حجاب تنازعہ اور ملکی سیاست

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی

سویڈن کے وی- ڈم انسٹی ٹیوٹ (The Swedish V-Dem Institutes) نے 2020 میں اپنی روداد جمہوریت ( Democracy Report) میں دنیا میں جمہوریت کی ڈوبتی امیدوں پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے جو کچھ ہندوستان کے بارے میں لکھا ہے وہ بہت زیادہ چونکانے والاہے۔ یہ رپورٹ ہندوستان کے بارے میں کہتی ہے’’انڈیا ان ممالک میں نمایاں ہے جو اپنا جمہوری مقام کھوتے جارہے ہیں اور یہ محض اس وجہ سے ہے کہ یہاں میڈیا کی آزادی، سول سوسائٹی اور اختلاف کے لیے فضا تنگ ہوتی جارہی ہے۔‘‘
اس تجزیہ میں ہندوستان کے آئینی و جمہوری ڈھانچے کے متزلزل ہونے کے ثبوت میں جن چیزوں کو پیش کیا گیا ہے وہ تو محض ظاہری علامتیں ہیں۔
دنیا کا کوئی ملک صرف دو بڑی بنیادوں پر قائم و باقی رہتا ہے، ایک تو ایسی انفرادی آزادی، جو اجتماعیت اور اجتماعی آزادی کے اصول نیز بنیادی انسانی حقوق سے متصادم نہ ہو، اس میں مذہبی و تہذیبی ازادی بھی شامل ہے، بلکہ اس آزادی کو بوجوہ ترجیح حاصل ہے اس لیے کہ اس کا انسان کے مذہبی جذبات سے انتہائی گہرا تعلق ہوتا ہے۔ دوسرے حق مساوات ہے، یعنی قانون مساوات کا ایسا نفاذ جو ملک کے تمام شہریوں کو بحیثیت شہری مساوی حقوق فراہم کرے، اس میں تمام سماجی حقوق شامل ہیں۔ مجموعی طور سے ہمارے باہمی سماجی تعاون (سوشل کنٹریکٹ) اور اجتماعی مفاہمت کی اساس انہیں دو ستونوں پر قائم ہے اور انسان اس زمین پر ایک سماجی حیوان کے طور سے اسی کے سہارے زندہ ہے، اسی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمارے ملک کے دستور میں ان دونوں اساسی حقوق کے تحفظ کی بھر پور ضمانت دی گئی ہے۔ جس ملک میں ان دو بنیادوں کو حکومتی یا غیر حکومتی سطح پر کمزور کرنے کی کوشش ہوتی ہے وہاں کے قومی و اجتماعی ڈھانچہ کے منتشر یا منہدم ہونے سے بچانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
بدقسمتی سے ان دنوں ہندوستان میں جمہوریت اور بنیادی حقوق کی ضمانت بننے والی ان دونوں بنیادوں پر شر پسند عناصر سب سے زیادہ تیشہ چلا رہے ہیں۔
بھارت میں سیکولر اور معتدل سوچ رکھنے والے انصاف پسند سیاسی اور سماجی حلقے، خصوصا یہاں کی اقلیتیں ملک کے مستقبل کو لیکر سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں جوکچھ ہورہا ہے، اگر اس پر قدغن نہیں لگائی گئی تو ملک کو اس کے خطرناک نتائج سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
اس سال فروری کے دوسرے ہفتے میں ریاست کرناٹک کے بعض شہروں میں حجاب کے خلاف بی جے پی حکومت، وہاں کی بعض کالج انتظامیہ اور بھگوا دھاری نوجوانوں کے ذریعہ جو ایک منصوبہ بند اور نفرت انگیز مہم چھیڑی گئی اور جس طرح سالوں سے حجاب پہن کر کالج جانے والی لڑکیوں کو کالج انتظامیہ کے ذریعہ حجاب کے ساتھ کلاس روم میں داخل ہونے سے اچانک روک دیا گیا، وہ اس بات کی طرف ایک واضح اشارہ ہے کہ ہندوستان کی آئینی بنیادیں تیزی سے کمزور ہورہی ہیں اور وہ آر ایس ایس کے ایجنڈے کے مطابق حکومت کرنے والے حکمرانوں کے ہاتھوں بالکل محفوظ نہیں رہ گیا ہے۔ اس وقت حال یہ ہے کہ بی جے پی کی قیادت میں مسلم دشمن قوتیں حجاب کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، کرناٹک کی بی جے پی/ آر ایس ایس حکومت کے ایک تازہ حکم نامہ کی بنیاد پر نوجوان مسلم طالبات کا حجاب انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے ان کے کالجوں کے باہر جبرا اتارا جارہا ہے۔ حجاب نہ اتارنے والی طالبات کو توہین آمیز سلوک کے ساتھ گھر واپس جانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں اور گلیوں میں ان انتہا پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نوجوان ’’جے شری رام‘‘ کے نعروں کے ساتھ انہیں جگہ جگہ ہراساں کر رہے ہیں۔ اس پر مستزاد کرناٹک ہائی کورٹ کا رویہ ہے جس نے وکلاء کے تمام مطالبات اور دلائل کی ان سنی کرتے ہوئےپہلے سے حجاب پہن کر کالج آنے والی طالبات کو کوئی راحت دینے سے انکار کردیا اور یہ کہ دیا ہے کہ انہیں عدالت کے آخری حکم تک حکومت اور کالج انتظامیہ کے احکام کی ہر حال میں پیروی کرنی پڑے گی۔
یہ تحریر لکھے جانے تک عدالت کا حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے اور پٹشنر (مسلم طالبات) کے مطالبے کے حق میں دلائل کے انبار لگادیے گئے ہیں اور کہنے والے، خصوصا قانون کے ماہرین تو یہ بھی کہ رہے ہیں کہ دستیاب دلائل اور نظائر کے ہوتے ہوئے حجاب کے خلاف فیصلہ دینا کرناٹک ہائی کورٹ کے لیے آسان نہیں ہے، لیکن اس کا موجودہ انداز اس توقع کے بالکل بر عکس ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ حالیہ دنوں میں ہندوستانی عدلیہ کا عمومی رویہ بھی، جن پر اقلیتوں کی اخری امیدیں ٹکی ہوتی تھیں، اب یہاں کی سب سے بڑی اقلیت کے لیے مایوس کن ہوتا جارہا ہے۔ حجاب تنازعہ کی سماعت کے دوسرے دن جب وکیل استغاثہ نے یہ کہا کہ عورتوں کا باحجاب رہنا قرآن مقدس کے حکم کے اتباع میں ہے، یہ کوئی فیشن یا بلاوجہ کی ضد نہیں ہے تو تین میں سے ایک جج نے فوراً پوچھا کہ ’’کیا قرآن کی ہر بات واجب العمل “Essential” ہے، گو کہ وکیل نے یہ کہہ کر اس سوال کو نظر انداز کردیا کہ اس وسیع تناظر میں قرآنی ہدایات کا جائزہ اس کے دائرہ بحث سے باہر ہے، لیکن جج کے اس سوال میں، مستقبل کے تئیں مسلمانوں کی تشویش کے گونا گوں پہلو مضمر ہیں۔ اس لیے کہ یہ سوال اس طویل کہانی کا جز محسوس ہوتا ہے جو ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کے خلاف ایک مدت سے گھڑی جارہی ہے اور اس کا سر عنوان ہے ’بھارت میں تہذیبی تصادم کا ایک نیا دنگل‘ اور جس کا مقصد ہے مسلمانوں کے دینی و تہذیبی تشخص کا ہندوتو کی تہذیبی جارحیت کی بھینٹ چڑھانا۔ اس خاص ماحول میں سرسری طور سے بھی غور کرنے والا سمجھ سکتا ہے کہ تین طلاق کے مسئلہ سے حجاب تنازعہ تک یہاں یونی فارم سول کوڈ کی راہ ہموار کرنے کے لیے اسلامی شریعت کی سرکاری اور من مانی تدوین کا جو سلسلہ چل رہا ہے وہ اتفاقی واقعات کی کڑی نہیں بلکہ ایک مذموم اور منصوبہ بند پروجیکٹ کا حصہ ہے جس کا نام ہے ’’خالص ہندو نسل‘‘ کے ارتقا کے لیے مسلمانوں کا ’’نسلی صفایا‘‘ہے۔ اور جس کی تفصیل کہیں اور نہیں بلکہ ساورکر اور گولوالکر کی کتابوں میں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ہے ہندوستان کا حال جو اگر تبدیل نہ ہوا تو مستقبل میں ہماری عدلیہ کا بچا کھچا انصاف بھی مسلمانوں کے لیے ماضی کی داستان بن جائے گا۔
ان حالات میں ہمیں سب سے زیادہ افسوسناک اور ناقابل فہم عدالت کا رویہ معلوم ہوتا ہے، جس نے اتنے حساس مسئلے پر فیصلہ دیتے ہوئے مسلم طالبات کو تو کالج کے یونیفارم کوڈ پر عمل کرنے کی ہدایت دینی ضروری سمجھی لیکن مسکان خان جیسی طالبہ کے لیے جسے بھگوا دھاریوں نے گھیر لیا تھا، دو لفظ کہنے کی ضرورت محسوس نہ کی اور نہ ہی مسلم لڑکیوں کی تعلیم اور تمام شہریوں کے مساوی حقوق کے تعلق سے صوبائی حکومت کو کوئی ہدایت دینی ضروری سمجھی۔حالانکہ ان شرپسندوں کا دہشت گردانہ انداز اور حکومت و انتظامیہ کی کھلی جانبداریوں نے اس ملک کا سر پوری دنیا کے سامنے ایک بار پھر شرم سے جھکا دیا ہے اور امریکہ سے عرب امارات تک ہر طرف ان کے رویے کی مذمت کی جارہی ہےاور بھگوا دھاری نوجوانوں کے نعروں اور تقریروں کو انتہائی اشتعال انگیز اور تشویشناک قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک ویسے ہی جس طرح گزشتہ سال دسمبر کے دوسرے ہفتے میں ہریدوار میں سادھووں کی ایک دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف کھلے عام ہتھیار اٹھانے اور ان کی نسلی’صفائی‘ کی اپیل کی گئی تھی۔
اس صورت حال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے حکومت تو 2014 سے مسلسل اپنے فسطائی ایجنڈوں کی تکمیل میں لگی ہوئی ہے اور دیگر جمہوری انتظامی اداروں کی طرح عدالتی نظام بھی اس کے مزاج اور ہدف سے خود کو ہم آہنگ کرتا جارہا ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور اس آزادی کو در پیش خطرات کی بات ہم اکثر کہتے اور سنتے رہے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ ہمارے سماج اور جمہوریت کو جمہوری طریقے سے منتخب ہوکر آنے والے لیڈروں سے ہی سب سے زیادہ خطرہ ہے جو وہاں بیٹھ کر دستور سے زیادہ اپنے خفیہ مذہبی و فرقہ پرستانہ ایجنڈے کا تقاضا پورا کرنے میں مصروف ہیں ، فوجی جنرل اور خارجی عناصر نہیں بلکہ ” یہ منتخب رہنما ہی ہیں جو جمہوری اداروں کو سب سے زیادہ کمزور اور خستہ حال کرتے ہیں۔‘‘ Steven Levitsky and Daniel Ziblatt نے اپنی کتاب How Democracies Die میں اس پہلو پر بڑے مدلل انداز سے بحث کی ہے اور اس کے خطرات سے بھی ہمیں آگاہ کیا ہے۔ بے شک ہندوستان کی موجودہ عدالتی نظام کو کمزور کرنے، اسے عوام کی نظروں میں غیر معتبر بنانے اور اس کی آزادی کو ختم کرنے کا سبب کوئی اور نہیں بلکہ عدلیہ کے اعلی حضرات ہی بن رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج، جسٹس یشونت وشنو چندر چوڑ نے1985میں ایک جج کی حیثیت میں اس ناقابل قبول تبدیلی سے متعلق اپنے مشاہدات و تجربات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ عدلیہ کی خودمختارانہ حیثیت کو باہر کے مقابلے میں اس کے اندر سے زیادہ خطرہ ہے‘‘۔ افسوس کہ عدلیہ کے حالیہ فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس خطرے کا حجم بجائے گھٹنے کے روزبروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
میں حجاب کے موجودہ تنازعہ کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں، یہ نہ تو محض ووٹ کی سیاست کا مسئلہ ہے اور نہ ہی اس کا سرا محض رد عمل کے جال میں مسلم قوم کو الجھانے جیسی کسی چال تک محدود ہے، بلکہ یہ سب ہندوتو کے طویل المیعاد منصوبے کا حصہ ہے اور لگتا یہی ہے کہ فسطائیت ملک کے بنیادی جمہوری اداروں کی مدد سے اب اس مرحلے میں داخل ہوگئی ہے جہاں اس منصوبے کی تکمیل کے عملی اقدامات کو عیاں رکھنے میں بھی اسے کسی مشکل کا سامنا نہیں ہے۔ در اصل کسی ملک میں فسطائیت کے پیٹ سے جنم لینے والی انارکی کا یہی وہ سب سے خطرناک مرحلہ ہوتا ہے جب مظلوم و مقہور طبقات بالکل حاشیے سے لگ جاتے ہیں اور دوسری طرف ان حالات کی وجہ سے داخلی بد امنی و خانہ جنگی کی صورت میں وہ نتائج بھی تیزی سے ظاہر ہونے لگتے ہیں جو ملک میں مذہبی آزادی اور انصاف کی بنیادوں کے تیزی سے منہدم ہونے کے سبب پیدا ہوتے ہیں اور ان کی زد ملکی یکجہتی و سالمیت پر براہ راست پڑتی ہے۔
جہاں تک کرناٹک کی مسلم طلبہ و طالبات کا معاملہ ہے انہوں نے اور پورے ملک کے مسلمانوں نے اب تک اپنے ہر طرز عمل سے صبر اور شائستگی کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔ ملک کی تاریخ ان مسلم طالبات کا جری و بیباک کردار کبھی فراموش نہیں کر سکتی جو فسطائیت کے پروردہ شرپسندوں کے سامنے پوری ثابت قدمی سے ڈٹی رہیں۔ انہوں نے اپنی مومنانہ ہمت و بے خوفی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ جب سوال اپنے حق اور اپنے دینی وجود کو بچانے کا ہوگا تو وہ بھی خاموش نہیں بیٹھیں گی بلکہ مردوں کے شانہ بشانہ ہر دختر اسلام اپنے وجود کو باطل کے خلاف سراپا مورچہ بنا سکتی ہے اور فرض کی پکار پر ان کی خاموش غیرت موج تند بن کر نہنگوں کا نشیمن تہ و بالا کر سکتی ہے۔داد دیجیے ان کی سنجیدگی و شائستہ مزاجی کو کہ کہیں بھی نہ تو انہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور نہ ہی غیر شریفانہ انداز میں جواب دینے کی ضرورت محسوس کی۔ ملک کے دو گروہوں کے رویے میں اس واضح فرق کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ انہیں اب بھی یہ امید ہے کہ شاید حکومت و انتظامیہ کے لوگ جانب داری کا راستہ ترک کرکے ملک کی بہو بیٹیوں کی حفاظت میں اپنا دستوری فرض ادا کرنے کے لیے آگے آئیں۔ امید باقی رہے، ہم بھی اس کے حق میں ہیں لیکن اس امید میں نہ تو جدوجہد ترک کرنا مناسب ہے اور نہ ہی مظلوم طالبات کے لیے خاموش بیٹھنا صحیح تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ خاموش نہیں بیٹھیں بلکہ اپنے حق کے لیے سراپا احتجاج بن گئیں اور ان کے حوصلے دیکھ کر دنیا کو ایک بار پھر یہ معلوم ہوگیا کہ جس نقاب کو عقل باختہ لوگوں کے ذریعہ فرسودگی و رجعت پسندی کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہ نقاب ایک سماجی انقلاب کی دستک بھی بن سکتا ہے اور جس ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا مسجدوں سے نمازیوں کو بلانے کے لیے پانچ وقت بلند ہوتی ہے وہی ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا باطل کی چیخ و پکار کا گلا بھی دبا سکتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ملک کے موجودہ حکمراں ہوش کے ناخن لیں اور نہ ہی مسلم طالبات کے چہروں سے حجاب اتروانے کے بارے میں سوچیں اور نہ ہی ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا کو دبانے کے لیے شازشیں کریں۔
آگے کیا حالات بنتے ہیں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے، البتہ شاہین باغ کے تاریخی احتجاج کی مانند، حجاب کی حمایت میں کرناٹک کی مسلم طالبات کا جرات مندانہ احتجاج پورے ملک کو یہ دوٹوک پیغام پہنچانے میں ضرور کامیاب ہوا ہے کہ جس طرح نقاب پہننا ان کے مذہب کا حکم اور ان کا بنیادی دستوری حق ہے اسی طرح اس حق پر کسی قسم کی دست درازی یا کسی اسلامی تہذیبی شعار پر کسی بھی حملہ کا مقابلہ کرنا اور اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا بھی ان کا بنیادی حق ہے۔
جب حجاب کا معاملہ عدالت میں پیش ہوا تو حجاب کی حمایت میں درخواست دینے والےفریق کی جانب سے مقدمہ لڑنے والے سپریم کورٹ کے سنئیر وکیل دیودت کامت نے عدالت کوحجاب کے متعلق ضروری اسلامی معلومات فراہم کرتے ہوئے اس کے سامنے اس بات کی وضاحت کی کہ حجاب پہننا مسلم خواتین کی چوائس (اختیاری آزادی) نہیں بلکہ ان کا ایک مذہبی فریضہ ہے، اور یہ ہر مسلم عورت کا بنیادی اور مذہبی حق ہے جس میں مداخلت کرنے کا حکومت یا عدلیہ یا کسی دوسرے ادارے کو کوئی حق نہیں پہنچتا، یہ وہی بات ہے جسے نہ صرف اس ملک کا مسلمان بلکہ ہر انصاف پسند شہری ارباب اقتدار سے کہنا چاہے گا۔ حجاب کی حمایت میں کھڑے فریق سے عدالت نے بار بار پوچھا ہے کہ ’’کیا حجاب پہننا قرآن کا حکم ہے‘‘؟ اس کے جواب میں عدالت میں بار بار پوری وضاحت سے یہ کہا گیا اور عدالت سے باہر بھی پوری شدت سے یہ کہنا ضروری ہے کہ جی ہاں پردے کی پابندی ایک اسلامی قرآنی حکم ہے اور اسلامی تہذیب کا رکن خاص ہے، اور کرناٹک کی مسلم طالبات یا کسی دوسرے صوبے کی طالبات اور حکومت کا حکم نامہ یا عدالت کا فیصلہ جو بھی ہو مسلم عورتیں کسی بھی صورت میں اس حکم کے تقاضے سے جانتے بوجھتے دست بردار نہیں ہوسکتیں۔
مسلمانوں کو اپنے تمام ہم وطنوں کو ببانگ دہل یہ بتانے کا وقت بھی آگیا ہے کہ حجاب پر مسلمانوں یا مسلم طالبات کے اصرار کی وجہ کوئی فرقہ پرست سوچ نہیں بلکہ اسلامی شریعت کے ایک حکم کی پیروی کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیے اس حکم میں مداخلت کا حق حکومت، عدلیہ یا کسی بھی ادارے کو مسلمان کبھی نہیں دے سکتے۔ اس کے علاوہ دنیا کویہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مسلم قوم کا اپنے مذہبی تشخص پر عمل کرنا کسی بھی طور سے امن و قانون کے لیے خطرہ نہیں ہے کہ حکومتیں بلاوجہ ان کے تہذیبی شعار پر پابندی کا فیصلہ کرنے لگیں بلکہ وہ بھی بس دیگر قوموں کی طرح اپنی پسند سے اپنے مکمل تہذیبی وجود کے ساتھ اس ملک میں جینا چاہتی ہے۔ ان حالات میں حکومت و عدلیہ کو خود انہیں تشویش میں ڈالنے کی بجائے اپنی توجہ ان انتہاپسند گروہوں کو قابو میں رکھنے پر صرف کرنی چاہیے جو اسلاموفوبیا (مسلمانوں سے نفرت کی بیماری) میں گرفتار ہیں اور اپنی مذہبی منافرت سے ہر دن امن و قانون کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔
میرے نزدیک حالات کے نتیجے میں عیاں ہوتی یہ حقیقت اپنے اپ میں ایک ایسا انتباہ (آواز جرس) ہے جس کے ساتھ ہمیں مسلم اور غیر مسلم دونوں کے پاس جانا چاہیے۔ ہمیں اس انتباہ یا الارمنگ لمحات کی مدد سے ایک جانب مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی غفلت دور کرنے کا کام کرنا چاہیے جب کہ اس کے ذریعہ ہم عام اہل ملک کو ملک کی سالمیت و یکجتی کو خطرے میں ڈالنے والوں کے خلاف متحد و بیدار بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن یاد رہے رہے نازک وقت میں جو لوگ حقیقتوں کو برہنہ شکل میں پیش کرنے کا حوصلہ دکھاتے ہیں ان ہی کو لوگ سنتے اور مانتے ہیں اور ان ہی کی آگاہی پر بھروسہ کرکے خود کو اور اپنے ملک کو بدلنے کا فیصلہ لیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اپنی مبہم فکر اور پست ہمتی کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتے ضروری نہیں ہے کہ ’’رد عمل‘‘ کے فرسودہ مفروضے کی رو سے ہر واقعے کا ناقص تجزیہ کریں ہر مسئلے میں اپنے قلم کا غبار جھاڑ کر فضا کو مزید آلودہ کرنے کا سبب بنیں، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ لوگوں کو حال و مستقبل کی واضح تصویر اور مسئلے کے حقیقی حل سے آگاہ کرنے کی بجائے ایسے لفظوں سے کھیلنے میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے ہیں جن کا موقع و محل سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اور جن سے ڈرائنگ رام میں بیٹھ کر بیت بازی تو کھیلی جاسکتی ہے لیکن قوموں کے مستقبل اور مسئلوں کے ادراک اور ان کے حل میں ان سے ادنی کام بھی نہیں لیا جا سکتا۔ آخر میں اس حقیقت کو ایک بار پھر یاد دلانا چاہوں گا کہ جن لوگوں پر حال و مستقبل کی تصویر واضح نہ ہو یا جو انہیں واضح کرنے سے عاجز ہوں وہ کسی قوم کو خطرات کے گرداب سے کبھی نہیں نکال سکتے اور نہ ہی نازک حالات میں مسائل کا حل فراہم کر سکتے ہیں۔ مستقبل شناسی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کسی قوم کی دینی و تہذیبی بقا کا پہلا زینہ ہے۔ ضرورت ہے کہ ہندوستانی مسلمان اجتماعی و ملی سطح پر اس طور سے بھی سوچنا اور اور اس پر ایک نتیجہ خیز لائحہ عمل کے تحت عمل کرنا شروع کردیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں