اسلام امن و سلامتی کا پیامبر اور فتنہ و فساد کا دشمن ہے۔ فتنہ ہر وہ چیز ہے جو انسان کے دل و دماغ میں باعث کشمکش بن کر اس کی عقل و ضمیر کو کمزور اور عزم و ارادے کو متزلزل کر کے حق و صداقت سے دور کردے۔ خطرناک ترین فتنہ شیطان کا ہے جس نے انسان کی ضلالت و گمراہی کا آغاز ہی بے پردگی و بے حجابی سے کروایا۔ اس نے حضرت آدم و حوا کو بہکا کر ان کے ستر کھلوا دیے اور جنت سے نکلوا دیا۔ اسلام دین فطرت ہے جو آرائش کا حکم دیتا ہے، نمائش کا نہیں۔ اور معاشرتی اصلاح کے لیے شریعت اسلامیہ میں ستر وحجاب کے احکام اسی قدر اہم ہیں جتنے نکاح و طلاق کے احکام، تاکہ شیطانی نفس کے لیے کہیں سے چور دروازہ نہ نکل سکے۔ اجنبی عورتوں کے حسن و زینت سے لطف اندوز ہونا مردوں کے لیے، اور اجنبی مردوں کو دیکھنا عورتوں کے لیے فتنہ کا موجب ہے، جس کی روک کے لیے اسلام غض بصر کا حکم دیتاہے۔ فرمان نبویؐ ہے: ’’حیا نصف ایمان ہے، جب تجھ میں حیا، نہیں تو پھر جو تیرا دل چاہے کر۔‘‘ (بخاری)
آپﷺ نے مزید فرمایا: ’’عورت پوشیدہ چیز ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک میں لگا رہتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
حیا ایک وصف اور ایمان کا جزو ہے۔ ایمان اور حیا دونوں خیر کے داعی ہیں اور شر سے انسان کو دور کرتے ہیں۔ ایمان اطاعت الٰہی کرنے پر ابھارتا اور گناہ میں ملوث ہونے سے روکتا ہے، جب کہ حیا انسان کو برے کام نہ کرنے پر ابھارتی ہے اور اہل حق کو حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے اور فحش و بے حیائی سے روکتی ہے۔ اسی لیے صالح عورت کو حجاب کی تاکید کی گئی ہے۔ارشاد ربانی ہے۔
’’اے نبی اپنی بیویوں، بیٹیوں، مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادر کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں، اس تدبیر سے توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ستایا نہ جائیـ۔‘‘ (سورہ احزاب:۵۹)
عربی زبان میں بڑی چادر کو حجاب کہا جاتا ہے، جو سر تا پاؤں ڈھانکنے کے کام آتی ہے۔
زمانہ جاہلیت میں بھی عورتیں چادر اوڑھا کرتی تھیں مگر اس طرح کہ ان کی پشت تو ڈھک جاتی تھی مگر سینہ کھلا رہتا تھا۔ اس آیت کریمہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے عورت کو چادر اوڑھنے کا شرعی طریقہ بتا کر پردہ لازمی قرار دے دیا۔
حجاب امت مسلمہ کا تشخص اور اسلامی شعار ہے جس کا مقصد ستر حاصل کرنا اور اپنے آپ کو فتنے سے بچانا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں پردے کا کوئی تصور نہ تھا، اشراف کی عورتیں اور لونڈیاں کھلی پھرتی تھیں اور بدکار لوگ ان کا پیچھا کرتے تھے۔ اسلام کے بعد جوں جوں مسلمان معاشرے کی بنیاد پڑتی چلی گئی، پردے و حجاب کے متعلق احکام نازل ہوتے چلے گئے، حتی کہ شریعت نے مسلمانوں کی شرم و حیا کی پوری حد بندی کردی۔ زمانہ جاہلیت میں عورتیں بے حجاب، زیب و زینت سے آراستہ ہوکر باہر نکلتی تھیں، جس کی ممانعت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سج دھج دکھاتی نہ پھرو۔‘‘ (الاحزاب:۳۳)
عورت کا پردہ بلاشبہ ایک دینی امر ہے جس کا مقصد انسانی معاشرے کو خطرناک مرض (جسے قرآن پاک نے فحش کہا ہے) سے بچانا ہے۔
پردے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:
’’دیکھنے والے پر اور اس پر جس کی طرف نظر گئی اللہ کی لعنت۔‘‘ یعنی دیکھنے والا جب بلا عذر شرعی قصدا دیکھے اور دوسرا قصداً دکھائے۔ (بیہقی)
حجاب کا دوسرا حکم سورہ نور کی آیت ۲۱ میں ہے، جو سابقہ آیت کے تسلسل میں ہے: ’’اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں۔‘‘
اوڑھنی یا دو پٹا چادر کی ہی ایک شکل ہے، چہرے، سر اور سینہ کو چھپانا ضروری ہے۔
قرآن نے عورت کو اس کے جسم کے ساتھ بالخصوص ۳ اعضائے جسمانی چہرے، سر اور سینہ کو ڈھانکنا لازمی قرار دیا ہے اور ترک پردہ کی اجازت بلا عذر شرعی ہرگز نہیں۔ (سنن ابوداؤد)
کتاب الجہاد میں ہے: ایک صحابیہ ام خلادؓ کا بیٹا ایک جنگ میں شہید ہوگیا۔ وہ اس کی بابت دریافت کرنے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں مگر اس طرح کہ چہرے پر نقاب ڈالی ہوئی تھی۔ بعض صحابہ نے حیرت سے کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے! (یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر ایک ماں کو تو اپنا ہوش بھی نہیں رہتا اور تم اس اطمینان کے ساتھ باپردہ آئی ہو)
ان صحابیہ نے جواباً عرض کیا: ’’میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھوئی۔‘‘
حجاب عورت کی عزت و عصمت کی پہچان اور معاشرے کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔ یہ محض سر پر ڈھکا جانے والا کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ مسلم و پاکیزہ عورت کی شناخت ہے، مگر افسوسناک امر ہے کہ اسلام دشمن عناصر اسلامی تہذیب کے خدو خال کو پامال کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔ مغربی کی نقالی و غلامی نے اسلامی تعلیمات سے بغاوت کو فروغ دیا ہے۔
آج آزادیِ نسواں کے نام پر عورت کو چراغ خانہ کے بجائے شمع محفل بنا کر …فحش ڈراموں، مخلوط محافل اور اشتہارات کے ذریعے عورت کو غیر ساتر لباس میں پیش کر کے اس کی نسوانیت کو برسر عام رسوا کیا جا رہا ہے۔ تجارتی منڈیوں میں عورت کا استعمال اخلاقی پستی و گراوٹ کی انتہا ہے۔ عورت کو ترقی کے نام پر بے حجاب کرنا شیطانی قوتوں کا حربہ ہے۔ اسلام اولین مذہب ہے، جس نے حجاب کے ذریعے مسلم عورت کی عزت اور وقار کو سربلند کیا ہے۔
آیاتِ قرآنی کا اصل مفہوم عورتوں کو مرد کی ہوسناکی سے، او رمردوں کو عورت کے فتنے سے بچانا ہے۔ مسلم معاشرے میں کبھی بھی مرد و زن کے اختلاط کی گنجائش نہیں ہے۔ صالح و پاکیزہ معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی اقدار و فطری حجاب کے ذریعے صالح معاشرے کی تشکیل کے جائے۔lll