حجاب کا حکم نبوی احکام اور سیرت کی روشنی میں

ڈاکٹر عنایت اللہ وانی

حجاب اور پردہ ایک شرعی ومعاشرتی ضرورت ہے جس کے دلائل قرآن کریم میں تو نہایت وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، ساتھ ہی ساتھ اس کی فرضیت کے دلائل احادیث وسیرت کے واضح نصوص اور عقل وقیاس سے بھی ثابت ہیں۔ پردہ کے بارے میں جہاں قرآن نے اصولی احکامات دیے ہیں وہیں احادیثِ نبویہ اور سیرت میں اس کی جزئیات، کیفیات اور شرعی احکام کی مکمل تفصیلات موجود ہیں جن کو پڑھ کر ہر ذی عقل وشعور یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ یہ کوئی اختیاری اور استحبابی عمل نہیں ہے بلکہ اہلِ ایمان کے لئے یہ ایک فریضہ اور واجبی عمل ہے، درج ذیل سطور میں پردہ کے سلسلہ میں آنحضورﷺ سے ثابت شدہ احکام وفرامین اور دورِ نبوی کے طرزِ عمل اور طریقۂ کار کا سرسری جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
حکمِ حجاب سے پہلے کی صورتحال
سیرت واحادیث کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غزوۂ احزاب سے پہلے مسلمان خواتین پردہ کا بہت زیادہ اہتمام نہیں کرتی تھیں، گھروں میں بھی خاص قسم کی پابندیاں نہیں تھیں، عام خواتین اور ازواج مطہرات گھروں سے باہر اپنی ضروریات کے لئے نکلتی تھیں، حضرت عمرؓ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہی ازواج مطہرات کو پردہ کا اہتمام کرنے کی تلقین کرتے تھے، جیسے کہ مندرجہ ذیل روایت سے نزولِ حکمِ حجاب کی صورتحال پر روشنی پڑتی ہے:
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ يَخْرُجْنَ بِاللَّيْلِ إِذَا تَبَرَّزْنَ إِلَى المَنَاصِعِ وَهُوَ صَعِيدٌ أَفْيَحُ ” فَكَانَ عُمَرُ يَقُولُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْجُبْ نِسَاءَكَ، فَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ “، فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ، زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي عِشَاءً، وَكَانَتِ امْرَأَةً طَوِيلَةً، فَنَادَاهَا عُمَرُ: أَلاَ قَدْ عَرَفْنَاكِ يَا سَوْدَةُ، حِرْصًا عَلَى أَنْ يَنْزِلَ الحِجَابُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الحِجَابِ”۔
(ترجمہ):حضرت عائشہؓ سے روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ کی ازواج رات میں مناصع کی جانب قضائے حاجت کے لئے جاتیں اور مناصع ایک کشادہ میدان ہے، حضرت عمرؓ نبی ﷺ سے کہا کرتے تھے کہ اپنی ازواج کو پردہ کرائیے، مگر آپﷺ ایسا نہیں کرتے تھے، ایک روز رات کو عشاء کے وقت حضرت سودہ بنت زمعہؓ رسول ﷺ کی اہلیہ باہر گئیں اور وہ دراز قد خاتون تھیں،حضرت عمرؓ نے انہیں آواز دی: اے سودہ !ہم نے تمہیں پہچان لیا، اور ان کی خواہش یہ تھی کہ پردہ (کا حکم) نازل ہوجائے، چنانچہ اس کے بعد حجاب سے متعلق آیت نازل ہوئی۔‘‘ (صحيح البخاري ،حدیث نمبر: 146،6240 صحيح مسلم، حديث نمبر: 2170)
واقعہ افک کے ضمن میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں جبکہ وہ قافلہ سے پیچھے رہ گئی تھیں اور حضرت صفوانؓ نے ان کو اُس جگہ دیکھا ۔ وہ اس کی وضاحت وہ یوں فرماتی ہیں:
“…فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِي مَنْزِلِي غَلَبَتْنِي عَيْنِي فَنِمْتُ، وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ المُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ مِنْ وَرَاءِ الجَيْشِ، فَأَدْلَجَ فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي، فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ، فَأَتَانِي فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي، وَكَانَ رَآنِي قَبْلَ الحِجَابِ، فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي، وَوَاللَّهِ مَا كَلَّمَنِي كَلِمَةً وَلاَ سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ، حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ فَوَطِئَ عَلَى يَدَيْهَا فَرَكِبْتُهَا، فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِي الرَّاحِلَةَ، حَتَّى أَتَيْنَا الجَيْشَ…..”
