حجاب کا بنیادی نظریہ

امِ مسفرۃ

عام طور پر دنیا میں اسلام کے سلسلے میں یہ تاثر پایا جاتا ہےکہ وہ مردوں کے مقابلے عورتوں ہی کو پردے کا حکم دیتا ہے۔ اس بات کو لوگ اسلام پر ایک الزام کی صورت میں کہتے ہیں۔ جو لوگ ایسا سمجھتے یا کہتے ہیں انہیں معلوم نہیں یا وہ جاننا نہیںچاہتے کہ اسلام کا بتایا ہوا پردہ اساسی طور پر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کے لیے کلیدی ہدایت ہے جس میں فحاشی و عریانیت نہ ہو اور اس سماج کے لوگ ایک باوقار اور اخلاق و کردار پر مبنی زندگی گزاریں۔ اس کے لیے اسلام نے مردوں اور عورتوں ، دونوں کے لیے ہدایات جاری کی ہیں۔ دونوں کے لیے بنیادی قدروں کو برتنا یکساں ہے۔ Do’s اور Dont’s دونوں کے لیے یکساں طور پر نافذ ہوتے ہیں۔

اس مضمون میں اسی بنیادی تصور حجاب پر گفتگو ہوگی۔

دنیا کے تقریباً سارے ہی مذاہب میں عورتوں کے پردے اور پاکبازی کا تصور موجود ہے۔ عیسائی ہے تو مریم علیہا السلام کی طرح پاکباز رہے، ہندو ہے تو ’سیتا ماتا‘ کی طرح پاکباز رہے، یہودی ہے تو Tzniut (سر ڈھانکنا)لاگو ہوتا ہے، سکھ ہے تو چُنّی لینی پڑتی ہے ، پارسی ہے تو متھابانا مستعمل ہے، مسلمان ہے تو اس کے لیے حجاب ہے۔ الغرض مذاہب عالم نے خاتون خانہ کو ڈھانک کر اور برائیوں سے چھپا کر نہ صرف اسکی حفاظت کی بلکہ باعزت مقام بھی دیا۔ ان سارے مذاہب میں دین اسلام نے جن احکامات کا اعلان فرمایا ہے وہ سب سے منفردہیں جو مومن مرد اور عورت دونوں پر لاگو ہوتے ہیں اور اسطرح بنا کسی جنسی تفریق کے صاف ستھرے معاشرے کا قیام عمل میں آتا ہے۔

حجاب کے اولین احکام سورہ احزاب میں سن 5 ہجری میں نازل ہوئے، جہاں قرآن ازواج مطہرات سے مخاطب ہے۔ یہ دین اسلام کا حسن ہے کہ انقلاب اور تبدیلیاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے شروع ہوئیں۔ سورہ احزاب میں پہلے خطاب امہات المومنین کے لیے رہا پھر خطاب عام ہوا ۔ ہر چند کہ حیات مبارکہ اسوہ حسنہ ہے لیکن نسوانی زندگی کے لیے مسلم خاتون کو اسوہ کی شکل میں خاتون رول ماڈل دستیاب ہے۔ اس لیے پہلے امہاتُ المومینین کے لیے چند احکام نازل ہوئے جو حجاب کے احکام کی تمہید کی صورت میں تھے تاکہ اہل بیت کی طرف سے عملی نمونہ فراہم کیا جائے۔ یہاں گھروںمیں داخلے کے لیے اجازت لینے کے حکم کے ساتھ ساتھ محرم رشتوں کی ایک فہرست بھی ملتی ہے اور غیر محرم سے گفتگو کا طریقہ بھی سکھلایا جاتاہے۔ حکم ہوا کہ گھروں میں ہی بیٹھی رہیں اور اگر گھر سے نکلیں تو خود کو اسطرح ڈھانپیں کہ سماج کی چھڑچھاڑ اور نظر بازی سے محفوظ رہیں۔

سورہ احزاب کے ٹھیک ایک سال بعد سورہ النور میں حجاب کی غرض سے مزید احکام نازل ہوئے۔ سورہ النور کی ابتدائی آیات میں زناکاری کے تدراک کے لیے ہدایات ہیں پھر اب ان برائیوں کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے احکام نازل ہوئے۔

