں کالے شیشوں کے پیچھے گھومنے والی کرسی پر بیٹھا ہوا کوئی افسر ہو یا فٹ پاتھ پر کسی درخت کے سائے میں بیٹھا ہوا کوئی فقیر سجے سجائے شاندار مطب میں بیٹھا ہوا کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ طبیب ہو یا کوئی نیم حکیم، کوئی کروڑوں میں کھیل رہا ہو یا بمشکل اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہو… ہر شخص حالات کی خرابی کا رونا روتا ہے۔

ہمارے ایک شناسا ڈاکٹر صاحب ہیں جو بیرونی ممالک سے ڈگریاں لے کر آئے ہیں۔ ایک متمول رہائشی علاقے میں ان کا شاندار اسپتال ہے۔ صرف امیروں کا علاج کرتے ہیں کیونکہ ان کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کا آدمی ان کے اسپتال کے سامنے سے بھی اپنی جیب پر ہاتھ رکھ کر گزرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ ہم سے خاصے بے تکلف ہیں اس لیے اکثر ’ترنگ‘ میں ہمیں اندر کی باتیں بھی بتادیتے ہیں۔

مثلاً مریضوں سے بھاری فیس وصول کرنے کے علاوہ وہ کئی دواؤں کی دکانوں، لیبارٹریوں اور ایکسرے اور الٹراساؤنڈ کرنے والوں سے بھی ’مریض بھیجنے‘ کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ ایک دو اڈوانس مشینیں بھی بیرون ملک سے منگوا رکھی ہیں۔ مریض کو ان مشینوں پر کیے جانے والے ’ٹیسٹوں‘ کی ضرورت نہ ہو تب بھی اسے یہ ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر وہ مریض کو نسخہ لکھ کر نہیں دیتے۔ ان ’ٹیسٹوں‘ کی وہ الگ سے بھاری فیس وصول کرتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب اپنی شہرت پر بھی بھر پور توجہ دیتے ہیں۔ اخبارات کے دفاتر میں ہونے والے اکثر مذاکروں میں شرکت کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ’ٹی وی‘ کے کسی پروگرام میں بھی نظر آجاتے ہیں۔ مختلف غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے تشہیر کے لیے ’فائیو اسٹار‘ ہوٹلوں میں منعقد کی جانے والی تقریبات میں ضرور مدعو ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے ایک مشہور اخبار کا آدھا صفحہ بھی قارئین کو طبی مشورے دینے کے لیے خرید رکھا ہے۔

ڈاکٹر صاحب سے جب بھی ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ وہ علیک سلیک کے بعد حالات کی خرابی کا رونا ضرور روتے ہیں۔ مثلاً کاریگر ان کی گاڑی ٹھیک کرنے کے بہت زیادہ پیسے لے لیتا ہے۔ پھر بھی وہ آئے دن خراب رہتی ہے۔ وہ ’مستری‘ کو چور کا لقب ضرور دیتے ہیں۔ پٹرول پمپوں پر ملاوٹ والے ’پٹرول‘کا بھی رونا روتے ہیں۔ پھر بتاتے ہیں کہ ان کا دودھ والا بھی پانی ملا دودھ دینے لگا ہے۔ یہ بھی بتاتے ہیں کہ گھر کے نوکر سودا سلف میں سے بہت سے پیسے خود بچا لیتے ہیں۔

پچھلے دنوں ڈاکٹر صاحب نے اپنی کوٹھی کا کچھ حصہ از سر نو تعمیر کروایا۔ ٹھیکے دار نے کام کی نسبت ان سے بہت زیادہ رقم اینٹھ لی اور تعمیری اشیاء بھی ناقص استعمال کیں۔

ملاقات کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب ایک ٹھنڈی آہ کھینچتے ہوئے کہتے ہیں ’’حالات بہت خراب ہیں۔‘‘

ڈاکٹر صاحب جس گیراج والے سے اپنی کار ٹھیک کرواتے ہیں، وہ بھی میرا واقف کار ہے اور ’اندر کی بات‘ وہ مجھے بھی بتاتا ہے۔ کاروں میں پرانے پرزے ڈال کر انہیں نئے ظاہر کرنا اور پھر کام سے تین گنا زائد دام گاہک سے حاصل کرلینا اس کے دائیں ہاتھ کا کمال ہے۔ اس ساری بے ایمانی کا وہ یہ جواز پیش کرتا ہے کہ ان گاڑی والوں کے پاس کون سی حلال کی کمائی ہے؟ پھر وہ کہتا ہے ’’چھوڑو یار! ان باتوں کو ویسے آج کل ’’حالات بڑے خراب ہیں۔ ان ڈاکٹروں کو ہی دیکھ لو، مریض سے بھاری بھاری فیسیں تو وصول کرلیتے ہیں مگر مریض کو آرام پھر بھی نہیں ہو۔ میرا بیٹا پچھلے کئی دنوں سے بیمار ہے، کئی ڈاکٹروں کو دکھا چکا ہوں، تمہارے چہیتے ڈاکٹر کو بھی دکھایا مگر بیٹے کو آرام ہی نہیں ہورہا۔ خدا ان ڈاکٹروں سے بچائے، حالات بڑے خراب ہیں۔‘‘

ہمارے ایک جاننے والے شہر کے بڑے بازار میں کاسمیٹکس کا تھوک کاروبار کرتے ہیں۔ بڑے بڑے گوداموں کے مالک ہیں۔ ہمیں بے ضرر سا بند ہ سمجھ کر اکثر اندر کی بات بھی بتا دیتے ہیں۔ دکان سے کچھ فاصلے پر ایک گودام میں ’دونمبر‘ کاسمیٹکس بنانے کا ان کا چھوٹا سا ذاتی کارخانہ ہے۔ کئی قسم کے جعلی پاؤڈر اور پرفیوم وہاں تیار ہوتے ہیں۔ مجال ہے کوئی اصل اور نقل میں فرق کرسکے۔ پھر بڑے دھڑلے سے یہ چیزیں شہر بھر میں فروخت ہوتی ہیں۔

ہم جب بھی ان سے ملنے جاتے ہیں وہ چائے ضرور پلاتے ہیں پھر گھر کے حالات سنانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ’’آج کل گھر میں بیماری نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ بیوی بیمارہے، بچہ بیمار ہے اور ہاں! مجھے بھی شوگر ہوگئی ہے۔ ایک اچھے ڈاکٹر سے اپنا اور گھر والوں کا علاج کروا رہا ہوں مگر آرام ہی نہیں ہوتا۔ میرا خیال ہے آج کل اکثر دوائیں دو نمبر کی بن رہی ہیں، ان میں تبھی تو اثر نہیں بھئی! حالات بہت خراب ہیں۔‘‘

ہمارے ایک دوست کے ایک صاحب کے ساتھ بڑے گہرے مراسم ہیں جو ایک ٹی وی چینل کے روح رواں ہیں۔ ہم دوست کے ہمراہ اکثر ان کے گھر جاتے ہیں۔ پاپ میوزک کے پروگراموں میں پیش کی جانے والی ہڑبونگ اور اوٹ پٹانگ حرکتوں کو جدت اور دوسرے ممالک کے پروگراموں سے مسابقت کی دوڑ قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنی اس رائے کے خلاف کوئی دلیل، کوئی منطق سننے کو تیار نہیں ہوتے مگر ان کا انداز تکلم دل موہ لینے والا ہے۔

پچھلی مرتبہ جب ہم اپنے دوست کے ہمراہ ان کے گھر گئے تو وہ خاصے بجھے بجھے تھے۔ دوست کے بار بار استفسار اور اصرار پر ان کی بجھی بجھی طبیعت کا راز یہ کھلا کہ ان کے دونوں بیٹے تعلیم کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے، سارا دن ادھر ادھر آوارہ گھومتے ہیں۔ اگرو ہ ڈانٹ ڈپٹ کریں تو گستاخی سے پیش آتے ہیں۔ دونوں نے اپنا حلیہ بھی عجیب سا بنالیا ہے اور انوکھا لباس پہننے لگے ہیں۔ بالوں کو پیچھے سے بڑھا کر باقاعدہ چٹیا کی شکل دے لی ہے۔ وہ صاحب پھر یہ رونا رونے لگے کہ دونوں بچیوں کا کالج جانا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ خود وہ اتنے مصروف ہیں کہ یہ ڈیوٹی دے نہیں سکتے اور بیٹے یہ ڈیوٹی دینا نہیں چاہتے۔ مجبوراً دونوں لڑکیوں کو ڈرائیور کے ساتھ کار میں کالج آنا جانا پڑتا ہے۔ مگر پچھلے چند دنوں سے کچھ موٹر سائیکل سوار نوجوان ان کی کار کا پیچھا کرتے ہیں۔ کار کے آگے بھی موٹر سائیکلوں کو لہرا لہرا کر چلتے ہیں۔ ڈرائیور ان کی حرکتوں سے خاصا خائف ہے۔

’’یہ لڑکے ایسا کیوں کرتے ہیں، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔‘‘

’’یہ نوجوان اتنے بگڑ کیو ںگئے ہیں؟ حالات بہت خراب ہیں۔‘‘

ہمارے ایک دوست موٹر سائیکل تیز چلانے کے بہت شوقین ہیں۔ ٹریفک لائٹوں کی پرواہ نہ کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ تین چار مرتبہ اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے راہگیروں کو زخمی کرچکے ہیں۔ موقع واردات سے بڑی صفائی سے غائب ہوجاتے ہیں اور پولیس والے انھیں بے بسی سے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہمیں اطلاع ملی کہ موصوف اسپتال میں ہیں۔ جب ہم ان کی خبر لینے گئے تو پتا چلا کہ ایک کار سے ٹکرا کر اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھے ہیں جو سگنل توڑ کر نکل رہی تھی اور نکلتے نکلتے ان کی موٹر سائیکل سے ٹکرا گئی۔ ہمارے دوست درد سے کراہنے کے ساتھ ساتھ غصے سے چنگھاڑ بھی رہے تھے:

’’لوگ قانون کا احترام بھول گئے ہیں اور ٹریفک سگنل کی پروا نہیں کرتے۔‘‘ باہر کے لوگ اشاروں کی بڑی پابندی کرتے ہیں۔ ’’پولیس والے بھی کچھ نہیں کرتے، سڑکوں پر بیکار کھڑے رہتے ہیں، نمائش کے طور پر …! حالات بہت خراب ہیں۔‘‘ ہم اپنے جاننے والوں کی باتیں سن کر یہی سوچتے ہیں کہ ہمارے حالات کیوں خراب ہیں؟ یہ کیسے ٹھیک ہوں گے؟

میرا خیال ہے کہ اس کا جواب مجھے اس وقت مل جاتا ہے جب میں اپنے علاقے کی مسجد میں نماز پڑھنے جاتا ہوں۔ مولوی صاحب نماز کے بعد بڑے خلوص کے ساتھ یہ دعا مانتے ہیں: ’’یا اللہ! دنیا میں امن و امان قائم فرما اور اس ملک کے حالات ٹھیک فرما۔‘‘ مولوی صاحب کی دعا کے پیچھے جو جذبہ ہے وہ واقعی قابل قدر ہے، لیکن نجانے ہمیں یہ کیوں محسوس ہوتا ہے کہ مولوی صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اے اللہ! ہم یہاں کا نظام ٹھیک نہیںکرسکتے۔ آپ ہی کچھ کیجیے، ہم اپنے اعمال سے کسی کو ہر قسم کا دکھ دیں، اسے نقصان پہنچائیں مگر ہمیں کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں کہ حالات کیوں خراب ہیں… جو انسان غور کرے گا، اپنے گریبان میں جھانکے گا، اسے ضرور اس سوال کا جواب مل جائے گا کہ ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے دنیا کو جہنم بنایا ہے۔ اگر آج ہم سیدھے ہوجائیں تو دنیا جنت کا نمونہ بن جائے گی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146