(ترجمہ)’’…….میں اپنی جگہ بیٹھی ہوئی تھی کہ مجھے نیند آگئی اور میں سو گئی، صفوان بن معطل سلمی ذکوانی لشکر کے پیچھے پیچھے آرہے تھے، (تاکہ لشکر کی چھوٹی ہوئی چیزوں کو اٹھا لیں) وہ اپنی منزل سے نکل کر صبح کے وقت میرے مقام پر پہنچ گئے، انہوں نے دور سے ایک سوئے ہوئے انسان کا سایہ دیکھا، وہ میرے قریب آئے اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے، اور انہوں نے پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھا تھا، جب وہ مجھے پہچان گئے تو انا للہ پڑھنے لگے، اور ان کی انا للہ پڑھنے کی آواز سے میں بیدار ہوگئی، میں نے اپنا چہرہ اپنی چادر سے چھپا لیا، اللہ کی قسم! انہوں نے مجھ سے ایک بات بھی نہیں کی اور نہ ہی میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون کے سوا ان سے اور کوئی کلمہ سنا، انہوں نے اپنی سواری بٹھائی اور میں اس پر سوار ہوگئی، وہ خود پیدل اونٹ کو پکڑ کر چلے،یہاں تک کہ ہم لشکر کے پاس پہنچ گئے…‘‘ (صحيح البخاري: حديث نمبر: 4750، 2661،4141 صحيح مسلم:2770)
اس روایت میں حضرت عائشہؓ کا یہ قول(مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے، اور انہوں نے پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھا تھا) بتاتا ہے کہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے حجاب کا اہتمام نہیں ہوتا تھا اور حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعدپردہ کابہت زیادہ اہتمام ہوتا تھا، اسی لئے حضرت عائشہؓ جیسے ہی بیدار ہوتی ہیں فورا اپنی چادر سے اپنے چہرے کو چھپا لیتی ہیں اور انتہائی ادب واحترام اور پردہ کی تمام نزاکتوں کا خیال کرتے ہوئے حضرت صفوان اماں جان کو قافلہ تک پہنچاتے ہیں۔
نزولِ حجاب کے بعدکی صورتحال
حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد صحابہ کرامؓ کی وساطت سے جیسے ہی مسلمان خواتین اور صحابیات تک حجاب کے احکام پہنچے تو انہوں نے بغیر کسی چوں وچرا کے فوری طور پر اس پر عمل کرنا شروع کردیا۔ احادیث و سیرت کی کتابوں میں اس سلسلہ میں جو روایات اور واقعات ہمیں ملتے ہیں ان سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس وقت کے مسلمانوں کے نزدیک حجاب اور پردہ کی کتنی اہمیت تھی۔ حضرت عائشہؓ اس وقت کی منظر کشی اس طرح فرماتی ہیں:
عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ: أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَانَتْ تَقُولُ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ} [النور: 31] أَخَذْنَ أُزْرَهُنَّ فَشَقَّقْنَهَا مِنْ قِبَلِ الحَوَاشِي فَاخْتَمَرْنَ بِهَا۔
(ترجمہ)حضرت صفیہ بنت شیبہؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ جب (سورۂ نور کی) یہ آیت {وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ} (اوراپنےگریبانوںپراپنیاوڑھنیاںڈال لیا کریں) نازل ہوئی تو انہوں نے اپنے نیچے والی چادروں کو کناروں سے پھاڑااور اس سے اپنے سروں اور چہروں کوڈھانپ لیا۔‘‘ (صحيح البخاري حديث نمبر: 4759 (6 / 109 سنن أبی داؤد: 4102)
حضرت ام سلمہ ؓ بھی اس وقت کی صورتحال کی منظر کشی کچھ یوں فرماتی ہیں:عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: “لَمَّا نَزَلَتْ: {يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ} [الأحزاب: 59] خَرَجَ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ كَأَنَّ عَلَى رُءُوسِهِنَّ الْغِرْبَانَ مِنَ الأَكْسِيَةِ ”
(ترجمہ)حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت {يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ}نازل ہوئی تو انصار کی خواتین اپنے گھروں سے اس طرح نکلیں گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھےہوں،ان کے اوپرسیاہ کپڑا تھا جس کو وہ پہنی ہوئی تھیں۔‘‘(سنن أبي داؤد، حديث نمبر: 4101، 4 / 61)
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہؓ اس دور کی خواتین کی تعریف کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ قَالَتْ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ عَائِشَةَ قَالَتْ: وَذَكَرَتْ نِسَاءَ قُرَيْشٍ وَفَضْلَهُنَّ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ لِنِسَاءِ قُرَيْشٍ لَفَضْلا، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَفْضَلَ مِنْ نِسَاءِ الأَنْصَارِ أَشَدَّ تَصْدِيقًا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَلا إِيمَانًا بِالتَّنْزِيلِ لَقَدْ أُنْزِلَتْ سُورَةُ النُّورِ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ﴾ انْقَلَبَ رِجَالُهُنَّ إِلَيْهِنَّ يَتْلُونَ عَلَيْهِنَّ مَا أُنْزِلَ إليهن فيها، ويتلوا الرَّجُلُ عَلَى امْرَأَتِهِ وَابْنَتِهِ وَأُخْتِهِ، وَعَلَى كُلِّ ذِي قَرَابَتِهِ، مَا مِنْهُنَّ امْرَأَةٌ إِلا قَامَتْ إِلَى مِرْطِهَا الْمُرَحَّلِ فَاعْتَجَرَتْ بِهِ تَصْدِيقًا وَإِيمَانًا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنْ كِتَابِهِ، فَأَصْبَحْنَ يُصَلِّينَ وَرَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصبح معتجرات كأن على رؤسهن الغربان‘‘
(ترجمہ) حضرت صفیہ بنت شیبہ سے روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ہم حضرت عائشہؓ کے پاس تھیں کہ انہوں نے قریش کی خواتین اور ان کے فضل وکمال کا ذکر کیا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: بلاشبہ قریش کی خواتین بہت زیادہ فضل وکمال کی مالک ہیں، واللہ! میں نے انصار کی خواتین سے زیادہ بہتر کتاب اللہ کی تصدیق کرنے والا اور قرآن پر ایمان رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ سورۂ نور کی یہ آیت ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ﴾جیسے ہی نازل ہوئی ان کے مرد حضرات ان کی جانب سورۂ نور کی نازل شدہ آیات کی تلاوت کرتے ہوئے لوٹے، شوہر اپنی بیوی ، بیٹی، بہن، اور ہر رشتہ دار کو قرآنی آیات پڑھ کر سناتا، ہر ایک عورت نے نازل شدہ آیات کی تصدیق کرتے ہوئے اور ان پر ایمان لاتے ہوئے اپنی دھاری دار چادر نکالی اور اس سے اپنا سر اور منہ چھپالیا، صبح کے وقت تمام عورتیں باپردہ اور باحجاب ہوکر رسول اللہﷺ کے پیچھے نمازِ فجر ادا کر رہی تھیں گویا کہ ان کے سروں پر سیاہ پرندے ہوں۔‘‘ (تفسير ابن أبي حاتم حدیث نمبر:14406- (8 / 2575، تفسير ابن كثير، سورة نور، آيت: 31، سنن أبي داؤد: حديث نمبر: 4102 كتاب اللباس)
حضرت انسؓ حجاب کا حکم نازل ہونے کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:
عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَنَسًا، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِالحِجَابِ، كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يَسْأَلُنِي عَنْهُ «أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَكَانَ تَزَوَّجَهَا بِالْمَدِينَةِ، فَدَعَا النَّاسَ لِلطَّعَامِ بَعْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَلَسَ مَعَهُ رِجَالٌ بَعْدَ مَا قَامَ القَوْمُ، حَتَّى قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَشَى وَمَشَيْتُ مَعَهُ، حَتَّى بَلَغَ بَابَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، ثُمَّ ظَنَّ أَنَّهُمْ خَرَجُوا فَرَجَعْتُ مَعَهُ، فَإِذَا هُمْ جُلُوسٌ مَكَانَهُمْ، فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ الثَّانِيَةَ، حَتَّى بَلَغَ بَابَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ فَإِذَا هُمْ قَدْ قَامُوا، فَضَرَبَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ سِتْرًا، وَأُنْزِلَ الحِجَابُ۔
ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت انسؓ نے فرمایا: ’’میں حجاب کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ حضرت ابی بن کعبؓ بھی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت کرتے تھے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت زینب بنت جحش سے نکاح فرمایا، اور آپؐ نے ان سے مدینہ منورہ میں نکاح فرمایا تھا، آپؐ نے سورج بلند ہونے کے بعد لوگوں کو ولیمہ کے لئے بلایا۔ دعوت کے بعد آپﷺ اور آپؐ کے ساتھ کچھ لوگ بیٹھے رہے یہاں تک کہ آپؐ کھڑے ہوکر چل دئے اور میں بھی آپ کے ساتھ گیا۔ آپؐ حضرت عائشہؓ کے حجرہ کے دروازہ تک تشریف لے گئے اور آپؐ نے سوچا کہ بیٹھے ہوئے لوگ چلے گئے ہوں گے۔ آپؐ کے ساتھ میں بھی واپس آیا تو دیکھا وہ لوگ اسی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپؐ دوسری مرتبہ واپس آئے اور میں بھی آپؐ کے ساتھ واپس آیا یہاں تک کہ حضرت عائشہؓ کے حجرہ کے دروازہ تک پہنچے ،پھر آپؐ واپس آئے اور میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیاتب تک وہ لوگ جاچکے تھے،(میں حجرہ میں تھا تو) آپؐ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا،اسی موقع پر آیت حجاب نازل ہوئی۔ (صحيح البخاري، حديث نمبر: 5466 (7 / 83)
پردہ کے بارے میں نبوی فرمودات اور فرضیت کے دلائل
پردہ کے بارے میں سابقہ روایات اور آپ ﷺ کے دیگرفرمودات اس قدر واضح ہیں کہ ان کو جاننے کے بعد کسی شک وشبہ یا انکار وتردد کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔ اس کے باوجود ہم ذیل میں چند اور واقعات درج کرتے ہیں جن میں عہدِ نبوی کی خواتین کی عملی، سماجی، معاشرتی اور عام طرزِ زندگی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ان احادیث اور واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کے لیے پردہ کا حکم اس زمانے میں کس قدر اہمیت کا حامل تھا اور صحابیات اس کا کس قدر التزام کرتی تھیں۔
اس قدر التزام اور نبئ پاک کی اس قدر تاکید کے باوجود اس حکم کی فرضیت کے بارے میں تردد یا تو لاعلمی ہے یا پھر الحاد۔اس سلسلہ کی مندرجہ ذیل چند روایات ملاحظہ فرمائیں:
•عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، قَالَتْ: كُنَّا نَمْنَعُ جَوَارِيَنَا أَنْ يَخْرُجْنَ يَوْمَ العِيدِ، فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ، فَنَزَلَتْ قَصْرَ بَنِي خَلَفٍ، فَأَتَيْتُهَا، فَحَدَّثَتْ أَنَّ زَوْجَ أُخْتِهَا غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً، فَكَانَتْ أُخْتُهَا مَعَهُ فِي سِتِّ غَزَوَاتٍ، فَقَالَتْ: فَكُنَّا نَقُومُ عَلَى المَرْضَى، وَنُدَاوِي الكَلْمَى، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعَلَى إِحْدَانَا بَأْسٌ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ أَنْ لاَ تَخْرُجَ؟ فَقَالَ:لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا، فَلْيَشْهَدْنَ الخَيْرَ وَدَعْوَةَ المُؤْمِنِينَ۔
(ترجمہ): حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ہم اپنی لڑکیوں کو عید کے دن عیدگاہ جانے سے منع کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک خاتون آئیں اور انہوں نے قصر بنی خلف میں قیام کیا، میں ان سے ملنے کے لئے حاضر ہوئی تو انہوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن کے شوہر نبی کریم ﷺ کے ساتھ بارہ غزوات میں شریک ہوئے ہیں، اور ان کی بہن بھی ان کے ساتھ چھہ غزوات میں ساتھ تھیں، وہ فرماتی تھیں: ہم مریضوں کی تیمار داری کیا کرتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو اور اس وجہ سے وہ عیدگاہ نہ جاسکے تو کیا اس پر کوئی حرج ہے؟آپؐ نے فرمایا: اس کی سہیلی اپنی چادر اس کو اڑھا دے اور پھر وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔ (صحيح البخاري، حديث نمبر: 980، 324)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب شرعی امور کے لئے بغیر حجاب کے نکلنا جائز نہیں ہے تو دیگر امور جیسے کہ سیر وتفریح، خرید وفروخت اور دیگر ضروریات کے لئے بغیر پردہ کے نکلنا کیسے جائز ہوگا؟!
پردہ کے اہتمام کو آپؐ نے عورتوں سے لی جانے والی بیعت کی بنیادی دفعات اور شرائط میں شامل فرمایا ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، مندرجہ ذیل روایت سے اس کی وضاحت ہوتی ہے:
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: جَاءَتْ أُمَيْمَةُ بِنْتُ رُقَيْقَةَ، إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُبَايِعُهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَقَالَ:أُبَايِعُكِ عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكِي بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقِي وَلَا تَزْنِي، وَلَا تَقْتُلِي وَلَدَكِ، وَلَا تَأْتِي بِبُهْتَانٍ تَفْتَرِينَهُ بَيْنَ يَدَيْكِ وَرِجْلَيْكِ، وَلَا تَنُوحِي، وَلَا تَبَرَّجِي تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى۔
(ترجمہ): حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ امیمہ بنت رقیقہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اسلام پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئیں۔ آپﷺ نے (بیعت لیتے ہوئے) فرمایا: ’’میں تم سے اس بات پربیعت لیتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گی، چوری نہیں کرو گی، نہ بدکاری کرو گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کرو گی، اور نہ کسی پر بہتان تراشی کرو گی، نوحہ نہیں کرو گی، اور نہ ہی جاہلیتِ اولی کی طرح بے پردگی کرو گی۔‘‘ (مسند أحمد، حديث نمبر:6850(11 / 437)
•عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا، قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا۔
(ترجمہ):حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہلِ جہنم کی دو قسمیں ایسی ہیں جن کو (دنیا میں) میں نے خود نہیں دیکھا: ایک گروہ وہ ہے جن کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے۔ اور دوسرا گروہ ان عورتوں کا ہے جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہوں گی، دوسروں کو گناہ پر مائل کرنے والی ،خود مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر (علاقہ) بخت کی اونٹنیوں کے ایک طرف جھکے ہوئے کوہانوں جیسے ہوں گے، یہ عورتیں نہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ان کی خوشبو سونگھیں گی، حالانکہ اس کی خوشبو بہت لمبے فاصلے سے محسوس ہوگی۔‘‘ (صحيح مسلم، حديث نمبر: 2128 (3 / 1680)
اس روایت میں بے پردہ اور بے راہ روی کا شکار عورتوں کو اتنی سخت وعید سنائی جارہی ہے کہ وہ جنت سے ہی محروم کردی جائیں گی، اور وجہ صرف یہ ہوگی کہ وہ کپڑے پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی، کیونکہ ان کا جسم اس لباس میں نظر آرہا ہوگا اور وہ دوسروں کی بے راہ روی کا سبب بن رہی ہوں گی۔
•عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كُلُّ عَيْنٍ زَانِيَةٌ، وَالمَرْأَةُ إِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالمَجْلِسِ فَهِيَ كَذَا وَكَذَا يَعْنِي زَانِيَةً۔”
حضرت ابو موسی اشعریؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ہر آنکھ بدکاری کرتی ہے، اور عورت جب خوشبودار عطر لگاتی ہے اور لوگوں کی مجلس کے پاس سے گزرتی ہے تو وہ ایسی ایسی یعنی زانیہ وبدکار ہے۔‘‘ (سنن الترمذي، حديث نمبر: 2786، 4 / 403 مسند أحمد، حديث نمبر: 19578)
اس حدیث میں آنکھ کے گناہ کو بے پردگی کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ پردہ کا تعلق صرف لباس سے نہیں ہے بلکہ آنکھوں اور خوشبو کے بارے میں بھی احتیاط اختیار کرنی چاہئے اور یہی چیزیں بے راہ روی اور بدکاری کاسبب بنتی ہیں۔
•عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ: سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ، وَلاَ تُسَافِرَنَّ امْرَأَةٌ إِلَّا وَمَعَهَا مَحْرَمٌ۔ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اكْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا، وَخَرَجَتِ امْرَأَتِي حَاجَّةً، قَالَ: اذْهَبْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِكَ۔
(ترجمہ):حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ ملے، اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے‘‘۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جارہی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘(صحيح البخاري، حديث نمبر:3006،5233 صحيح مسلم: 1341)
اس حدیث میں اجنبی شخص کے ساتھ ملنے اور اختلاط سے منع کیا گیا ہے، یہاں تک کہ پردہ کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ عورت تنہا محرم کے بغیرسفر بھی نہیں کرسکتی۔ ایک طرف سفر جہاد ہے لیکن اس کے بجائے بیوی کے ساتھ جانے کو ترجیح دینا پردہ کی اہمیت وتاکید کو واضح کرتا ہے۔
•عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَلِجُوا عَلَى المُغِيبَاتِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِكُمْ مَجْرَى الدَّمِ۔
(ترجمہ):حضرت جابرؓ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’علحیدگی میں رہنے والی عورتوں کے پاس مت داخل ہو،کیونکہ شیطان ہر انسان میں یوں دوڑتا ہے جیسے کہ رگوں میں خون دوڑتا ہے۔‘‘ (سنن الترمذي، حديث نمبر: 1172 مسند أحمد: 14324)
حضرت فاطمہ بنت قیسؓ اولین مہاجرخواتین میں سے تھیں، ان کے شوہر ابن مغیرہؓ کی شہادت ہوجاتی ہے، حضرت فاطمہؓ اپنی بیوگی اور اور عدت کے سلسلہ میں بیان فرماتی ہیں کہ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا:
انْتَقِلِي إِلَى أُمِّ شَرِيكٍ» وَأُمُّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ غَنِيَّةٌ، مِنَ الْأَنْصَارِ، عَظِيمَةُ النَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللهِ، يَنْزِلُ عَلَيْهَا الضِّيفَانُ، فَقُلْتُ: سَأَفْعَلُ، فَقَالَ: «لَا تَفْعَلِي، إِنَّ أُمَّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ كَثِيرَةُ الضِّيفَانِ، فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسْقُطَ عَنْكِ خِمَارُكِ أَوْ يَنْكَشِفَ الثَّوْبُ عَنْ سَاقَيْكِ، فَيَرَى الْقَوْمُ مِنْكِ بَعْضَ مَا تَكْرَهِينَ وَلَكِنِ انْتَقِلِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ
(ترجمہ): (عدت گزارنے کے لئے)ام شریک کے گھر میں منتقل ہوجاؤ، اور ام شریک انصار کی ایک مالدار خاتون ہیں۔ اللہ کے راستے میں خوب انفاق کرنے والی ہیں، ان کے پاس مہمانوں کا خوب آنا جانا لگا رہتا ہے۔ میں نے عرض کیا: میں ایسا ہی کروں گی۔ آپؐ نے فرمایا: ایسا مت کرو، کیونکہ ام شریک کے ہاں مہمانوں کی کثرت رہتی ہے، مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ تم سے وہاں تمہاری چادر گر جائے یا تمہاری پنڈلی کھل جائے اور لوگ تمہارے پردے کی جگہوں کو دیکھ لیں جس کو تم ناپسند کرتی ہو، اس لئے اپنے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن عمرو ابن ام مکتوم کے گھر میں منتقل ہوجاؤ۔‘‘(صحيح مسلم،حديث نمبر: 2942 المعجم الكبير للطبراني: 24/383)
اس حدیث میں آپ ﷺ اجنبی لوگوں کے سامنے چادر گرجانے اور پنڈلی کھل جانے کو بے پردگی کے سبب کے طور پر بیان فرما رہے ہیں جس کی وجہ سے حضرت فاطمہؓ کو ام شریک کے بجائے حضرت ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔
•عن عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: كُنَّ نِسَاءُ المُؤْمِنَاتِ يَشْهَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَنْقَلِبْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ حِينَ يَقْضِينَ الصَّلاَةَ، لاَ يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الغَلَسِ۔
(ترجمہ):حضرت عروہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ حضرتِ عائشہؓ نے ان کو بتایا کہ ’’مسلمان عورتیں اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ فجر کی نماز میں اپنی اوڑھنیوں میں لپیٹی ہوئی شریک ہوتی تھیں، پھر نماز ادا کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو واپس آتیں تو تاریکی کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔‘‘ (صحيح البخاري، حديث نمبر: 578 (1 / 120)
اس روایت میں عورتوں کے پردہ کے اہتمام کو بیان کیا جارہا ہے یہاں تک کہ فجر کے وقت اندھیرے میں بھی اس کا اہتمام کرتی تھیں۔
•عن عَبْد اللَّهِ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ وَأَقْرَبُ مَا تَكُونُ مِنْ رَبِّهَا، إِذَا كَانَتْ فِي قَعْرِ بَيْتِهَا، فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ۔
(ترجمہ): حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: عورت پردہ کی چیز ہے،اور اپنے رب سے قریب تر ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو اس کو شیطان جھانکتا ہے۔‘‘(سنن ترمذي، حديث نمبر: 1173مصنف ابن أبي شيبة، حديث نمبر:7616 (2 / 157)
اس روایت میں عورت کو صاف صاف پردہ کی چیز قرار دیا گیا ہے اور بے پردہ نکلنے کی صورت میں اس کے ساتھ شیطان ہوگا جو بے راہ روی کا سبب بنے گا۔
•عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ۔
(ترجمہ): حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ’’لوگ ہمارے پاس سے گزرتے جب کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حالتِ احرام میں تھیں، جب لوگ ہمارے سامنے سے گزرتے تو ہم عورتیں اپنی اوڑھنی کو سر کے اوپر سے چہرے پر لٹکا دیتیں جب وہ گزر جاتے تو ہم اس پردے کو ہٹا دیتیں۔‘‘(سنن أبي داود، حديث نمبر: 1833 (2 / 167)
جب حالتِ احرام میں اس قدر اہتمام کیا جارہا ہے تو عام حالات میں کیا حال ہوگا؟!
•عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتُ: كُنَّا نُغَطِّي وُجُوهَنَا مِنَ الرِّجَالِ۔
(ترجمہ):حضرت اسماء بنت ابی بکرؓفرماتی ہیں کہ ہم (غیر محرم) مردوں سے اپنے چہروں کو چھپاتی تھیں۔ (صحيح ابن خزيمة، حديث نمبر: 2690 (4 / 203)
•دَخَلَ نِسْوَةٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَلَيْهِنَّ ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنْ كُنْتُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَيْسَ هَذَا بِلِبَاسِ الْمُؤْمِنَاتِ، وَإِنْ كُنْتُنَّ غَيْرَ مؤمنات فتمتعينه، وَأُدْخِلَتِ امْرَأَةٌ عَرُوسٌ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَعَلَيْهَا خِمَارٌ قُبْطِيٌّ مُعَصْفَرٌ، فَلَمَّا رَأَتْهَا قَالَتْ: لَمْ تُؤْمِنْ بِسُورَةِ النُّورِ امْرَأَةٌ تَلْبَسُ هَذَا.
