حجاب کو لے کر آج کل ریاست کرناٹک ہی نہیں ملک بھر میں ہنگامہ مچا ہوا ہے، مگر یہ کوئی نئی بات نہیں۔ آج سے پہلے بھی حجاب پر اعتراضات کیے گئے تھے اور کیے جاتے رہے ہیں ۔ یہ قدامت پسندی کی نشانی ہے، اس میں عورت کی شخصیت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ یہ عورت پر ظلم ہے اور انسانی و سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ وغیرہ وغیرہ
اب آپ ایک واقعہ سنیے اور اس کی روشنی میں اوپر درج کیے گئے اعتراضات کو دیکھئے اور ساتھ ہی عہدِ رسالت کی خواتین اور امہات المؤمنین کے پردہ کا بھی جائزہ لیجیے تو آپ کو اس ’بے اعتدالی‘ کا اندازہ ہوجائے گا جو ہم نے دین کے نام پر سماج میں رائج کرنے کی کوشش کی ہے۔ واقعہ آندھرا پردیش کے ایک دینی تصور کیے جانے والے خاندان کا ہے۔ بتایا گیا کہ اس خاندان کی خواتین شرعی پردہ کا بڑا اہتمام کرنے والی ہیں۔ جب وہ کہیں جانے کے لیے گھر سے نکلتی ہیں تو گھر کے دروازے پر دونوں جانب بڑی بڑی چادریں تان دی جاتی ہیں، ان تنی ہوئی چادروں کے درمیان سے چلتی ہوئی وہ خواتین رکشہ میں بیٹھتی ہیں جن پر الگ سے چادر لپیٹ دی جاتی ہے۔
یہ ایک دینی خاندان کے پردے کا عالم ہے جسے فخریہ بیان کیا جاتا ہے۔ مگر کیا یہ دینی حکم کے مطابق ہے؟ نہیں! یہ ان کی خاندانی روایت ہے جسے دین بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر پردہ کا حکم اس طرح ہوتا تو یہ اہتمام امہات المؤمنین اور ازواجِ رسولؐ کے ساتھ ہونا ضروری تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پردہ کے حکم کے سلسلے میں ہم نے اسلام کی درست اور مکمل نمائندگی نہیں کی۔ کہیں اسے چھوڑ کر غلط کیا اور کہیں اسے مذکورہ واقعہ کی طرح سخت اور ناممکن العمل بناکر اسلامی پردے کی غلط نمائندگی کی۔
پہلی بات اس سلسلے کی یہ ہے کہ خود مسلمانوں کی بڑی تعداد نے حجاب، اس کے مقاصد اور فلسفے، اس کی سماجی و معاشرتی معنویت اور اس کے احکام کو شریعت کی منشا کے مطابق سمجھا ہی نہیں۔ کچھ لوگوں نے اسے سماجی اور خاندانی روایت سمجھا اور اختیار کیا۔ بعض لوگوں نے اسے اپنایا تو بہت سارے غلو کے ساتھ جس کی یا تو احکام حجاب میں ضرورت نہیں یا اس میں غیر ضروری اضافہ کی وجہ سے ان احکام پر چلنا مشکل ترین ہوگیا اور پھر پردہ شریعت کا حکم ہونے کے باوجود عورت کے لیے ایک بوجھ بن گیا جو کہ حقیقت میں ہے نہیں۔ دین کے احکام میں غلو کا سلسلہ آج کی بات نہیں ہے۔ بدعات و خرافات سے دین کو بھرنے اور اس میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کا سلسلہ ایک زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ اسی طرح اسلامی طرز زندگی میں پوشاک کی جو اہمیت ہے اسے غلط انداز میں اپنانے کی وجہ سے ہم نے اسے بہت پیچیدہ بنادیا ہے۔ جب تک حجاب کے مسئلے پر اسلام کے مطابق وافر علم اور مضبوطی کے ساتھ عمل کیا جاتا رہا تب تک مسلم عورت حجاب کے معاملے میںاعتدال پر قائم رہی، لیکن جب شریعت کا علم، اللہ اور رسول کے احکامات سے واقفیت کمزور پڑی اور دین سنی سنائی باتوں کے ذریعے سمجھا جانے لگا تو بے شمار دینی احکام اس کی زد میں آئے۔ حجاب بھی انہی میں سے ایک ہے۔