شریعت الٰہی کسی بھی برائی کی نشاندہی کرنے، اسے حرام قرار دینے اور اس کے لیے سزا مقرر کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتی بلکہ اس برائی کے اسباب کے خاتمہ پر بھی نظر رکھتی ہے۔ شریعت اسباب جرم ، محکات جرم اور رسائل و ذرائع پر بھی پابندیاں لگاتی ہے تاکہ لوگ گناہ سے دور ہی نہیں بہت دور رہیں۔ اللہ کے قائم کردہ حدود کے قریب قریب ٹہلنا ، بھٹکنا اور پھر سزا سے بچ نکلنے جیسے مذاق کی گنجائش ہی نہیں دیتی۔ شریعت اسلامی اپنے آپ منظم اور مکمل ہے۔ یہ صرف احتسابپر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ پوری اصلاح کا انتظام کرتی ہے۔ یہاں اجازت لینے کے حکم کے بعد پردے کے تعلق سے جب خطاب ہوتا ہے تو سب سے پہلے مردوں کے لیے حکم ہوتا ہے کہ

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا۟ مِنْ أَبْصَـٰرِهِمْ وَيَحْفَظُوا۟ فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرٌۢ بِمَا يَصْنَعُونَ( ٣٠)

ترجمہ: ’’اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اس سے اللہ باخبر ہے۔‘‘

یہاں غض بصر کا حکم سب سے پہلے مردوں کے لیے آیا اور شرم گاہوں کی حفاظت کے سلسلے میں ستر کو ڈھانپنے کا حکم بھی سب سے پہلے مردوں کے لیے ہی آیا۔محرم اور نامحرم رشتوں کی تقسیم میں مردو خواتین دونوں یکساں ہیں۔

ہاں یہ بات اور ہے کہ پردے کے تعلق سے مومن عورتوں کے لیے ان کے سوا کچھ اور بھی لازم قرار دیا گیا ہے۔اور وہ ہے اپنی زینت و آرائش کو چھپانا۔ مرد اور عورت کے درمیان جو کشش ہے قرآنی احکامات اسی ضمن میںانسانوں کی حفاظت چاہتے ہیں۔ اس لیے عورتوں کے لیے واضح طور پر مزید ہدایات ہیں۔

اسلامی شریعت مکمل تربیت چاہتی ہے لہٰذا دوپٹہ لینے کا طریقہ سکھایا گیا، زیبائش کے اظہار کی حد مقرر کردی ، چلنے کے انداز پر بھی تنبیہ کردی ۔ مومن خاتون پر قرآن نے باریکیاں بیان کرکے احسان فرمایا۔ علامہ حمیدالدین فراہی کے مطابق سورہ احزاب میں گھر سے باہر کے پردے کا بیان ہے اور سورہ النور میں گھر کے اندر کے پردے کا بیان ہے۔ یعنی کہ گھر کے افراد بھی نگاہوں کو نیچی رکھیں، ستر پوشی کریں اور حدود کی حفاظت کریں۔

گزشتہ کچھ دہائیوں سے مغربیت میں insest آہستہ آہستہ پھیلتی گئی ہے۔ دنیا کے تقریباً 22ممالک ایسے ہیں جہاں اسے قانوناً جرم بھی نہیں سمجھا جاتا۔ insest کا مطلب ہے جن سے شادی قانوناً جائز نہیں ہے ان سے غلط تعلقات قائم کرنا۔ امریکہ ، یورپ ، جرمنی، روس، جاپان، چین وغیرہ میں psychiatry practice زوروں پر چلتی ہے۔ تحقیق کے مطابق متعدد افراد کی ذہنی بیماریوں کی وجہ insest ہی ہے۔

اسلام نے ان رشتوں کی وضاحت کردی ہے جن سے نکاح حرام ہے۔( اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورہ النسائ کی آیت 22-24)جیسے ماں بیٹا، باپ بیٹی، بھائی بہن، چچا بھتیجی ،ماموں بھانجی، خالہ بھانجا، سسر بہو، رضاعی رشتے دار، بہنوئی سالی وغیرہ ۔ ان رشتوں کی حرمت اور تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے صنفی میلان اسطرح پاک کیا گیا کہ مخالف جنس کشش کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اسلام ان عورتوں کو بھی حرام کرتا ہے جو کسی کی زوجیت میں ہوں وَّالمُحصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ۔ ( سورہ النساء :24) پھر ان کے بعد جو دوشیزائیں یا دیگر عورتیں بچ جاتی ہیں ان کے لیے وَلَا تَقْرَبُوا۟ ٱلزِّنَىٰٓ إِنَّهُۥ كَانَ فَـٰحِشَةًۭ وَسَآءَ سَبِيلًۭا اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے (سورہ بنی اسرائیل:32) اس طرح فحاشی اور ناجائز تعلقات کے تمام دروازے بند کردیے گئے اور نکاح کو آسان اور رشتہ ازدواج کو محبت اور سکون کا سرچشمہ بنا کر تمدن و تہذیب کا صحیح طریقہ عمل میں لایا گیا۔ ان جملہ احکامات کا تعلق مرد وخواتین دونوں سے ہے اور دونوں ان رشتوں کی حرمت اور فواحش کے ارتکاب سے بچنے کے لیے پابند ہیں۔

اسلام خاندانی نظام کے لیے کچھ اصول دیتا ہے اور خاندان کا ایک منظم اسٹریکچر فراہم کرتا ہے، جس میں افراد خاندان کے باہمی تعلقات سے لے کر ان کی ذمہ داریوں تک کی نشان دہی کردی گئی ہے۔ اس میں خاص صورتوں کے علاوہ اگر تبدیلی ہوگی تو اس سے خاندان کا اسٹریکچر متاثر ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں تعاونوا علی البر والتقویٰ کا اصول گھر اور سماج دونوں جگہ نافذ ہوتا ہے۔

جس طرح اسلام نے خاندانی نظام کا اسٹریکچر دیا ہے اور اس کے خط و خال بتائے ہیں وہیں سماجی ومعاشرتی زندگی کو بھی کچھ اخلاقی حدود و قیود کا پابند بنایا ہے۔ گویا سماج اور معاشرے کے لیے بھی عملی اقدار و معاملات کے لیے بنیادی ہدایات دی ہیں۔ یہ ہدایات مرد و خواتین دونوں کے لیے ہیں۔ ان میںسے چند ایک کا ذکر اوپر گزرچکا ہے۔

حجاب اسلامی عائلی، معاشرتی اور سماجی زندگی کی وہ قدر ہے جو اس کے وجود کو مستحکم، اس کی بقاء طویل کی ضمانت سماجی امن و سلامتی اور سکون کی کنجی اور عورت اور مرد کے عزت و وقار کی محافظ اور ایک اچھی زندگی کی کلید ہے۔

مذہبی اعتبار سے عیسائیت میں عورت کو گناہوں کی جڑ سمجھا گیا۔ پھر دور جدید کے آغاز میں اسے پستی سے اٹھانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ زور و زبردستی ختم کرکے مساوات کی ابتدا کرنا غلط نہ تھا، مگر اس میں افراط کا میلان تھا۔ دھیرے دھیرے اس میلان نے ایسی ترقی کی کہ مغربی معاشرت بے اعتدالی کی دوسری انتہا پر پہنچ گئی۔ موجودہ زمانے میں مغرب نے عورت جو کچھ دیا وہ عورت کی حیثیت سے نہیں بلکہ مرد بنا کر دیا ۔گھریلو ذمہ داریوں کو حقیر اور باہر کی زندگی کو عظیم سمجھ کر عورت باہر نکالی گئی اور نکل بھی گئی۔ لیکن حقوق کے حصول کے غلط تخیل نے عورت سے ہی نہیں مردوں سے بھی اخلاقی بندشیں نیست و نابود کروادیں۔ وہ اپنی نسوانیت کی فطرت کو بھول کر مختلف غیر ضروری میدان میں اترتی گئی۔ اس کا اصل میدان ، اسکا اپنا گھر ، ازدواجی زندگی اور بچوں کی تربیت بچھڑا پن بن کر رہ گیا۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغرب کی تمام عورتیں اور مرد اسی افراط و تفریط کا شکار ہیں بلکہ اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اس افراط وتفریط کے نتیجے میں اور اخلاقی پابندیوں سے یکسر آزادی کے سبب جو سماج پروان چڑھا اور جو معاشرتی ٹرینڈس آگے بڑھے انھوں نے عورت کے وقار کا بھی ستیاناس کیا اور سماج و معاشرے اور اس کے نظام کو بھی تباہ و برباد کرڈالا۔

بے اعتدالی اور افراط و تفریط کی اس دنیا میں صرف ایک ہی نظام تمدن واضح طور پر ابھر کرسامنے آتا ہے جس میں اعتدال و توازن بھی کمال درجہ کا ہے اور اس کی قدریں بھی بہت بلند ہیں۔ یہ اعتدال اس وجہ سے ہے کہ یہ خالق انسان وکائنات کا عطا کردہ ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے سماجی و معاشرتی ضوابط و قوانین اس کی برابری نہیں کرسکتے۔

حجاب محض سر کو چھپانااور جسم کو ڈھانپنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسے سماج و معاشرے کی قدروں کا ترجمان ہے جس میں فحاشی و عریانیت کی جگہ اخلاقی قدریں ہوں۔ جہاں خو اتین کے خلاف جرائم کے سیلاب کے بجائے اس کے لیے تحفظ اور عزت و وقار ہو۔

شریعت نے حجاب کے احکام نافذ کرکے عورت کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عزت و شرف بھی عطا کیا ہے مگر اسے سمجھنے کی ضرورت ہے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں