اس شمارہ کے ساتھ ہی حجاب کی نئی اشاعت کا سفر دو سال مکمل کرکے تیسرے سال میں داخل ہوگیا۔ ادارہ حجاب کے لیے مقام شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنی عنایت جاری رکھی ہے۔ دوسری طرف قارئین اور احباب کی کوششیں لائق ستائش ہیں جن کی دلچسپیوں، مشوروں اورعلمی وعملی تعاون سے یہ سفر ممکن بنا ۔
لیکن اشاعت کے تیسرے سال میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ ہم سخت تجربوں سے گذرے۔ اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ قارئین اور حلقہ حجاب ان تجربات کو سامنے رکھ کر اپنی دینی اور ملی کاوشوں کا جائزہ لیں۔
حجاب کی اشاعت ثالث کا بوجھ ادارے نے اس عزم کے ساتھ اٹھایا تھا کہ ادارہ حجاب ہندوستان کی اسلام پسند خواتین کو منظم کرنے میں علمی و فکری راہیں ہموار کرے گا۔ ہم اپنی خواتین کو ملک میں خواتین کے حقیقی مسائل اور ان کے انصاف پسندانہ حل کی طرف توجہ دلائیں گے۔ قارئین محسوس کریں گے کہ اب تک کے شماروں میں ہم نے خواتین کو ملک میں خواتین پر چلنے والی ہر نئی بحث سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ عمرانہ کا مسئلہ، ڈریس کوڈ، مسلم پرسنل لا بورڈ، حقوق نسواں، انٹرویوز، بچیوں کے احوال اور خواتین ریزرویشن جیسے مسائل پر اسی نقطہ نظر سے بحث کی گئی۔ پچھلے شمارے سے اخبار نسواں کا کالم اسی مقصد سے شروع کیا گیا۔ اسی سلسلے میں ادارے نے ماہرین اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں سے تعاون لیا۔
دوسری طرف ادارے نے نوخیز قلم کاروں کو جگہ دی تاکہ قلم کار خواتین کی ایک ٹیم ملک کے طول و عرض میں سرگرم رہے۔ اس کے لیے متعدد نئے قلمکاروں کی رہنمائی کی جاتی رہی اور انھیں مشورے دئے جاتے رہے۔ ان مقاصد کے لیے ادارہ حجاب نے ملک کی اہم ریاستوں کا سفر بھی کیا۔
الحمد للہ ان کوششوں کو ملک کے بڑے طبقے اور بیرون ملک کی بعض اہم خواتین نے لائق ستائش قرار دیا۔ لیکن اس کے باوجود ہم نے اندازہ کیا کہ یہ کام انتہائی مشکل کام ہے۔ انھیں مشکلات کے ساتھ ہم اپنے قارئین اور قلمکاروں سے شکوہ کرنے جارہے ہیں۔
ہمارے اکثر قارئین چند ستائشی خطوط لکھ کر یہ تصور کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ذمہ داری ادا کردی۔ اکثر خطوط ’’اردو صحافت کے مرض ‘‘میں گرفتار رہتے ہیں۔ مراسلہ نگار یہ کیوں نہیں مانتے کہ تعریف و ستائش کے خطوط اس تحریک اور ادارے کی ضرورت نہیں ہیں۔ اس نقطہ نظر سے مضامین کا جائزہ و تنقید، افسانوں کا باریک بینی سے جائزہ اور زبان و بیان کا استعمال کبھی مراسلہ نگاروں کی گرفت میںنہیں آتا۔ ادارہ ہمیشہ اس کمی کو محسوس کرتا رہا ہے۔ کیا ہم یہ تصور کریں کہ ہماری خواتین میں تعمیری تنقید اور مشورہ دینے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ شاید ایسا نہیں ہے۔ لیکن وہ مراسلہ نگاری کے انہی معمول کے الفاظ سے آگے وہ کچھ نہیں لکھتیں۔
خواتین سے متعلق تازہ مسائل پر ادارے نے رہنمائی کے لیے قدم بڑھایا۔ بار بار لگا کہ یہ قدم کہیں رک نہ جائیں۔ ادارہ کا عزم ہے کہ خواتین کے ہر طبقے، جدت پسند، قدامت پسند ،ترقی پسند اور دیگر پسندوں میں گرفتار خواتین کے بارے میں لکھا جائے۔ غریب خواتین کے احوال، دولت مند خواتین کی بے حسی، ناخواندہ خواتین کی بے چارگی اور تعلیم یافتہ خواتین کی خود غرضانہ روش پر اسلامی نقطہ نظر سے رہنمائی کی جائے۔ لیکن ہماری خواتین مضمون نگاروں نے بہت حوصلہ نہ دلایا۔ بہت سی خواتین مضمون نگار تذکیری اور ناصحانہ تحریریں لکھنا ہی کافی سمجھتی ہیں۔
اس کے بعد حجاب کا تیسرا حصہ ادبیات کا ہے جس کے ذریعہ تعمیری افسانے، کہانیاں اور ناولٹ پیش کیے جاتے ہیں۔ گنتی کی چند خواتین نے تعمیری ادب کے اس حصے میں قلمی تعاون کا وعدہ کیا۔ یہاں تک کہ بیرون ملک کی بعض خواتین نے ہمیں تعاون دیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی کہانیاں اور افسانے ادارے کو موصول ہوتے رہے۔ یہ تو طے ہے کہ ہماری بہنوں میں تعمیری ادب میں حصہ لینے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے لیکن ہمیں شکوہ ہے کہ وہ ان صلاحیتوں کو بیدار کرنے ، باخبر رکھنے اور چمکانے کی فکر نہیں کرتیں۔ بس پرانے اور گھسے پٹے پلاٹ پر نئے کرداروں کی داستانیں بھیج دی جاتی ہیں۔
قارئین کہہ سکتے ہیں کہ آج تو اداریہ نے خوب خبر لی۔ لیکن یہ شکوہ کیوں پیدا ہوا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب ہم نے حجاب کے لیے ملک کے اہم حصوں میں سفر کیا تو ہم نے اسلام پسند حلقوں کی خواتین کے علاوہ غیر مسلم اور ترقی پسند خواتین تنظیموں اور ان کے لکھنے والوں سے ملاقاتیں کیں۔ ہم نے دیکھا کہ ان کی خواتین اور مضمون نگار اپنی فکر کی تبلیغ کے لیے کتنی سنجیدگی سے مصروف ہیں۔ ایک خاتون ایک مہینے میں دس دس مضامین لکھ رہی ہے۔ ایک ادارہ اکیلے خواتین کے لیے کئی کئی پرچے نکال رہا ہے۔ بعض اسلام مخالف اہل فکرو دانش نے تو صرف اسلام اور مسلم خواتین کی خبرلینے کے لیے ہی ادارے کھول رکھے ہیں۔
افسانوں اور کہانیوں کی بات کی جائے تو معاملہ اور زیادہ نازک ہے۔ جن لوگوں نے ’’لجّا‘‘ کتاب پڑھی ہے انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ تسلیمہ نسرین جیسی خواتین دنیا میں ایک نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کی ان دیکھی کرنے والی اروندھتی رائے کی سرگرم زندگی اہل خبر سے پوشیدہ نہیں۔ مسلم خواتین پر مسلم نما خواتین کے بے ہودہ افسانے اور تحریری کاوشیں آج پوری قوت سے مسلم طالبات کا ذہن بگاڑ رہی ہیں۔
کیا ان سب کے باوجود ادارہ حجاب آپ سے شکوہ نہ کرے۔ اور آپ سے شکوہ نہ کرے تو کس سے کرے۔ کیا ادارہ حجاب محض شائع ہونے کے لیے کچھ بھی چھاپ دے۔ کیا ’’پاکیزگی سے خالی آنچلوں‘‘ کو معصوم ذہنوں پر پردہ ڈالنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ اس پر آپ غور فرمائیں۔
ادارہ حجاب نے حضرت مائل خیر آبادیؒ اور ڈاکٹر ابن فریدؒ سے جو فکری وراثت پائی ہے اس کا تقاضا ہے کہ آپ سے شکوہ کیا جائے۔
آپ کے سماج میں اور آپ ہی کے سامنے ہر روز خواتین سے متعلق کچھ نہ کچھ واقع ہوتا ہے۔ آپ کے شہر میں خواتین تنظیموں کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ غریب و پسماندہ خواتین کی بدحالی آپ کی نگاہوں سے گذرتی ہوگی۔ مسلم طالبات کی فکری صورتحال سے آپ دوچار ہوتی ہیں۔ یہی سب موضوعات ہیں جنھیں آپ دور اندیش صحافیانہ اور اسلام پسندانہ نگاہوں سے دیکھیے۔ درد مندی کے ساتھ تعمیری ادب کے پیمانے میں سماج کی ان تصویروں کو الفاظ کی شکل دیجیے۔ یہ لفظی تصویریں ملک کی خواتین میں حرکت پیدا کریں گی، اسی طرح خواتین میں اسلامی تحریک کا شعور اور اس کے لیے سرگرم ہونے اور اس کے لیے علمی کاوشوں کے لیے تیار ہونے کا جذبہ پیدا ہوگا۔