حجاب بہ حیثیت متبادل نظریہ

کیتھرائن بُلاک /مترجم : ہاشمی سید و ہاج الدین

[زیر نظر مضمون ڈاکٹر کیتھرائن بلک کی کتاب Rethinking Muslim Women and the veil کے ایک باب کا ترجمہ اور تلخیص ہے۔ انھوں نے ٹورنٹو یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی اور 1994 میں اسلام قبول کیا۔ وہ کئی کتابوں کی مصنف اور کئی علمی و دینی اداروں سے وابستہ ہیں۔]

اس مضمون میں میرا مقصد اکیسویں صدی کے سرمایہ دارانہ صارفیت پر مبنی کلچر میں حجاب کے مفہوم کے ایک مثبت نظریہ کی تشکیل ہے۔ میرا استدلال ہے کہ چونکہ سرمایہ داریت جسم اور مادہ پرستی پر زور دیتی ہے اس لیے حجاب کا استعمال عورتوں کے لیے بااختیار بنانے اور انہیں آزادی فراہم کرنے کا تجربہ ثابت ہوسکتا ہے۔ میں نے مردوں کی نظروں اور سرمایہ داریت کی جانب سے عورت کے جسم کو مالِ تجارت بنانے کے تعلق سے حقوقِ نسواں کے علمبرداروں کے دلائل کا تجزیہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ حجاب ان دونوں ضرر رساں پہلوؤں سے مقابلہ کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ اس میں میںنے حجاب پر کی جانے والی بعض عام تنقیدوں کا جائزہ لے کر ان کی تردید کی ہے۔مثال کے طور پر حجاب ایک ایسا لباس ہے جو نسوانیت کا گلا گھونٹ دیتا ہے، عورت کو صرف جنسی تسکین کی شئے کے طور پر پیش کرتا ہے اور انہیں اپنی پسند کے حق سے روکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس میں حجاب کو ایک ایسی مذہبی روایت کے باب الداخلہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس سے وابستگی جدید مادہ پرستی کے تباہ کن اثرات کا مقابلہ کرنے میں مدد کرتی ہے۔

آزادی اور تحفظ

مین اسٹریم صحافت کے لیے لکھتے ہوئے ناہید مصطفی اور سلطانہ یوسف علی (دو افراد جن سے مصنف نے گفتگو کی) نے حجاب کو مغرب کے مقبول عام صارفیت پر مبنی کلچر کے ظالمانہ پہلوؤں سے آزادی کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس میں انھوںنے حامیانِ حقوقِ نسواں کے دو تجزیوں کو بیان کیا ہے۔ اول: سرمایہ دارانہ کلچر میں عورت کے جسم کو مادی اور تجارتی شے سمجھنا اور دوم مثالی حسن کی ترویج کے ذریعے عورت کو پہنچنے والے نقصان کا تجزیہ کیا ہے۔

اوربیچ (Orbach)، بورڈو(Bordo)، وولف (Wolf)، اسشر(Ussher)، میک کنِن (MacKinnon)، ڈوارکن(Dworkin) اور دیگر کئی حامیانِ حقوقِ نسواں نے مغربی تہذیب میں عورت کی تصویر کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ انھوںنے نسوانی جسم کو مادی شئے بنانے اور اشتہارات، فحش نگاری، آرٹ، سنیما وغیرہ میں اس کے استعمال کے مسئلہ کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا اصل استدلال یہ ہے کہ نسوانی جسم کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جس سے مردوں کی نظروں اور مردوں کی خواہش کی تسکین ہوتی ہے، کیوں کہ عورت خوبصورت ہوتی ہے اور اس کا جسم جنسی خواہش کو ابھارتا ہے۔ فنونِ لطیفہ (خاص کر عورت کی عریانی کے اصناف) اور فحش نگاری میں عورت کو عام طور پر ایک تابع اور اکثر لیٹے ہوئے اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ وہ مرد کی ملکیت ہے جسے وہ اٹھالے جائے۔ گرچہ کسی تصویر/ فلم میں ’اٹھالینے‘ کی منظر کشی ہوتی ہے، لیکن حقوقِ نسواں کے بعض علمبرداروں نے یہ بحث کی ہے کہ عورت کی ایسی منظر کشی کے اثرات حقیقی زندگی میں ہوتے ہیں کیوں کہ یہ ’’عورت کو (مرد) کے جنسی استعمال کی شے کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔‘‘ مزید برآں عورت کے جسم کی یہ نمائش صرف فنونِ لطیفہ تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ جہاں کہیں اس کی تصویریں ہوتی ہیں بالخصوص اشتہارات میں، ہر طرف یہی شبیہ پائی جاتی ہے۔ عورت کے جسم کو بکنی (مختصر لباس) میں کار کے عقبی حصے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دکھایا جاتاہے، ایک عورت کے پیر کو اناج کے ڈبے سے باہر نکلا ہوا دکھایا جاتا ہے (Get more kicks out of Kix)۔ اگرچہ حقیقت میں فروخت کی جانے والی اشیاء اورنسوانی جسم کی جنسی کشش کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہوتا، مگر وہاں جسم خریدارکی کشش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی تصویریں صنفِ مخالف میں ہیجان پیدا کردیتی ہیں اور اس خیال کو تقویت پہنچاتی ہیں کہ عورتوں کے جسم اشیاء ہیں۔ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عورت کی اس طرح کی نمائش سے عورت انسان کے درجے سے گر جاتی ہے، یہ عورت کو استعمال کی شئے بنادیتی ہے اور ان کی شخصیت کو مسخ کردیتی ہے۔

عورت کی اس حالت کو تبدیل کرنا اور اسے بہتر بنانا حامیانِ حقوقِ نسواں کے منصوبے کا ایک اہم جزو ہے۔

مصطفی اور یوسف علی حجاب کو عورت کے اشیائے تجارت یا نمائش کی شئے بننے کے جال سے نکلنے کا راستہ سمجھتے ہیں، جو ان کی شخصیت میں سے کچھ تو انہیں واپس لوٹاتا ہے۔ ان کو یقین ہے کہ حجاب عورت کو نمائش کی شئے بننے سے بچاتے ہوئے مرد کی نگاہوں کے مضر اثرات کو دور کرتا ہے۔ وہ دونوں یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’حجاب میں آزادی ہے کیوں کہ یہ عورت کو حسن کے غارت گر کھیل کی تباہ کاریوں سے بچاتا ہے۔ خوبصورتی کا کھیل یہ ہے کہ عورتیں اپنے آپ کو ایسے خوبصورت پیکروں میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں، جنھیں وہ اپنے ارد گرد دیکھتی ہیں۔ لمبے و ڈھیلے لباس پہن کر اور اپنے بالوں کو اسکارف سے ڈھانک کر وہ ’’فیشن انڈسٹری اور عورتوں کا استحصال کرنے والے دوسرے اداروں کی قید سے آزاد محسوس کرتی ہیں جن میں وہ معلق پینڈولم کی طرح قید تھیں۔‘‘ (یوسف علی)

خوبصورتی کے کھیل سے باہر نکلنے کا فیصلہ کرکے وہ خود اپنے اسلامی ورثہ کی ایک علامت کو آزاد کررہی ہیں، جسے دوسرے لوگ کسی اور سیاق میں ظالمانہ سمجھتے ہیں۔ اس طرح حجاب کا انتخاب کرکے وہ عورتوں کے متعلق ایک غالب تہذیب (مغربی) کے تصورات (یعنی عورت کو فیشن زدہ لباس میں اور نازک و خوبصورت بن کر رہنا چاہیے) کے بالمقابل مضبوط مسلم عورت کی شناخت اور ایک اقلیتی شناخت کی تعمیر کررہی ہیں۔ وہ تصور حسن کے طاقتور خیالات سے مزاحمت، ان کے خلاف بغاوت اور ان سے مقابلے کے لیے اپنے اسلامی ورثہ کا استعمال کرتی ہیں۔ یہ اور اس طرح کا ذہن رکھنے والی مسلم خواتین کے لیے مغرب میں حجاب ایک جوابی تدبیر ہے۔ یہاں تک کہ ان کے پاس اس غلط شعور کا اپنا ایک الگ بیان ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

’’لوگوں کے سامنے اپنے سینے کو عریاں رکھنے کے حق سے عورتوں کو مساوی مقام نہیں ملے گا، جیسا کہ بعض لوگ اس کا یقین دلانا چاہتے ہیں۔‘‘ (مصطفی) اس طرح معاملہ کا رخ حقوقِ نسواں کے ان حامیوں کی جانب موڑ دیا گیا جو نوجوان عورتوں کی جانب سے حجاب کی حمایت کو ان کی غلط شعور کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

حجاب اور نسوانیت

جو لوگ عورت کے جسم کی نمائش کو جائز اور مناسب (’’اگر آپ کے پاس خوبصورت جسم ہے تو اس پر فخر کیجیے‘‘ مغرب کے نظریے کے تناظر میں ) سمجھتے ہیں ان کے نقطۂ نظر سے ’’اسے چھپانا‘‘ نسوانیت اور خوبصورتی کو کچلنے کے مترادف ہے اور باپردہ مسلم خواتین کے ہلکے بھورے رنگ کے لباس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان کی نسوانیت اور جنسیت کو مسترد کیا جاچکا ہے۔میں نے اس مفروضے کے ازالے کے لیے چار نکات پیش کیے ہیں۔ اول: یہ کہ عورت ہر وقت حجاب پہنے نہیں رہتی۔ گرچہ اسے عام طور پر ایسے ہی بیان کیا جاتا ہے۔ حجاب کوئی عوامی یا نجی لباس نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق غیر متعلق یا متعلق مرد کی موجودگی یا غیر موجودگی سے ہے۔ لہٰذا جب کوئی عورت اپنے رشتہ دار مردوں یا عورتوں کے درمیان ہوتی ہے ، تب وہ پردہ نہیں کرتی۔ اسی طرح باہر بھی جب وہ غیر مردوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے تو اسے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دوم یہ کہ عورتوں کو اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ خود اپنے لیے اور اپنے شوہر کے لیے اچھے لباس زیب تن کریں۔ سوم، چونکہ سماجی تقریبات زیادہ تر علیحدگی میں انجام پاتی ہیں، اس لیے عورتیں اکثر مردوں کی غیر موجودگی میں مجتمع ہوتی ہیں۔ ان موقعوں پر، بیشتر خواتین بناؤ سنگھار اور عمدہ آرائشی لباس پہننا پسند کرتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ قابلِ دید موقع دلہن کا عروسی جلوہ ہوتا ہے، جس میں عورتیں اپنا سب سے خوبصورت لباس پہنتی ہیں۔ ان میں سے بعض موقعوں پر مہندی کے ڈیزائن سے ایک دوسرے کا ہاتھ سجانے میں اپنا وقت صرف کرتی ہیں۔ ان مواقع پر گانا اور رقص عام بات ہے۔ میں نے عمر رسیدہ عورتوں کو بھی دیکھا ہے کہ وہ ناچ کر، تالیاں بچا کر، اور اپنی کمروں کو مٹکا کر اس شرمیلی، سمٹی سمٹائی دلہن کو اس بات کے لیے اکسا رہی ہوتی ہیں کہ وہ اور بھی جوش سے اپنی کمر اور جسم کو حرکت دے اور چوتھے یہ کہ عوامی مقامات پر مرد کی نگاہوں سے نمٹنے کے لیے حجاب اور عورتوں کی دوسری حکمتِ عملیوں، جیسے بعض حامیانِ حقوقِ نسواں کے عام طریقے یعنی سرمونڈنے، میں پائی جانے والی مماثلتوں کو واضح کیا ہے۔

حجاب، جنسیت

آزاد خیال اور حامیانِ حقوقِ نسواں دونوںکا یہ خیال ہے کہ انسانی رویہ اور خواہش سماجی طور پر تشکیل پاتے ہیں۔ حجاب کی طرح کا کوئی بھی طرزِ عمل جو مرد وعورت کے روایتی امتیاز میں اور اضافہ کرتا ہو وہ درست نہیں ہے۔

پردے کے احکامات سے متعلق اور مردو عورت کے لباس میں فرق کے بارے میں خود قرآن نے تفصیلی وضاحتیں نہیں کی ہیں۔ تاہم اس میں دو اجمالی ہدایات ملتی ہیں جو کافی ہیں۔ جب ہم اس سلسلے کی قرآنی آیات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں عورتوں کے لیے ہدایات ملتی ہیں، جیسے سورہ نور ، آیت نمبر31میں کہا گیا کہ وہ ’’خمورھن‘‘ (عام طور پر اوڑھنی بطورِ حجاب) کو اپنے سینوں پر ڈالے رہیں۔ اور سورہ احزاب آیت 59میں کہا گیا ہے کہ ’’اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں۔‘‘ (جب وہ باہر نکلیں) کہ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے، تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔‘‘ میرے خیال میں قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ عوامی مقامات پر مردو زن کے اختلاط میں عورت کو نقصان ہوسکتا ہے اور ایسے موقعوں پر ایک چادر ڈال لینے سے نقصان کا اندیشہ کم ہوجاتا ہے۔ قرآن نے قطعیت کے ساتھ یہ نہیں بتایا کہ کس طرح کا یا کون سا کپڑا زیادہ معاون ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر ہم سورہ نور کی آیت کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں، جس میں مردوں اور عورتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ’’اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘‘ (سورہ نور آیت 30-31) تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن کا اشارہ مردوں کی نگاہوں کی جانب ہے، جس کا اس سے قبل تجزیہ کیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ مرد کی جنسی خواہش کے لیے نظر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

جنسی تفریق اس وقت خطرناک ہوسکتی ہے جب مرد وعورت اور اعلیٰ و ادنیٰ کے درمیان امتیاز کو مذہبی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے اور اسے زندگی، تعلیم اور رائے دہی جیسے بنیادی حقوق سے عورت کو محروم کرنے کے لیے استعما ل کیا جاتا ہے جیسا کہ صدیوں سے جاری تھا۔ تاہم قرآن مرد و عورت میں اس طرح کے امتیازاور فرق لو تسلیم نہیں کرتا۔ بلکہ میں یقین سے یہ کہوں گی کہ مرد و عورت کے درمیان یہ بنیادی مساوات کا اعلان ہے، جیسا کہ سورہ نساء آیت :۱ میں فرمایا گیا: ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔‘‘ عوامی مقامات پر خواتین کے لیے جو دائمی نقصانات ہوسکتے ہیں قرآن ہمارے لیے اس کی وضاحت پیش کررہا ہے۔ عورت کے پردے کو عورت/ مرد کی لازمی شناخت سے زیادہ ایک حکمت عملی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ آخر میں عمر رسیدہ خواتین کو بے نقاب رہنے کی اجازت دی گئی (سورۃ نور، آیت:۶۰) یہ آزاد خیالی یا مابعد جدید حالت کے برعکس ہے جس میں یہ توقع ہوتی ہے کہ اختلاط کا عمل عورت پر مرد کے تسلط اور اس کی ہراسانی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے گا۔ جب کہ قرآن کہتا ہے کہ یہ انسانی وجود کی ایک مستقل خصوصیت ہے۔ اس کا لازمی مطلب حیاتیاتی جبر نہیں ہے کہ XYکروموزومس سے مراد عورت پر جبر کرنے والے ہیں کیوں کہ اکثر مرد عوررتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔ بلکہ اختلاط کا یہ عمل مرد کے اس قسم کے رویے کو مستقل طور پر دہراتا رہتا ہے۔

لہٰذا میرا ستدلال یہ ہے کہ حجاب عورت کی جنسی خواہش سے انکار نہیں کرتا۔ صرف وہی سماج بہتر خدمت انجام دے سکتا ہے، جو گھر اور گھر سے باہر اور خاص کر عوامی زندگی میں مرد وعورت کی جنسی خواہش پر نظر رکھتا ہو۔

حجاب اور پسند

حجاب کی طرف لوٹنے کی تحریک کے عالموں کے علاوہ عمومی طور پر مغربی اسکالرز بھی عورتو ںکے حجاب کو ’پسند‘ کرنے کے متعلق شک میں مبتلا ہیں۔ ایک پختہ اعتقاد یہ ہے کہ عورتوں پر پردے کو ’اختیار‘ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے، اس کے لیے بڑی چالاکی سے ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ یہ خیال کچھ اس طرح ہے: ’’اگر آپ نے حجاب اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو ٹھیک ہے، دراصل سماجی روایات نے آپ کو یہ یقین کروایا ہے کہ حجاب ایک اچھی بات ہے۔ تاہم اگر تم واقعی ایک عورت کی حیثیت سے اپنی دلچسپی کو جانتیں تو تمہیں یہ معلوم ہوتا کہ پردہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے، چنانچہ پردہ کرنے کے انتخاب کا فیصلہ اس بات کی افسوسناک علامت ہے کہ آپ کی ذہن سازی کی گئی ہے۔‘‘ درحقیقت مسلمان بننے سے پہلے میں ایسا ہی سوچتی تھی۔

کسی فرد کے اپنے رہن سہن اور اس (مرد یا عورت) کے اختیار کی اہلیت کے درمیان تعلق بہت پیچیدہ ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی پسند ہمیشہ اس کی تہذیب کے قابل قبول اور ناقابلِ قبول عناصر کے درمیان محدود ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ مغرب میں بھی جہاں بہت زیادہ آزادی پائی جاتی ہے، وہاں بھی لوگوں کی پسند کے اپنے معیارات ہیں۔ (اس موضوع پر میں نے کتاب کے باب سوم میں بحث کی ہے۔) اکثر مغربی معاشروں میں آج بھی عورتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عوامی مقامات (سوائے مخصوص مقامات جیسے : عریانیت کے ساحل یا کیمپ) پر اپنے سینے نہ کھولیں۔ سینے کے کھلا نہ رکھنے کی اس پابندی کی بنا پر کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ عورت اپنی تہذیب کی وجہ سے اپنا سینہ چھپانے پر مجبور ہے۔ بیشتر خواتین اس پابندی کو قبول کرتی ہیں اور ان کا یہ احساس ہوتا ہے کہ انھوںنے اپنی پسند سے ایسے کپڑے پہنے ہیں جن میں سینہ چھپا رہے۔ حجاب کا بھی یہی معاملہ ہے کہ بہت سارے مسلم معاشروں میں یہ تہذیبی طور پر مسلمہ لباس ہے، جسے مسلم خاتون اپنی پسند سے اختیار کرسکتی ہے (گرچہ ایسے معاشرے بھی ہیں جنھوں نے حجاب کو قبول نہیں کیا ہے، ترکی اس کی حالیہ معروف مثال ہے) بلاشبہ میری اس بحث کا اطلاق ان معاشروں پر ہوتا ہے جو عورتوں کو اپنی پسند کی واقعی اجازت دیتے ہیں۔ان میں ایران اور طالبان کا افغانستان جیسے مقامات شامل نہیں ہیں، جہاں عورتوں کو بزورِ قانون بے پردگی سے روکا جاتا ہے یا سماجی شورش کے دور کی مسلم دنیا جہاں حجاب کو وفاداری کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور زبردستی پردہ کرنے کے لیے ان پر تشدد کیا جاتا تھا۔عورتوں کے خلاف اس قسم کا تشدد ناقابلِ قبول ہے۔ یہاں میری گفتگو حجاب اور پسند کے تعلق کے بارے میں ان معاشروں سے متعلق ہے جہاں حجاب کو اختیار کرنے یا نہ کرنے کی حقیقی آزادی پائی جاتی ہے۔

حجاب او رمذہب

مذہبی احکام کے باعث اور پاکدامنی کے لیے جب کوئی مسلم خاتون، (باب دوم میں مذکور مجھے انٹرویو دینے والی کئی خواتین کی طرح)، حجاب کو شعوری طور پر پہنتی ہے تو یہ اسلامی عقیدے کا ایک اہم باب بن جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر بڑے مذاہب کی طرح، اسلامی تعلیمات بھی موت کے بعد کی پر زور دیتی ہیں اور ایمان لانے والوں کو آگاہ کرتی ہیں کہ دنیاوی سازوسامان کی حرص میں گم راہ نہ ہوجاؤ۔ قرآن لوگوں کے ذہنوں کو قیامت کے دن کی جانب متوجہ کرتا ہے جہاں ہر انسان کے اچھے اور برے اعمال میزان میں تولے جائیں گے۔ پرہیزگاری، جس میں لباس بھی شامل ہے، اس کی جانب ہمیں تکرار کے ساتھ یاد دہانی کروائی گئی ہے اور یہ تمام دنیاوی مال و متاع سے بہت زیادہ اہم ہے۔ گرچہ ایک نیکی کے طور پر بھی حجاب استعمال کرنے سے با اختیار بنایا جاسکتا ہے، لیکن درحقیقت یہ صرف ایک ابتدائی سطح ہے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ ’’اللہ تمہاری شکل و صورت یا تمہاری دولت کو نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘ (حدیث نمبر:2564)

ایک دوسرے طریقے سے جب حجاب کو مذہبی حکم کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے تو اس سے سرمایہ دارانہ مادہ پرستی کے کلچر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور یہ ہے جسم انسانی کے کمال کے متعلق قرآن کا پیغام۔ کھانے میں بے ترتیبی او رجسمانی عدم تسکین مغرب میں تباہ کن حد تک پہنچ چکے ہیں۔ لیکن ایسا صرف اسی تہذیب میں ممکن ہے جو اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ انسانی جسم کی ساخت کے بشمول ہر چیز اللہ کی مرضی سے تشکیل پاتی ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ تہذیبی روایات اور تہذیب کی تشکیل انسانی جسم پر ہی ہو گویا کہ ’حیاتیاتی جسم‘ کے مانند کوئی شئے ہی نہ ہو۔ تاہم یہ بات بھی صحیح ہے کہ کوئی فرد بغیر آپریشن کے اپنے جسم کی ساخت کو بہت زیادہ تبدیل نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی صحت مند غذائی حدود پر قائم رہتا ہو (یعنی بھوک کم کرنے والی دوا کے بغیر) تو اسے ورزش اور کم خوراک استعمال کرتے ہوئے صرف کچھ معمولی چیزیں کرنی پڑتی ہیں۔ کسی فرد کے لیے اپنے جسم سے خوشی اور تسکین کا قرآنی پیغام یہ ہے کہ خدا نے ہماری شکل و صورت بنائی ہے۔ ’’وہی ہے جس نے تمہاری ماؤں کے پیٹ میں جیسا چاہا ویسی تمہاری شکل و صورت بنائی۔‘‘ (سورۃ النساء، آیت:6) اور اسی نے ہمیں بنایا : ’’بہترین ساخت پر پیدا کیا۔‘‘ (سورۃ التین، آیت4) رسولِ اکرم ﷺ لوگوں کو صحت مند رہنے اور متوازن غذا او رورزش کی نصیحت کرتے تھے۔

اس طرح اسلام سرمایہ دارانہ مادہ پرستی کا مدِ مقابل بن گیا۔ حجاب کو اختیار کرتے ہوئے مسلم خواتین ایک ایسے پختہ ایمان کی روایت کو قبول کرنے لگی جو مادہ پرستی کے تباہ کن نتائج کا مقابلہ کرنے کے لیے مثبت تدبیر فراہم کرتا ہے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146