حجاب اور اسلام

نائلہ فرید

حجاب اور اسلام دونوں کا چولی دامن کا تعلق ہے کیوں کہ عورت کا مطلب ہی ڈھکی چھپی چیز ہے اور مذہب اسلام صالح عورت کو حجاب کی تاکید کرتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں عورت کا کردار بہت زیادہ اہم سمجھا جاتا رہا ہے اور قوموں کو سربلندی اور اعلیٰ مقام اور اعلیٰ اخلاق بھی عورت ہی کی بدولت ملتا ہے کیوں کہ بچے کی پہلی درس گاہ ہی ماں کی گود ہوتی ہے۔ عربی کا ایک مقولہ ہے کہ عورتیں تہذیب کی عمارت کا بنیادی ستون ہے۔ عورت اللہ کے لطف و جمال اور صفت خلاقیت کا مظہر ہے۔ جب بھی شیطان کسی معاشرے کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو تو وہ سب سے پہلے عورت کی صفت ’’حیاء‘‘ پر وار کرتا ہے۔ یہی اس کا اولین ہتھکنڈا تھا جو حضرت آدم اور بی بی حوا پر چلایا اور یہی آج تک اس کا محبوب اور کاری وار ہے جو یہ انسان کو برباد کرنے کے لیے استعمال کرتا آرہا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ہر دین کا ایک امتیازی وصف ہوتا ہے اور دین اسلام کا بنیادی وصف ’’حیاء‘‘ ہے۔ یعنی حیا مسلمانوں کی شناخت ہے اور یہی وہ بنیادی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کا درجہ پاکر حیوانوں سے ممتاز ہو جاتا ہے۔

عورت میں سے اگر حیا کی صفت ختم ہوجائے تو معاشرہ حیوانیت کا شکار بن کر نسلوں میں بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ حیا پردہ، حجاب، عفت اور عصمت ایک پورا نظام زندگی ہے جو اسلام ایک عورت کو عطا کرتا ہے اور اسی کی وجہ سے عورت کو غیرت اور وقار بھی ملتا ہے جو چیز جس قدر قیمتی ہوتی ہے اس کو اتنے ہی پردوں میں رکھا جاتا ہے اور بیرونی آلائشوں اور ماحول کی کثافتوں سے دور رکھا جاتا ہے۔

اسلام دین فطرت ہے۔ اللہ نے مرد عورت دونوں کو پیدا کرکے معاشرے میں ان کو الگ الگ دائرہ کار دیا ہے کہ جس میں وہ اپنی ذمہ داریاں کما حقہ انجام دے کر اللہ کے یہاں اجز و ثواب پاسکے اور عورت کو حجاب ایک الگ تشخص دے کر صالحہ اور پاکیزہ رکھتا ہے، عورت کی عزت و وقار میں اضافہ کرتا ہے اور حجاب کرنے سے چہرے پر نور برقرار رہتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں لعنت فرمائی ہے۔ (ابوداؤد)

موجودہ دور میں کثرت سے ایسے مرد اور عورتیں دکھائی دیتی ہے جو اس قسم کے پہناوے پہنتی ہے اور ایسے مرد عورتوں کی طرح کے ریشمی لباس اور لمبے بال رکھتے ہیں دکھائی دیتے ہیں۔ موڈرن ازم کے نام پریہ بے حیائی آج کل عام ہوچکی ہے لیکن یہ صنف اور حکم الٰہی سے بغاوت ہے۔ حالاں کہ عورت کا پردہ کرنا بلاشبہ انسانی معاشرے کو خطرناک مرض سے بچانا ہے۔

پردے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’دیکھنے والے پر اور اس پر جس کی طرف نظر گئی اللہ کی لعنت۔‘‘ حجاب کا دوسرا حکم سورہ نور کی آیت نمبر ۲۱ میں ہے جو سابقہ آیت کے تسلسل میں ہے ’’اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں۔‘‘ اوڑھنی چادر دو پٹے کی ہی ایک شکل ہے جس کا مطلب ہے کہ اس سے سر چہرہ اور سینہ چھپانا ضروری ہے۔ حجاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کے کفن میں بھی دو کپڑے اضافی ہوتے ہیں۔ حجاب صرف عورت کا ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کا تشخص ہے اس لیے ہمیں اس بات پر عمل کرنا چاہیے اور اپنی بچیوں کی زندگی سنوارنے کے لیے انہیں اسلام کے اصول اور پردے کی اہمیت بھی اپنی بچیوں کے سلسلے میں ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ شروع ہی سے انہیں ساتر لباس پہنائیں اور مغربی طرز کے لباس سے بچائیں۔ بعض والدین یہ تصور کرتے ہیں کہ بچی ابھی چھوٹی ہے اور اسی عمر میں کچھ خوب صورت اور تراش خراش کے لباس پہنائیں یہ غلط تصور ہے۔ اس طرح بچپن ہی سے ان کے ذہن میں حیا کا تصور کمزور پڑ جاتا ہے۔

اس کے برخلاف شروع ہی سے ساتر لباس اور حیا کا تصور ان کے اندر مضبوط قوت ارادی اور قوی حیا کا تصور پیدا کرے گا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں