حجاب تنازعہ جو جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک کے اڑپی شہر سے شہر سے شروع ہوا اور آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گیا۔ اس نے مسلمانانِ ہند کے سامنے ایک نیا چیلنج پیش کیا ہے۔ یہ تنازعہ جو اڑپی شہر کے محض ایک کالج سے شروع ہوا تھا، جہاں چند مسلم بچیوں کو ڈریس کوڈ کی وجہ سے اسکول آنے سے منع کردیا گیا تھا، اور بعد میں بعض شرائط کے ساتھ اجازت دی گئی تھی۔ وہ ایک مسلم سیاسی تنظیم کی وجہ سے پہلے ایک صوبائی اشو کے طور پر سامنے آیا اور پھر قومی سطح کا مسئلہ بن گیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ سنگھ کی تنظیموں اور دوسری فرقہ پرست تنظیموں نے اس مسئلے کو بھرپور طریقے سےاستعمال کیا اور اپنے پیادوں کو مستقل اس مسئلے کو ہوا دینے پر لگادیا۔ اترپردیش اور دوسری ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی تیاریاں زوروں پر تھیں جب یہ مسئلہ اڑپی سے ہوتا ہوا دہلی تک پہنچا اور پھر یوپی الیکشن میں اس کو بی جے پی اور دوسری تنظیموں نے بھنانے کی کوشش کی۔ بی جے پی کی الیکشن مشینری جو اس طرح کے جذباتی ایشوز کو ڈھونڈتی ہے، اس کواِس اشو کی صورت میں نعمت غیر مترقبہ مل گئی اور اس نے پورے الیکشن میں اس کا استعمال کیا۔ بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ مسلمانو ںنے ایک اہم الیکشن کے موقع پر بی جے پی کو ایک ایسا اشو دے دیاجس کو سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیموں نے ترپ کے پتہ کے طور پر استعمال کیا۔ صرف سنگھ پریوار ہی نہیں بلکہ دو مسلم تنظیموں نے بھی اس اشو کو اپنی توسیع اثرات کے لیے استعمال کیا۔ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ PFIکی طلباء تنظیم ، Campus Front of India نے اس اشو کو جس طرح اٹھایا اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ مسئلہ کے حل کے لیے کوشاں نہیںتھے، بلکہ اس مسئلہ کو اپنےلیے استعمال کررہے تھے۔ حیدرآباد کے ممبر پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھی اس مسئلہ کو قومی سطح کا مسئلہ بنانے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ اس موضوع کو اترپردیش کے اسمبلی الیکشن کے دوران اپنی تمام ہی تقریروں میں جذباتی انداز سے اٹھاتے رہے اور یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ پی ایف آئی اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے بی جے پی اور سنگھ کی مانند ہی اس جذباتی موضوع کو بھنانے کی کوشش کی۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب کہ سنگھ نے اہم الیکشن سے قبل ایک لوکل اشو کو نیشنل اشو بنادیا اور مسلم تنظیموں نے اپنی ناعاقبت اندیشی سے بالواسطہ اس کی مدد کی اور اس کے ساتھ ہی ایک ایسا اشو دے دیا جس کو اس نے لپک لیا اور پورے الیکشن میںپولرائزیشن کے لیے استعمال کیا۔
مسلمانوں کو ان سابق نظیروں کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے تھا جو بی جے پی نے ماضی میں الیکشن کے دوران استعمال کیں اور ان کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 2018 کے کرناٹک اسمبلی انتخاب سے قبل بی جے پی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے پورٹریٹ کو ایک الیکشن اشو بنایا اور پورے الیکشن کے دوران اس کا استعمال کیا۔ لیکن اس بار مسلم تنظیموں نے حجاب کے اشو کو نیشنل اشو اور پھر یوپی الیکشن کے اہم ترین اشو بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا اور بی جے پی نے اسے پولرائزیشن کے لیے ایک نیابیانیہ دے دیا۔
اگر آپ کرناٹک سے واقف ہیں ، اور وہاں آپ نے ذرا بھی وقت گزارا ہے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہاں کے مسلمان تعلیمی اور معاشی طور پر شمالی ہند کے مسلمانوں سے بہت بہتر حالت میں ہیں۔ ان کے اپنے ہزاروں ادارے ہیں اور مسلم طلبا و طالبات عام سرکاری اور پرائیویٹ ادادوں کا بڑی تعداد میں حصول تعلیم کے لیے رخ کرتے ہیں۔ تقریباً ہر کالج اور انٹرکالج (پی یو سی) کالجز کے باہر برقع پوش مسلم طالبات کا اژدہام ہوتا ہے۔ بالعموم ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا۔ یعنی اسکولوں کا اپنا ڈریس کوڈ ہے وہاں بھی مسلم طالبات جاتی ہیں اور ابھی سے نہیں دہائیوں سے مسلم طالبات ان اداروں میںتعلیم حاصل کررہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اڑپی کے کالج میں حجاب کا اشو پہلی بار سامنے آیا ہو، بہت سارے کالجز میں ماضی میں بھی طالبات کو کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن والدین اور مقامی لوگوں کو مدد سے مسئلہ کو حل کرلیا گیا۔
اڑپی میں بھی جن طالبات کا مسئلہ تھا وہ ایک گورنمنٹ کالج کا مسئلہ تھا، جہاں ڈریس کوڈ تھا اور ایڈمیشن کے وقت طالبات اور ان کے والدین ڈریس کوڈ کو فالو کرنے کے لیے تیار تھے۔ جب مسئلہ اٹھایا گیا اور طالبات کے سرپرستوں نے شکایت کی تو اس کا ایک تصفیہ بھی ہوگیا لیکن پی ایف آئی کی طلبا تنظیم نے اس اشو کو اچک لیا جس کے بعد سنگھ کی مقامی تنظیموں نے زعفرانی دوپٹہ اور رومال کو برقع کے جواب کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ نتیجتاً ایک مقامی مسئلہ نہ صرف ریاستی مسئلہ بلکہ بڑھ کر قومی مسئلہ بن گیا اور بنانیہ سیٹ کرنے کی عادی جماعت جو ریاست اور سینٹر میں حکومت چلارہی ہے اس نے اس کو یوپی الیکشن کے دوران اہم ترین موضوع بنادیا۔
ایک اہم سوال جو اس پورے قضیے کے پس منظر میں ابھرتا ہے وہ یہ کہ کیا مسلمانانِ ہند کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ہر اشو کو سڑک پر لے آئیں اور ہر اشو کو ملت اسلامیہ کے لیے زندگی اور موت کا سوال بنادیں؟ لڑائی سڑک پر نہیں لڑی جاتی، اب اس بات کو ذہن میں رکھنا از حد ضروری ہے۔ ایک مسئلہ جو مقامی طور پر بہ آسانی حل کیا جاسکتا تھا اس کو سڑک پر لاکر نہ صرف یہ کہ اس کو تقریباً لا ینحل بنادیا گیا بلکہ بی جے پی اور سنگھ کی دوسری مقامی تنظیمو ںکے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار دے دیا گیا جو یوپی کے الیکشن میں پوری طرح استعمال کیا گیا۔ اس کا ایک دوسرا بڑا نقصان جو مقامی بچیوں کو بھگتنا پڑا وہ یہ کہ حکومت نے اسکولوں میں برقع پر پابندی عائد کردی اور ہزاروں مسلم بچیاں جو پوری ریاست میں اسکارف اور بہت ساری دوسری بچیاں جو پورے نقاب میں اسکول جایا کرتی تھیں ان کے سر سے اسکارف اور برقع اتروادیا گیا اور ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ بغیر نقاب اور اسکارف کے ہی اسکول جائیں۔ بہت سی بچیوں اور ان کے والدین اور سرپرستوں نے اپنی بچیوں کو اسکول جانے سے منع کردیا۔ امتحانات کے موسم میںجب بچیوں اور ان کے والدین نے امتحانات کا بائی کاٹ کیا تو اس کا پورا امکان ہے کہ نہ صرف بچیاں امتحانات مس کریں بلکہ ان کا پورا تعلیمی سال ضائع ہوجائے۔ صرف یہی نہیں، نقاب اور اسکارف پر پابندی کی وجہ سے بے شمار مسلم معلّمات جو سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں تعلیم وتعلم کا کام ایک مدت سے انجام دے رہی تھیں، ان کو بھی سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کی سخت گیر انتظامیہ کی جانب سے سختی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ بھی اسکارف اور برقع تج دیں۔ بیشمار ایسی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں مسلم معلّمات کو اسکول کے سامنے سڑک پر برقع اتارتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ عوامی ذلت و رسوائی کے مناظر جو سوشل میڈیا اور اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے سے پورے ہندوستان میں پھیل گئے ، کرناٹک کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور مسلمانانِ ہند کے لیے بالعموم روح فرسا تھے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ اس کی ذمہ داری پوری طرح مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ جزوی طور پر مسلمان اس کے لیے ذمہ دار تھے اور ان کو یہ ذمہ داری لینی ہوگی۔
ایک مقامی اشو کو بین الملکی مسئلہ بناکر آخر کار نقصان کس کا ہوا اور کیا اب اس کا کوئی امکان ہے کہ اس قضیہ کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگا؟ جذباتی قسم کے مسلمان جنھوں نے زور و شور سے سڑکوں پر اس مسئلے کو اٹھا کر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا، وہ یہ کہہ رہے تھے کہ عدالت سے انصاف ملے گا۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ عدالت سے انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہیے، لیکن عدالت میں کیس لڑنا ایک طویل مدتی عمل ہے، جس کی توقع ایک جذباتی قوم سے بہ ہرحال نہیں کی جاسکتی۔ پہلے عدالت کی سنگل بینچ سے اور پھر بڑی بینچ سے اسٹے مل جانا اس بات کا سیدھا ثبوت ہے کہ آگے کی راہ آسان نہیں ہے۔ موجودہ ماحول میں کسی بھی طرح اہم مسائل پر مسلمان عدالت میں یکسوئی سے کیس لڑ نہیں سکتے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کیس لڑنا مشکل عمل ہے اورجیسے ہی اس مسئلے سے میڈیا کا فوکس ہٹ جائے گا، مسلمانوں کی دلچسپی بھی اس کیس میں کم ہوجائے گی۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کوئی کیس لڑنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ اچھے وکلا مشکل سے ہاتھ آتے ہیں اور موجودہ ماحول میں ایسا بہت ممکن ہے کہ آپ کا وکیل لاکھوں روپئے فیس لینے کے باوجود بھی اپنے کیس کو پرزور طریقے سے عدالت میں پیش نہ کرے یا پھر آخر میں حکومت سے سانٹھ گانٹھ کرلے۔
مسلمانوں کو اب اس بات کا پورا اندازہ ہوجانا ضروری ہے اور اگر یہ اندازہ اب بھی نہیں ہوگا تو شاید کبھی نہیں ہوگا کہ بہت سے مسائل کو مقامی سطح پر، اخبارات کی زینت بنائے بغیر حل کرنا ہوگا۔ ہر مسئلے کو اپنی شناخت اور ملی تشخص کا مسئلہ بنانا ضروری نہیں ہے۔ اڑپی کے کالج کا مسئلہ صرف چھ بچیوں کا مسئلہ تھا، اس کو پوری ریاست کا مسئلہ بناکر ہزاروں لاکھوں مسلم بچیوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل سے کھیلنے کا کام کیا گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ مجرمانہ حرکت تھی لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ کرکے ہم سنگھ کے ہاتھوں میں کھیلے اور ایک طرف ہم نے ان کو الیکشن اشو دے دیا اور دوسری طرف اپنی بچیوں کے مستقبل اور ان کی تعلیم کے سامنے سوالیہ نشان لگادیا۔
ہم جذباتی قوم ہیں۔ اسی ریاست میں ایک بچی نے رائچور میں یونیورسٹی میں 16گولڈ میڈل حاصل کیے ہیں جو پوری یونیورسٹی میں ایک ریکارڈ ہیں لیکن اس بچی کو کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی کسی مسلم تنظیم نے اس کی لیے ایوارڈ کا اعلان کیا جو کہ مسکان خان کے لیے کیا گیا تھا۔
جذباتی سیاست کے نقصانات ہندوستان میں جتنے امتِ اسلامیہ کو ہوئے ہیں اتنے کسی دوسری قوم کو نہیں ہوئے ہیں۔ موجودہ تناظر میں جذباتیت کو دور پھینکنے کی ضرورت ہے اور ایک ایسا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے جہاں ہم لوکل اور مقامی سطح پر ایسی قیادت تیار کریں جو مقامی اشوز کو مقامی سطح پر حل کرنے کی کوشش کرے، مقامی سطح پر دوسری کمیونٹیز کے ساتھ مل کر لائحہ عمل طے کرے، وکلا اور والنٹیرز کی ٹیم بنائے اور مقامی مسائل کو مقامی سطح پر ہی حل کرنے کی اہل ہو۔ جذبات سے کام لینے کے بجائے سوچ سمجھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمانو ںکو مستقبل میں کسی بھی مسئلے کے برے نتائج کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ہر اشو کو ’مسلم خطرہ میں ہے کے‘ بیانیہ سے باہر آنا ہوگا۔ مسلمانوں کو اس کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہندوستان میں جہاں ان کی آبادی پچیس کروڑ ہے، وہاں ان کی شناخت کو چیلنجزتو ہوسکتے ہیں لیکن ان کی شناخت کو سیدھے طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس لیے اس واہمہ کو ختم کرنا چاہیے جس سے ہمیشہ ہم بحیثیت قوم جھوجھتے رہے ہیں۔
ایک لانگ ٹرم پلاننگ کی بات میں ہمیشہ سے کرتا رہا ہوں لیکن اکثر احباب کہتے ہیں کہ اگلے پانچ سال کا تو ٹھکانہ نہیں ہے، لانگ ٹرم پلاننگ کا کیا فائدہ۔ ہم لانگ ٹرم پلاننگ کو ہمیشہ مستقبل پر ٹالتے رہتے ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ اندازہ ہونا چاہیے کہ طویل مدتی اسٹریٹجک پلاننگ قوم کے سماجی، معاشی، تہذیبی وثقافتی اور تعلیمی مستقبل سے جڑی ہوئی ہے۔ ہمیں طویل مدتی پلاننگ اس طرح سے کرنی ہوگی کہ اس میں قومی و ملکی سطح کے ساتھ ساتھ مقامی aspirations، مواقع اور چیلنجز کو دھیان میں رکھیں۔ ہمیں پانچ سالہ، دس سالہ، بیس سالہ اور پچاس سالہ پلاننگ پر فی الفور دھیان دینا ہوگا اور یہ کوشش کرنی ہوگی کہ مقامی مسائل کو مقامی طور پر ہی سڑک پر آنے دیے بغیر ہی حل کرلیا جائے۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