کسی بھی شادی شدہ خاتون کا حاملہ ہونا ایک خوش آئند بات ہے۔ تاہم حمل کو پوری میعاد تک برقرار رکھنے کے لیے ضروری طبی نگہداشت اور مکمل احتیاط لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے۔ یہی بات تخلیق انسانی کی سب سے بڑی عظمت ہے۔ لہٰذا روایتی انداز میں یہ سوچنا کہ تمام خواتین کے حمل کی صورت اور کیفیات یکساں ہوتی ہیں غلط ہوگا۔ حاملہ خواتین کو ان کی صحت اور حمل کے اعتبار سے مختلف زمروں میں رکھا جاسکتا ہے۔ یوں تو عمر کے لحاظ سے ۲۰؍سال سے کم اور ۳۰؍سال سے زائد عمر والی خواتین کو بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے لیکن دیگر خواتین بھی احتیاط کے تقاضے سے مستثنیٰ نہیں۔
اس مضمون میں ہم ایسی حاملہ خواتین میں خون میں کمی سے پیدا ہونے والے مسائل اور نگہداشت کے موضوع پر روشنی ڈالیں گے۔
خون کی کمی (Anaemia) ایک بہت ہی عام نوعیت کی بات ہے، جس سے دنیا کی تقریباً دو تہائی حاملہ خواتین متاثر ہوتی ہیں اس تعداد کا نصف حصہ ہندوستانی خواتین پر مشتمل ہے۔ اگر وقت پر خون کی کمی کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو بیشتر حاملہ خواتین کی زندگی کو لاحق خطرات انہیں موت کے دہانے تک پہنچاسکتے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے حاملہ خواتین میں خون یعنی ہیموگلوبین کے 11gm/dfنشانات کو معیاری بتایا ہے۔ ہیموگلوبین لال خون کے خلیوں میں ہوتا ہے۔ اس کی نشوونما کے لیے آئرن، پروٹین اور وٹامن Folic Acid، B12, B6کی ضرورت ہوتی ہے۔ دورانِ حمل ماں اور بچہ کو آئرن کی زیادہ مقدار میں ضرورت پڑتی ہے۔ جب کہ عام صحتمند خواتین میں بھی خون کی کمی ہوسکتی ہے۔
ہندوستان میں زیادہ تر خواتین عام طور سے خون کی کمی کا شکار رہتی ہیں اور اسی حالت میں حاملہ ہوجاتی ہیں۔ اس کی وجہ غریبی، غلط قسم کی غذائیں، تعلیم و شعور کی کمی اور غفلت وغیرہ ہیں۔ گرچہ خون کی کمی کے بارے میں ضروری تعلیم ایک عرصے سے دی جاتی رہی ہے لیکن اکثر خواتین اس سے نا آشنا ہیں۔ عام طور پر اس سلسلہ میں مردوں کو آگاہ کیا جاتا ہے لیکن وہ خواتین کو اس بارے میں سمجھا نہیں پاتے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر مرد کو تعلیم دیں تو ایک آدمی تعلیم یافتہ اور باشعور ہوتا ہے، جب کہ ایک عورت کو تعلیم دی جائے تو سارا خاندان مستفید ہوسکتا ہے۔
جو امراض خون کی کمی پیدا کرتے ہیں ان میں خواتین کی ماہ واری کے دوران زائد خون کا اخراج، کرونک ملیریا وغیرہ ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں بار بار اور جلدی جلدی حمل کی صورت میں خواتین کو خون کی کمی کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے۔ گھروں میں ڈیلیوری کرانے یا غیر تربیت یافتہ دائی سے ڈیلیوری کروانے سے بھی بسااوقات خون کا زیادہ اخراج اس کی وجہ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ ہماری بعض تہذیبی روایتیں اور کھانے پینے کے طور طریقے بھی اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔ مثال کے طور پر ترکاریوں کو زیادہ پکانے اور خوب اونٹانے سے ترکاریوں کی غذائیت ختم ہوجاتی ہے اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے حاملہ خواتین محروم ہوجاتی ہیں۔
خون کی کمی کا اثر گو ابتدائی مراحل میں محسوس نہیں ہوتا تاہم اگر کسی بھی خاتون کو اور خاص طور پر حاملہ خواتین کو کمزوری، تھکان، خرابی ہاضمہ کی شکایت، بھوک کی کمی، نبض میں تیزی، چکر، سانس لینے میں دشواری ہورہی ہوتو سمجھنا چاہیے کہ یہ خون کی کمی کی علامتیں ہیں بعض دفعہ پیروں پر سوجن بھی ہوجاتی ہے۔
HB خون کا ایک عام ٹسٹ ہوتا ہے جو کسی لیبارٹری میں کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر اس ٹسٹ کی فیس۳۰ تا ۵۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔
اثرات
—بار بار انفیکشن کا ہونا، بچوں کی مکمل نشوونما سے قبل پیدائش، ہارٹ فیل ہوکر حاملہ خاتون کی موت واقع ہونا وغیرہ۔
خون کی کمی کا نوزائیدہ بچہ پر اثر
قبل از وقت پیدائش سے بچوں کا مختلف بیماریوں سے دوچار ہونا، بچہ کا کم وزن ہونا، بچہ میں خون کی کمی کااثر ۳ سے ۶ ماہ تک رہ سکتا ہے۔
طریقہ علاج
ایسی غذاؤں کا استعمال جن میں آئرن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جیسے کلیجی، ہرے پتے والی ترکاریاں جو زیادہ نہ پکائی جائیں، گڑ اور مونگ پھلی وغیرہ۔ علاوہ ازیں دوران حمل آئرن کی گولیوں کا استعمال کیا جانا چاہیے۔یہ گولیاں کافی سستی ہوتی ہیں۔ ایک گولی کی اقل ترین قیمت صرف ۶۰؍پیسے ہوتی ہے۔ اگر روزانہ ایک گولی استعمال کی جائے تو ماہانہ صرف ۱۸؍روپے کے خرچ میں یہ علاج ہوسکتا ہے۔ بعض خواتین کو آئرن کی گولیاں کھانے سے دوسری قسم کی شکایات جیسے ہاضمہ کی شکایت، متلی وغیرہ بھی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا گولیوں کے بجائے آئرن کے انجکشن کا استعمال زیادہ فائدہ بخش ثابت ہوسکتا ہے لیکن یہ صرف ایک تعلیم یافتہ ڈاکٹر کے معائنہ اور مشورے کے بعد ہی کیا جائے۔
خون کی کمی کی انتہائی شکل کی صورت میں مریض کو خون کا دیا جانا ایک لازمی عمل ہے تاکہ ایسی صورت میں مریض کی جان بچائی جاسکے۔
احتیاط علاج سے بہرحال بہتر ہے، اس لیے حاملہ خواتین کو چاہیے کہ اچھی اور مکمل غذا کے ساتھ ساتھ آئرن کی گولیاں بھی کھاتی رہیں اور پابندی سے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرکے چیک اپ کرواتی رہیں۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ایک صحتمند ماں، صحت مند بچہ کو جنم دیتی ہے اور صحتمند بچے ایک صحتمند قوم کی بنیاد ہوتے ہیں۔
——