ماہ اکتوبر کا شمارہ حاضر خدمت ہے۔ اس شمارہ کے ساتھ ہی حجاب اسلامی کا ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ اب سے ایک سال قبل ماہ نومبر میں جب ہم نے حجاب اسلامی جاری کیا تھا اس وقت احباب اور بہی خواہوں نے ہمیں اس بار کی گرانی سے خوب اچھی طرح آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر ہم نے اللہ کے بھروسہ اور اپنی قوت جدوجہد پر اعتماد کرتے ہوئے اس بار گراں کو اٹھانے کا محکم فیصلہ کرلیا۔ احباب اور بہی خواہوں نے لاکھ سمجھایا کہ رسالہ نکالنے کے دو ہی کامیاب راستہ ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ آپ کے پاس خود بڑا سرمایہ ہو یا پھر آپ کی پشت پر مالی تعاون کے لیے کوئی بڑی طاقت ہو۔ اور ہمارے پاس دونوں میں سے کوئی بھی چیز نہ تھی۔ مگر ہم نے پھر بھی اپنے فیصلے پر قائم رہنے کا عزم کرلیا اور اب جبکہ حجاب اسلامی اپنی نئی اشاعت کا ایک سال مکمل کرنے جارہا ہے ہم اللہ رحیم و کریم کا شکر بجالاتے ہیں۔
گذشتہ سال حجاب اسلامی کے اجراء کے بعد بعض لوگوں نے اس کے جاری رہنے کے سلسلہ میں اندیشوں کا اظہار کیا تھا اور بعض دوستوں نے تو ’’شوق ایڈیٹری‘‘ تک کے الفاظ سے ہمیں ہماری اوقات بتانے کی کوشش کی تھی۔ مگر اللہ کے بھروسے ہم نے ان تمام چیزوں کو نظر انداز کیا اور اپنے مشن میں ذرہ برابر بھی تذبذب کا شکار نہ ہوئے۔
آج جبکہ ہم بارہواں اور سال کا آخری شمارہ اپنے قارئین کو پیش کررہے ہیں ہماری آنکھیں اشکبار ہیں۔ ہم سوچتے ہیں اس رب کائنات اور ارحم الراحمین کا شکر کس طرح ادا کریں۔ اس لیے کہ جب ہم حجاب کو پھر سے جاری کرنے کا فیصلہ کررہے تھے اس وقت مفلس تھے اور آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بڑے خسارہ کو برداشت کرنے کے قابل بنادیا۔ ہم بے گھر تھے اور اس نے اپنی رحمت کا سایہ ایک چھوٹے سے گھر کی صورت میںہمیں عطا کیا۔ اور یہ اللہ کا فضل و احسان ہی تو ہے کہ اس نے اس نئی اشاعت کو قارئین کے درمیان مقبولیت دی۔
قارئین! اس وقت ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم کچھ اور حقائق اپنے پڑھنے والوں کے سامنے لائیں۔ ان باتوں کے اظہار سے قبل ہم نے کافی غور کیا اور پھر اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان باتوں کو بیان کردینا ہی مناسب ہے۔ اس سے ہمیں بھی اطمینان حاصل ہوگا اور قارئین حجاب بھی ہمارے حالات سے آگاہ ہوسکیں گے۔
قارئین کرام! اس ایک سالہ مدت میں کئی نشیب و فراز آئے۔ مالی تنگی اور دشواریاں آئیں، ایک بار تو اتنا شدید بحران پیدا ہوا کہ ہمارے قدم لڑکھرانے لگے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا اور مطالبات شدید ہوگئے۔ اپنی سفید پوشی کا بھرم ٹوٹتا نظر آنے لگا۔ مگر اللہ کی رحمت نے ہمیں اس آزمائش سے نکال لیا۔ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے نجات دے دی۔
ہم نے پہلے شمارہ کی اشاعت چودہ ہزار روپئے کے خسارہ سے شروع کی تھی اور اب جبکہ ہم بارہواں شمارہ پیش کررہے ہیں یہ خسارہ تین ہزار سات سو روپے تک کم ہوگیا ہے۔ ان بارہ شماروں میں ہم نے ایک لاکھ سات ہزار سے کچھ زائد روپئے کا خسارہ برداشت کیا ہے اور ابھی کوئی چھ ماہ تک مزید خسارہ کے امکانات ہیں۔ اس لیے ہماری کوشش یہی ہے کہ ہم جلد از جلد تعداد اشاعت میں اضافہ کریں اور اس مالی خسارہ کو ختم کرنے کی جدوجہد کریں۔
اس ایک سال کی مدت میں ہمیں یہ بھی اندازہ ہوا کہ اردو رسائل و جرائد کا یہ برا حال کیوں ہے اور وہ کس وجہ سے غربت و افلاس کا رونا رونے پر مجبور ہیں۔
پہلے شمارہ کی اشاعت سے لے کر کوئی چھ ماہ تک ہم رسالہ مفت بانٹتے رہے۔ اور یہ امید کرتے رہے کہ لوگ سالانہ زرتعاون ادا کردیں گے۔ مگر داد تحسین کے علاوہ وہ کچھ حاصل نہ ہوا — ایک صاحب کو ہم حجاب چھ ماہ تک برابر دیتے رہے اور وہ بھی ہر ماہ انتظار کرتے اور نیا شمارہ طلب کرتے۔ ساتویں مہینے ہم نے شمارہ ان کو نہیں دیا تو وہ خود حجاب کا تازہ شمارہ لینے ہمارے گھر آدھمکے۔ ہم نے شرما حضوری ترک کرتے ہوئے ان سے زرتعاون کا مطالبہ کردیا تووہ بگڑ گئے۔ کہنے لگے کہ آپ سے ہماری جو تعلق داری ہے اس کی بنیاد پر ہمارا یہ حق ہے کہ حجاب اسلامی جیسا ’’قیمتی رسالہ‘‘ ہم آپ سے مفت حاصل کریں۔
ایک صاحب نے چھ ماہ کا زر تعاون جمع کیا اور جب مدت خریداری ختم ہوگئی تو آئے اور کہنے لگے کہ اس ماہ کا حجاب نہیں ملا۔ ہم نے بتایا کہ مدت خریداری ختم ہوگئی ہے۔ تو وہ صاحب خفگی کے ساتھ کہنے لگے کہ’’ ان رسالوں کو جو یہاں بچے پڑے ہیں کیا پیٹ میں بھروگے۔‘‘ اتنے شمارہ بچ گئے ہیں ایک شمارہ چھ ماہ کے لیے نہیں بھیج سکتے اور چھ ماہ کا چندہ جمع ہو ہی چکا ہے — اور — صورت حال یہ ہے کہ ہمارے بہت سے قریبی رفقاء نے ابھی تک سالانہ زرتعاون جمع نہیں کیا جبکہ ایک سال ختم ہونے کو ہے اور رسالہ وہ اسی استحقاق کے ساتھ حاصل کرتے ہیں جیسے زر تعاون جمع کردیا ہو بلکہ ان سے بھی زیادہ استحقاق کے ساتھ۔
اردو رسالوں کے پڑھنے والوں اور خاص طور پر صحت مند اور فکری رسالوں کے قارئین کی ذہنیت (کم از کم شمالی ہند کی سطح پر) تو یہ ہے کہ وہ خرید کر پڑھنا نہیں چاہتے اور اپنے اور اپنے اہل خانہ کی دینی و فکری تربیت پر ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو روزانہ دسیوں روپے کی بازاری چیزیں، آئس کریم، چپس اور چاکلیٹ تو کھلا دیتے ہیں مگر پچاس پیسہ روزانہ کی شرح سے 150/-روپے کسی فکری و دینی رسالہ کے لیے خرچ کرنے کے روادار نہیں۔ یہ ایک افسوس ناک صورتحال ہے جس کا کوئی علاج نظر نہیں آتا۔
یہ باتیں ہم کسی سے شکوہ کرنے کی غرض سے نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ قارئین کو صورت حال سے آگاہ کرنے کی خاطر بتا رہے ہیں۔ اور شکوہ کریں بھی تو کس چیز کا اور کسے سے؟
اس موقع پر اللہ رب العزت کا شکر بجا لانے کے ساتھ ہمارا جی چاہتا ہے کہ ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کریں جنھوں نے حجاب اسلامی کی توسیع و اشاعت میں ہمارا تعاون کیا۔ اپنے ایجنٹ حضرات اور ان تحریکی رفقاء کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے حجاب کی توسیع و اشاعت میں ہمارا تعاون کیا اور کررہے ہیں۔ بعض بہنیں خاص طور پر فعال رول ادا کررہی ہیں۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔
ہمارے قلم کار اور مجلس مشاورت کے لوگوں کے لیے ہمارا دل شکر کے جذبات سے لبریز ہے جن کی قیمتی تحریروں نے حجاب کو مقبولیت تک پہنچایا اور جن کے قیمتی مشورے اسے نکھارنے اور سنوارنے میں برابر لگے ہیں۔
اخیر میں قارئین کا شکریہ! ان سے گزارش ہے کہ حجاب اسلامی کی توسیع و اشاعت میں ہمارا تعاون کریں اور خیر کے فروغ میں حصہ دار ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری لغزشوں سے درگزر فرمائے اور آئندہ حفاظت فرمائے اور حجاب اسلامی کو ترقی کی منزلوں تک پہنچائے۔ آمین۔
شمشاد حسین فلاحی