اسلام جب دنیا میں پھیلنے لگا تو مسلمانوں کا رابطہ دیگر تہذیبوں اور ان کے افکار سے ہوا۔ ایسے میں اندیشوں کا سلسلہ شروع ہوا جو احتیاط کے راستےسے ہوتا ہوا ایسی تنگ گلیوں میں آکر رک گیا جہاں چلنا تک دشوار تھا۔ ایسے میں کچھ لوگوں نے حجاب ہی کو ترک کردیا کہ یہ ان کے طرزِ زندگی سے میل نہیں کھاتا تھا اور جن لوگوں نے اسے جاری رکھا ان کی زندگیاں معطل ہوکر رہ گئیں جن پر اسلام دشمنوں نے اعتراض کیے اور ان کا ہدف اسلام کا نظامِ حجاب بنا کیونکہ اس تعطل کی وجہ وہ اسلام ہی کو سمجھنے لگتے تھے۔ چنانچہ آج بھی کافی حد تک مسلم معاشروں میں حجاب میںایسی چیزیں داخل نظر آتی ہیں، جن کا اسلام سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔
ستر پوشی کے جو اصول و قواعد اور ہدایات ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں ملتی ہیں، ان کے مطابق حجاب کے رہنما اصول عہدِ رسالت میں ہی موصول ہوگئے تھے۔ آیت حجاب کے نزول کے فوراً بعد امہات المؤمنین، صحابیات اور اہلِ ایمان خواتین اس طرح خود کو ڈھانکا کرتیں جیسا کہ آیت ِحجاب کا تقاضہ ہے۔ خمار کا سر اور سینوں کا حصہ ڈھکنا اور باہر نکلتے وقت جلباب زیب تن کرنا اور پھر حالات کے پیش نظر حجاب میں رہ کر عام زندگی اور ایمرجنسی خدمات تک میں شرکت ان خواتین کے لیے کوئی دقت طلب کام نہیں تھا۔
لیکن وقت اور اسلامی دنیا کے Extension کے ساتھ حجاب کی ڈیزائننگ اور وضع قطع میںبہت ساری تبدیلیاں ہوتی گئیں۔ الگ الگ Climatesالگ الگ جغرافیائی خطے اور الگ الگ معاشرے کے ڈھنگ اور سلیقے سے متاثر ہوکر حجاب کی Refashioning اور ری ڈیزائننگ ہونے لگی۔ اور اس کی تراش خراش میں تبدیلی ہوتے ہوتے آج جو ہم برقع نقاب اور حجاب کی شکل دیکھتے ہیں اس میں غلو کا عنصر اس طرح غالب ہوگیا کہ عام تصور ہے کہ برقع یا نقاب کا منتخب رنگ کالا ہے، جبکہ رنگ اصلاً کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ڈیزائن بھی کوئی معنی نہیں رکھتا، اس لیے کہ بہت بار ہم ایسا دیکھتے ہیں کہ یہ ڈیزائن نقاب یا حجاب ہونے کے باوجود جسم کے ان حصوں کو چھپانے کے بجائے اور زیادہ ظاہر (Prominent) کراتا محسوس ہوتا ہے جو مقاصد حجاب سے بالکل میل نہیں کھاتا۔
ہمارے سماج میں ایسی خواتین کی بھی کمی نہیں جو یا تو گھر والوں یا خاندان کے پریشر پر حجاب پہنتی ہیں یا خاندانی روایت کی تکمیل میں۔ چونکہ ان کا ذہن ہی ان مقاصد حجاب سے ناواقف ہے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں، اس لیے وہ پردہ کے مقاصد کو کسی دوسرے کے سامنے واضح بھی نہیں کرپاتیں اور اکثر ان کے ذریعے غلط فہمیاں اور بڑھتی ہیں۔ ان خواتین میں بعض ایسی بھی ہیں کہ جب بھی انہیں ذرا سا موقع ملتا ہے وہ برقع یا نقاب اتار پھینکنے کے لیے تیار رہتی ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ میرے سامنے یونیورسٹی کے زمانے میں پیش آیا۔ میں یونیورسٹی جانے کے لیے ٹرام سے سفر کرتی تھی۔ گھر سے نکلتےہی تین چار اسٹاپ کے بعد ایک اور نقاب پوش لڑکی اسی ٹرام پر چڑھتی تھی۔ پھر Esplanade پرجب میں دوسری ٹرام کا انتظار کررہی ہوتی تو وہ نقاب پوش لڑکی دیوار کے پیچھے جاتی اور کبھی باہر نہ آتی۔ دراصل غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ دیوار کے پیچھے جاکر اپنا نقاب ہٹا لیتی اور وہاں سے برآمد ہوتی اور پھر ٹرام کا انتظار میرے ساتھ ہی کرنے لگتی۔ وہ قانون کی طالبہ تھی۔ میں نے جب اس سے دریافت کیا کہ ایسا وہ کیوں کرتی ہے تو کہنے لگی کہ میں جس علاقے میں رہتی ہوں وہاں لڑکیوں کو کھلے عام گھومنے کی اجازت نہیں۔ اس لیے مجبوری میں مجھے نقاب پہن کر نکلنا پڑتا ہے۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں جن کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم سماج حقیقت میں اپنی دینی فکر اور عمل کے اعتبار سے کہاں کھڑا ہے۔
دین صرف وضع قطع کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اس وضع قطع کے پیچھے ایک روحانی مظہر اور احکام کے فہم و شعور کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر چاہے جتنا بھی ہم لباس کے قوانین مرتب کرلیں وہ صرف اور صرف برتنے کے نام پر ہی ہم لاگو کرسکتے ہیں، اس کے نفاذ میں روح ندارد ہوگی۔ اس لیے لباس، حجاب اور ستر پوشی کے احکام جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیے ہیں ان کو شعوری طور پر اور روحانی کیفیت سے، شوق و جذبے سے اپنانے میں ہی غلو کا امکان کم سے کم ہوسکتا ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہمارا دین ہمارے لیے رحمت ہے زحمت نہیں اور یہ کہ اس کے احکام کی حکمت اور مقصد کا شعور بھی لازمی ہے۔ اگر یہ دونوں چیزیں ہمارے سامنے نہ ہوں تو عمل کے باوجود ہم عمل کے فوائد سے محروم رہ سکتے ہیں۔
کسی بھی حکم شرعی کی واضح ہدایات اور احکام قرآن و حدیث میں دستیاب ہیں۔ حجاب کے سلسلے میں بہت سی باتیں قرآن و حدیث سے واضح ہیں۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ حکم حجاب کیا ہے اور اس پر عہدِ رسالت کی خواتین نے کس طرح عمل کیا۔
حضرت عائشہؓ ام المؤمنین فرماتی ہیں: ’’بلاشبہ قریش کی خواتین بہت زیادہ فضل وکمال کی مالک ہیں، واللہ! میں نے انصار کی خواتین سے زیادہ بہتر کتاب اللہ کی تصدیق کرنے والا اور قرآن پر ایمان رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ سورۂ نور کی یہ آیت﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ﴾ جیسے ہی نازل ہوئی ان کے مرد حضرات ان کی جانب سورۂ نور کی نازل شدہ آیات کی تلاوت کرتے ہوئے لوٹے، شوہر اپنی بیوی ، بیٹی، بہن، اور ہر رشتہ دار کو قرآنی آیات پڑھ کر سناتا، ہر ایک عورت نے نازل شدہ آیات کی تصدیق کرتے ہوئے اور ان پر ایمان لاتے ہوئے اپنی دھاری دار چادر نکالی اور اس سے اپنا سر اور منہ چھپالیا، صبح کے وقت تمام عورتیں باپردہ اور باحجاب ہوکر رسول اللہﷺ کے پیچھے نمازِ فجر ادا کر رہی تھیں گویا کہ ان کے سروں پر سیاہ پرندے ہوں۔‘‘ (تفسير ابن أبي حاتم حدیث نمبر: 14406- (8 / 2575، تفسير ابن كثير، سورة نور، آيت: 31، سنن أبي داؤد: حديث نمبر: 4102 كتاب اللباس)
حضرت حفصہ بنت سیرین کی روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ:
(ترجمہ)’’ہم اپنی لڑکیوں کو عید کے دن عیدگاہ جانے سے منع کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک خاتون آئیں اور انہوں نے قصر بنی خلف میں قیام کیا، میں ان سے ملنے کے لئے حاضر ہوئی … انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو اور اس وجہ سے وہ عیدگاہ نہ جاسکے تو کیا اس پر کوئی حرج ہے؟آپﷺ نے فرمایا: اس کی سہیلی اپنی چادر اس کو اڑھا دے اور پھر وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔‘‘ (صحيح البخاري، حديث نمبر: 980، 324)
حضرت عروہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ
(ترجمہ):’’حضرتِ عائشہؓ نے ان کو بتایا کہ مسلمان عورتیں اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ فجر کی نماز میں اپنی اوڑھنیوں میں لپیٹی ہوئی شریک ہوتی تھیں، پھر نماز ادا کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو واپس آتیں تو تاریکی کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔‘‘ (صحيح البخاري، حديث نمبر: 578 (1 / 120)
ان روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکم حجاب نازل ہوتے ہی مسلم خواتین نے اس پر عمل کے لیے جس چیز کا اہتمام کیا وہ چادریں اوڑھنا تھا۔ یہی اس زمانے کا حجاب تھا۔ ان کا یہ حجاب انہیں معمول کی زندگی گزارنے میں کسی بھی زحمت کا باعث نہ تھا۔ اسی حجاب کے ساتھ ان کی سماجی، معاشرتی، معاشی زندگی کے ساتھ ساتھ ’جہادی‘ زندگی بھی جاری رہی۔ ان روایات کے نقل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم برقع چھوڑ کر چادر اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ حکم حجاب کی تعمیل اور تکمیل کے سلسلے میں ہمارے ذہن صاف رہیں اور ہم سمجھ لیں کہ اللہ کا حکم ہمارے لیے رحمت ہے اور ہم اس کے اپنے لیے کسی بھی صورت زحمت بننے سے محفوظ رہیں۔
حکم حجاب اور اس پر عمل کی صورتیں جو عہدِ رسالت کی خواتین کی زندگیوں اور ان کے کارناموں سے واضح ہیں، ہونے کے باوجود ہمارے بعد کے سماج میں غلو کی جو صورت حال پیدا ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین کو مسجد جانے تک سے روک دیا گیا جبکہ عہدِ رسالت کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے اور بے شمار احادیث و روایات میں بیان ہوئی ہے کہ عورتیں نماز کے لیے، مختلف دینی، سماجی، دعوتی اور تربیتی کاموں کے لیے مسجد میںبلا روک ٹوک جایا کرتی تھیں۔ بعد کے دور میں غلو اس قدر بڑھا کہ عورت کی آواز تک کو قابلِ ستر قرار دیا گیا اور یہ سب ہوا دینی غیرت و حمیت، فتنہ کے اندیشے اور زمانے کے خراب ہونے کے نام پر حالانکہ یہ جو کچھ حجاب کے نام پر عورت کے ساتھ ہوا اس کی نہ دین میں کوئی سند ہے اور نہ نبوی دور کی زندگی میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔
حقیقی بات یہ ہے کہ دین کے احکامات واضح ہیں اور ان پر عمل کی صورتیں بھی ہمارے سامنے ذخیرئہ حدیث کی صورت میں موجود ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ ہم اعتدال کا راستہ اختیار کرتےہوئے، جو اصلاً دین کا مزاج ہے، ان تمام چیزوں سے اپنی زندگی کو پاک کریں جو دین کے نام پر ہماری زندگی میں داخل ہوگئی ہیں حالانکہ دین میں ان کے لیے کوئی سند نہیں ہے۔
’’النساء حبالۃ الشیطان‘‘ (عورتیں شیطان کی رسی ہیں) جیسی اسرائیلی اور یہودی نظریات پر مبنی چیزیں ہمارے یہاں رائج اور ذہن و فکر پر سوار ہوگئیں ہیں جن کا اسلام اور اسلامی نظریے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جتنی بے اعتدالی ہمارے معاشرے میں ہوئی گرچہ ان کا تعلق دینِ اسلام سے تو بالکل نہیں ہے، ہاں، ان رائج صورتوں میں مسلم معاشرے نے غیر مسلم تہذیبوں سے بہت سی روایتوں کو اپنا لیا اور انہیں دین کے نام پر عورتوں کو محکوم رکھنے کے لیے معاشرے میں نافذ کردیا۔ لہٰذا یہیں سے غلو کا راستہ کھل گیا اور اسلامی حجاب کو طرح طرح سے لوگوں نے misinterpret کرلیا۔ ہم وطن بھائی بہنوں کے سامنے یہ پہلو کہ حجاب دراصل خواتین کی محکومی کی علامت ہے اسی غلو کی وجہ سے بنا۔
ستر پوشی، حجاب، عورتوں اور مردوں کے لیے غضِ بصر کے احکامات سورۃ نور اور سورۃ الاحزاب میں موجود ہیں، جن کا مطالعہ ہر مرد و خاتون کو کرنا چاہیے۔سورۃ النور، آیت30 میں غضِ بصر کا حکم ایمان والے مرد اور عورت دونوں کو دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی عورتو ںکو ستر پوشی کا حکم بھی دیا گیا۔
سورۃ الاحزاب آیت 59 میں عورتوں کو باہر نکلنے کے لیے خود کو ڈھک کر نکلنا سکھایا گیا، یہ بھی بتایا گیا کہ یہ احتیاطی تدبیر اس لیے ضروری ہے تاکہ ایمان والی عورتیں پہچان لی جائیںاور انہیں تنگ نہ کیا جائے۔
ان آیات کےعلاوہ سیرت صحابیات کے واقعات، عہدِ رسالت میں ان آیات کا معاشرے کی خواتین پر نفاذ اور باوجود ان کے عورتوں کا ہر گھر کے اندرون اور بیرون ایکٹی ویٹیز میں بلا جھجک شرکت، یہ ساری باتیں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہونی چاہئیں۔ غلو کا پہلو جہاں کہیں بھی پایا جاتا ہو، چاہے وہ ہمارے عمل میں ہو یا چاہے فکری لحاظ سے ہو، ان سبھوں سے واضح طریقے سے معاشرے کی تطہیر ضروری ہے۔
آج حجاب کو لے کر جتنا شوروغوغا برپا ہے ان حالات کے تحت اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ ہم حجاب کے قرآنی حکم اور اس کے نفاذ کی شرعی صورتوں سے واقفیت ہی حاصل نہ کریں بلکہ ان غلط رویوں اور رواجوں کو معاشرے سے ہٹانے کی کوشش کریں اور ان کا حقیقی اسلامی تصور عام کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم اسلامی افکار کے محافظ بن سکیں.