حجاب، حیا اور حفاظت

عصمت اسامہ حامدی

دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کی تعلیمات فلاحِ انسانیت، سلامتی اور خیرخواہی کی علمبردار ہیں۔ ہمارے دین نے خیر اور شر کے راستے واضح طور پر بتادیے ہیں اور ہر اُس چیز سے روکا ہے جو انسانیت کے لیے مضر ہے۔ ’’حیاء‘‘ دینِ اسلام کا ایک امتیازی وصف ہے، جس کا مظہر ’’حجاب‘‘ ہے۔ حیاء کا جذبہ خالقِ کائنات نے انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا۔ اسے ستر پوشی کا شعور عطا فرمایا، جس کی وجہ سے انسان لباس کو فطرتاً پسند کرتا ہے۔ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ ایمان والوں کو حیاء کی خاطر قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویؐ میں واضح احکام دیے گئے ہیں۔ حیاء دراصل خوفِ خدا کی علامت ہے کہ انسان ہر گناہ سے رک جائے، یہ جان کر کہ اللہ تعالیٰ سب دیکھ رہا ہے۔ وہ علیم اور بصیر ہے جو دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ علمائے کرام کے مطابق حیاء ’حیات‘ سے ہے جو زندگی ہے، ترقی اور نشو ونما ہے۔ جبکہ بے حیائی، بے اصولی کا نام ہے۔ مقررہ حدود و قیود کو توڑنے کا نام ہے، یہ شیطان کا وطیرہ اور گمراہی و بربادی کا راستہ ہے۔ حیاء یہ بھی ہے کہ کوئی کسی دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالے، کسی کو بدنام کرتے ہوئے خدا کا خوف کھائے۔ حیاء یہ بھی ہے کہ انسان اپنے کردار کی حفاظت کرے۔ اپنی عزت کا خیال کرے اور اس کی حفاظت کرے اور حیا یہ بھی ہے کہ انسان لقمہ کھاتے وقت سوچے کہ کہیں حرام تو اس کے پیٹ میں نہیں جارہا؟
جنابِ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’یقینا اللہ نے کچھ فرائض لاز م ٹھہرائے ہیں، انھیں ضائع نہ کرو اور کچھ حدیں مقرر کی ہیں، اُن سے آگے نہ بڑھو اور کچھ چیزیں حرام کی ہیں، ان کی حرمت مت توڑو۔ ‘‘ (حدیث حسن، روایت دارِ قطنی)
حیاء یہ بھی ہے کہ انسان حرام مال کھانے سے کسی کا حق چھیننے سے رک جائے۔ اسلام میں جس طرح نماز، روزہ فرض ہے، اسی طرح حجاب بھی فرض ہے۔
سورئہ نور کے احکام دیکھیں، ارشادِ الٰہی ہے:’’مؤمن مردوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی ناموس کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو یہ کام کرتے ہیں، اللہ ان سے باخبر ہے۔‘‘(النور:۳۰)
اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہوا:’’اور مومن عورتوں سے فرمادیجیے کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں اوراپنی ناموس کی حفاظت کریں اور اپنی زینت (یعنی سج دھج) کو ظاہر نہ کریں مگر جو خود بخود ظاہر ہو اور وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں۔‘‘ (النور:۳۱)
یہاں نظریں نیچی رکھنے سے مراد غیر کو دیکھنے سے پرہیز کرنا ہے اور ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنی نظر کو ہر قسم کی آلودگی سے بچانے کی کوشش کرے ،خواہ وہ ٹی وی اور اخبارات کی تصویریں ہوں یا عام اجتماعی جگہوں پر مرد و خواتین کی اجتماعی مخلوط محفلیں۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا: ’’اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر بڑی چادریں اوڑھ لیا کریں۔‘‘ (الاحزاب:۵۹)
حجاب کافائدہ یوں بتایا گیا :’’تاکہ وہ پہچان لی جائیں (کہ باکردار ہیں) اور ستائی نہ جائیں۔‘‘ (الاحزاب:۵۹)
آپ تصور کیجیے کہ اگر گلی سے دو خواتین گزر رہی ہوں، ایک باپردہ ہو، دوسری ادھورے لباس میں تو گلی میں کھڑا اوباش کسے تنگ کرے گا؟ ظاہر ہے جو پردے کے بغیر ہے، وہ اُسے ہی ستائے گا۔ پس ثابت ہوا کہ حجاب ہی وہ حفاظتی باڑ ہے جو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ ’’جلباب‘‘ اس چادر کو کہتے ہیں جو دوپٹے کے اوپر سے چوغہ کی طرح اوڑھی جاتی ہے۔
فرمانِ الٰہی ہے: ’’اور جب تم اُن سے سوال کرو تو پردے کے پیچھے سے کرو۔‘‘ (الاحزاب:۵۳)
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حالتِ احرام (یعنی حج) میں کپڑا آگے نکال لیتے اور جب گزرجاتے تو چہرے پر سے کپڑا ہٹالیتے۔‘‘
کتنا بہترین طریقہ ہے، امت کی ماؤں کا!
ایک مقام پر حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی عورت، محرم کے بغیر سفر نہ کرے اور کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ اس کے محرم کے بغیر تنہائی نہ اختیا رکرے۔‘‘ (صحیح البخاری)
آپؐ نے فرمایا : ’’دنیا شیریں اور سرسبز وشاداب ہے۔ اللہ اس میں تمھیں یکے بعد دیگرے بھیجنے والا ہے اور وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟ دنیا سے بچ جاؤ اور عورتوں سے بچ جاؤ کیونکہ بنی اسرائیل میں بھی رونما ہونے والا پہلا فتنہ عورتوں ہی کا تھا۔‘‘ (ترمذی)
اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں سے یوں خطاب فرمایا: ’’اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ جس شخص کے دل میں (بدنیتی کی) بیماری ہو، وہ کسی لالچ میں پڑجائے اور صاف سیدھی بات کرو۔‘‘ (الاحزاب:۳۲)
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا:’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو، جبکہ رسول تمھیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے اور جان رکھو کہ اللہ، آدمی اور اس کے دل درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے، اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی، جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ (الانفال: ۲۴،۲۵)
اس آیت کی تشریح میں صاحب تفہیم القرآن فرماتے ہیں:
’’جب گندگی عام ہوجاتی ہے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا، جو اس خرابی کو روکنے اور صفائی کا انتظام کرنے کی سعی کرے تو پھر ہوا اور زمین اور پانی ہر چیز میں سمیت (زہر) پھیل جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں جو وبا آتی ہے اس کی لپیٹ میں زندگی بسر کرنے والے سب ہی آجاتے ہیں۔ اسی طرح اخلاقی نجاستوں کا حال بھی یہی ہے کہ اگر وہ انفرادی طور پر بعض افراد میں موجود رہیں اور صالح سوسائٹی کے رعب سے دبی رہیں تو ان کے نقصانات محدود رہتے ہیں لیکن جب سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر کمزور ہوجاتا ہے، جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اُس میں نہیں رہتی، جب اس کے درمیان برے اور بے حیاء اور بداخلاق لوگ اپنے نفس کی گندگیوں کو علانیہ اچھالنے اور پھیلانے لگتے ہیں اور جب اچھے لوگ بے عملی اختیار کرکے اپنی انفرادی اچھائی پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و صامت ہوجاتے ہیں تو مجموعی طور پر سوسائٹی کی شامت آجاتی ہے اور وہ فتنۂ عام برپا ہوجاتا ہے، جس میں چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔‘‘
اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سمجھدار گھرانوں میں بھی جہاں نماز، روزے کا اہتمام کیا جاتا ہے، حیاء اور حجاب پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی۔ قرآنِ پاک اور احادیثِ نبویؐ میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں، اُن پر غوروفکر ہمیں اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ ہر مسلمان گھرانے کو درج ذیل اقدامات کی کوشش کرنی چاہیے:
(۱) گھروں میں داخلے کے وقت اجازت لے کر دستک یا بیل بجاکر داخل ہونے کو رواج دیا جائے۔
(۲) بچے جب دس سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ الگ کردیے جائیں۔
(۳) بچیوں کو شروع ہی سے اسکارف اور دوپٹہ کا عادی بنائیں، تاکہ بعد میں انھیں پردہ اور حجاب آسان لگے۔
(۴) لڑکوں کو بلاضرورت گھر سے باہر نہ پھرنے دیں، اور اُن کے دوستوں کو بھی کڑی نظر میں رکھیں۔
(۵) ٹی وی چینلز، والدین چیک کرکے لگائیں۔ بہتر ہوگا کہ کیبل نہ لگوائیں، اسی طرح انٹرنیٹ، موبائل کے استعمال کی بھی نگرانی رکھیں۔
(۶) نوجوان نسل کو برائی سے بچانے کے لیے اوائل عمر ہی میں حیاداری، پاک دامنی اور پاکیزہ زندگی کے اصولوں سے آگاہ کریں۔ برائی کے نقصانات بھی بتائیں۔
(۷) شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات میں مردوں کا انتظام الگ، خواتین کے بیٹھنے کا انتظام الگ کیا جائے۔ جب دورِ نبویؐ میں مسجد میں داخل ہونے کے راستے اور صفیں الگ الگ تھیں تو ہمارے ہر فنکشن میں اس کا انتظام کیوں نہیں ہوسکتا؟
سورئہ نور آیت نمبر۲۱ میں ارشاد ہوا: ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ جو کوئی اس کی پیروی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی کا حکم ہی دے گا۔‘‘
ہمارا دین ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ بحیثیت انسان، مرد و عورت برابر ہیں، لیکن یکساں نہیں ہیں۔ دونوں کی فطرت، استعداد، صلاحیتوں اور دائرئہ کار میں فرق ہے۔ عورت گھر اور بچوں کی پرورش کی ذمہ دار بنائی گئی جبکہ مرد کو معاش کمانے اور فیملی کی کفایت کرنے کے لیے قوام بنایا گیا ہے۔ جبکہ مغرب نے ’’عورت مرد شانہ بشانہ‘‘ کا پُر فریب نعرہ دے کر عورت پر دوہری ذمہ داری ڈال دی ہے۔ عموماً دنیا بھر میں عورتوں کی تنخواہ، مردوں سے کم رکھی جاتی ہیں۔ اس طرح انھیں یہ سستی لیبر میسر آجاتی ہے، جبکہ گھر کے اندر کی ذمہ داریاں بھی اسے ہی نبھانی پڑتی ہیں۔ یہ کیسی مساوات ہے؟
موجودہ دور میں جب مغربی تہذیب، میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کی تہذیبوں پر حملہ آور ہے، خصوصاً اس کا نشانہ ’’اسلامی تہذیب‘‘ ہے جو ان کے عزائم میں رکاوٹ ہے۔ اسی تہذیب کا شاخسانہ ہے کہ آج مغربی عورت در بدر ہوچکی ہے۔ سنگل پیرنٹ فیملی Single Parent Family کی بدولت ان کی نوجوان نسل منتشر اور پراگندہ خیال ہے۔ عریانی و فحاشی کے کلچر نے ان کو تباہی کے کنارے پر پہنچادیا ہے۔ خاندانی نظام تباہ و برباد ہوچکا ہے۔
بہرحال چونکہ مسلمان ممالک میں بھی میڈیا کے ذرائع وسائل بھی مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ اور وہ اپنی اسی تہذیب کو مسلمانوں میں بھی رائج دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ مسلم دنیا میں اسی تہذیب کے فروغ لیے کوشاں ہیں، دوسری طرف اپنے اپنے ملکوں میں وہ قانونی طور پر بھی اسلامی شعائر پر پابندیا لگا رہے ہیں۔ آسٹریلیا، فرانس اور بلیجم نے حجاب پر پابندی کا قانون پاس کردیا ہے۔ جرمنی میں ’’مروہ شیربینی‘‘ کو قتل کیا گیا، اٹلی میں ایک مسلمان خاتون کے پبلک مقام پر حجاب پہننے پر ۵۰۰؍یورو جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ ڈنمارک میں ایک مسلمان بہن کے پیچھے کتا لگا دیا گیا۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اِن سازشوں کو سمجھیں اور ان کا توڑ کریں۔ اسلام، حجاب، داڑھی، مسجد کے میناروں تک کو تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ امتِ مسلمہ کے لیے لازم ہے کہ وہ ان کی قدرومنزلت کو واضح کرے، اپنے قول و عمل سے بھی ان کی حفاظت کرے اور بین الاقوامی سیاسی سطح پر بھی مغربی تہذیبی یلغار کو روکنے اور اسلامی تہذیب کا مؤثر دفاع کرنے کے لیے پالیسی سازی کرے۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
ویرید الذین یتبعون الشہوات ان تمیلوا میلا عظیما۔ (النساء: ۲۷)
’’اور جو لوگ خواہشاتِ نفس کے پیرو ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ تم مکمل طریقے سے (باطل نظام کی طرف) جھک جاؤ۔‘‘
نیز یہ کہ ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے، وہ دنیا و آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں اور اللہ جانتا ہے اورتم نہیں جانتے۔‘‘ (النور:۱۹)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146