(ترجمہ):بنو تمیم کی کچھ خواتین حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان کے جسموں پر باریک کپڑے تھے، حضرت عائشہؓ نے ان کو دیکھ کر کہا: اگر تم مومن عورتیں ہو تو یہ ایمان والی عورتوں کا لباس نہیں ہے اور اگر تم بے ایمان ہو تو پھر مزے کر لو۔‘‘ ایک دلہن حضرت عائشہؓ کے پاس لائی گئی اس کے جسم پر زرد رنگی ہوئی قبطی بڑی چادر تھی ،جب حضرت عائشہؓ نے اس کو دیکھا تو کہا: تم سورۂ مومن پر ایمان نہیں رکھتی ہو، عورت ایسا لباس پہنتی ہے؟! (تفسير القرطبي (سورة الأحزاب، آيت: 59، 14 / 244)
•عن عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ أَنَّهُ، سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أُخْتٍ لَهُ نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ حَافِيَةً غَيْرَ مُخْتَمِرَةٍ، فَقَالَ:مُرُوهَا فَلْتَخْتَمِرْ، وَلْتَرْكَبْ، وَلْتَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ۔
(ترجمہ):حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے اپنی بہن کے بارے میں دریافت کیا جس نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ ننگے پیربغیر سر کی چادر کے حج کرے گی۔ آپؐ نے فرمایا: اس کو حکم دو کہ وہ سر پر چادر رکھے اور سوار ہو اور تین دن کے روزے رکھے۔‘‘(سنن أبي داود، حديث نمبر: 3293)
علامہ خطابیؒ اس روایت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے اس عورت کو چادر اوڑھنے کا حکم دیا اس لئے کہ اس نے معصیت اور گناہ کی نذر مانی تھی کیونکہ عورتوں کے لئے چادر ڈالنا اور پردہ کرنا ضروری ہے۔
•عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ لَهُ امْرَأَةً أَخْطُبُهَا، فَقَالَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا، فَأَتَيْتُ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، فَخَطَبْتُهَا إِلَى أَبَوَيْهَا، وَأَخْبَرْتُهُمَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَأَنَّهُمَا كَرِهَا ذَلِكَ، قَالَ: فَسَمِعَتْ ذَلِكَ الْمَرْأَةُ، وَهِيَ فِي خِدْرِهَا، فَقَالَتْ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَكَ أَنْ تَنْظُرَ، فَانْظُرْ، وَإِلَّا فَأَنْشُدُكَ، كَأَنَّهَا أَعْظَمَتْ ذَلِكَ، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهَا فَتَزَوَّجْتُهَا، فَذَكَرَ مِنْ مُوَافَقَتِهَا”.
(ترجمہ):حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک عورت کے بارے میں ذکر کیا جس کو میں پیغامِ نکاح دینا چاہتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: جاؤ پہلے اس کو دیکھ لو، ایسا کرنے میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تمہارے درمیان تعلق زیادہ دیرپا رہے، میں ایک انصاری خاتون کے پاس آیا، اس کے بارے میں اس کے والدین کو پیغامِ نکاح دیا اور ان دونوں کو رسول اللہﷺ کے فرمان کے بارے میں بتایا۔ ایسا لگا جیسے کہ ان دونوں نے اس بات کو ناپسند کیا ہو، فرماتے ہیں: اس عورت نے یہ سب باتیں سن لیں جب کہ وہ پردہ کے پیچھے تھی، اس نے کہا: اگر اللہ کے رسولﷺ نے آپ کو دیکھنے کا حکم دیا ہے تو آپ دیکھ سکتے ہیں، ورنہ میں آپ کو قسم دیتی ہوں ، گویا کہ اس نے اس بات کو نہایت اہم سمجھا۔ فرماتے ہیں: میں نے اس کو دیکھا اور اس سے نکاح کیا اور اس کے والدین بھی راضی ہوگئے۔‘‘(سنن ابن ماجه، حديث نمبر: 1866 مسند أحمد: 18137 المعجم الكبير للطبراني20/433)
اس روایت میں اس بات کی واضح دلیل موجود ہے کہ پردہ اور حجاب اس دور کے عورتوں کی عام عادت تھی۔
•عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُوَ عَرُوسٌ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ، جِئْنَ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ فَأَخْبَرْنَ عَنْهَا، قَالَتْ: فَتَنَكَّرْتُ وَتَنَقَّبْتُ فَذَهَبْتُ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَيْنِي فَعَرَفَنِي، قَالَتْ: فَالْتَفَتَ، فَأَسْرَعْتُ الْمَشْيَ، فَأَدْرَكَنِي فَاحْتَضَنَنِي، فَقَالَ: «كَيْفَ رَأَيْتِ؟» قَالَتْ: قُلْتُ: أَرْسِلْ، يَهُودِيَّةٌ وَسْطَ يَهُودِيَّاتٍ”.
(ترجمہ):حضرت عائشہؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے حضرت صفیہ بنت حییؓ سے نکاح فرمایا اور آپ اس وقت مدینہ تشریف لائے تو انصار کی عورتیں آئیں اور انہوں نے ان کے بارے میں اطلاع دی، فرماتی ہیں: میں نے ایسا حلیہ اختیار کیا کہ میں پہچانی نہیں جارہی تھی اور میں نے نقاب پہنا اس کے بعد میں (ان کو دیکھنے) گئی، آپ ﷺ نے میری آنکھوں کی طرف دیکھا اور مجھے پہچان لیا۔ فرماتی ہیں: آپؐ میری طرف متوجہ ہوئے تو میں نے تیز تیز چلنا شروع کیا، آپ نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے گلے لگایا اور فرمایا: کیسا پایا آپ نے ؟ فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا : چھوڑئے، دوسری یہودی عورتوں کے بیچ میں ایک اور یہودیہ ہے۔(سنن ابن ماجه، حديث نمبر: 1980، 1 / 636)
حضرت عائشہ ؓ نقاب پہنتی ہیں اور اس طرح مجلس میں جاتی ہیں کہ پہچاننا مشکل ہوتا ہے، اللہ کے رسولؐ آپؓ کو ان کی آنکھ کے ذریعہ پہچانتے ہیں۔
•عَنْ قَيْسِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ تَطْلِيقَةً فَأَتَاهَا خَالَاهَا قُدَامَةُ وَعُثْمَانُ ابْنَا مَظْعُونٍ، فَقَالَتْ: وَاللهِ مَا طَلَّقَنِي عَنْ شِبَعٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ، فَتَجَلْبَبَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَقَالَ:رَاجِعْ حَفْصَةَ فَإِنَّهَا صَوَّامَةٌ قَوَّامَةٌ، وَإِنَّهَا زَوْجَتُكَ فِي الْجَنَّةِ۔
(ترجمہ):حضرت قیس بن زیدؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے حضرت حفصہؓ کو ایک طلاق دی تو ان کے دو ماموں قدامہ اور عثمان ان کے پاس آئے، حضرت حفصہؓ نے کہا: واللہ آپؐ نے مجھے ناپسندیدگی کی وجہ سے طلاق نہیں دی ہے، اسی دوران نبی ﷺ تشریف لائے اور اندر داخل ہوئے، میں نے فورا پردہ کرلیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہا: حفصہ سے رجوع کیجئے اس لئے کہ وہ بہت روزہ رکھنے والی اور قیام اللیل کرنے والی ہیں، اور وہ جنت میں آپ کی زوجہ ہیں‘‘۔(المعجم الكبير للطبراني ، حديث نمبر: 934، 18 / 365)
حضرت حفصہؓ کو جب نبی کریم ﷺ نے طلاق دی تو انہوں نے آپﷺ ہی سے فورا پردہ کرلیا، اس سے پردہ کے اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
•عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: «يَا أَسْمَاءُ، إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَا» وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ”.
(ترجمہ)حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ اسماء بنت ابو بکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان کے جسم پر باریک کپڑے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے اعراض کیا اور فرمایا: اے اسماء، عورت جب بالغ ہوجائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہئے سوائے ان ان اعضاء کے۔ آپؐ نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی جانب اشارہ فرمایا۔‘‘ (سنن أبي داود، حديث نمبر: 4104، شعب الايمان للبيهقي: 7409)
•عَنْ عَبْدِ الْخَبِيرِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلَّادٍ وَهِيَ مُتَنَقِّبَةٌ تَسْأَلُ عَنِ ابْنٍ لَهَا وَهُوَ مَقْتُولٌ , فَقَالَ لَهَا بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنِ ابْنِكِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ؟ فَقَالَتْ: إِنْ أُرْزَأِ ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِي”.
(ترجمہ)حضرت قیس بن شماسؓ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چہرے پر نقاب ڈال کر حاضر ہوئی، اس کا نام ام خلاد تھا، یہ عورت اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کر رہی تھی، جو جنگ میں شہید ہوا تھا، صحابہ کرام میں سے بعض نے اس کو نقاب میں دیکھ کر کہا: آپ اپنے (شہید)بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی ہو اس حال میں بھی آپ نے نقاب ڈال رکھا ہے؟ اس نے جواب میں کہا: میں نے بیٹا کھویا ہے حیا نہیں کھوئی ہے‘‘۔(سنن أبي داؤد، حديث نمبر: 2488السنن الكبرى للبيهقي: 18591، 9 / 295)
………….
یہ ہیں حجاب اور پردہ کے سلسلہ میں نبوی احکام اور سیرت کی زندہ وتابندہ مثالیں جن سے یہ بات دن چڑھتے سورج کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ پردہ کے سلسلہ میں وارد قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ احادیثِ نبویہ بھی انتہائی واضح ہیں جن سے حجاب اور پردہ کی فرضیت کا ثبوت ملتا ہے جن کو جاننے کے بعد یہ کہنا بالکل بے محل اور لاعلمی پر مبنی ہوگا کہ حجاب کا دین وشریعت ِ اسلامی میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہے، حالانکہ اللہ کے رسولﷺ ،ازواجِ مطہرات، صحابہ کرام اور صحابیات دین وایمان کا تقاضا سمجھتے ہوئے حجاب اور پردہ کا انتہائی درجے میں اہتمام کرتے تھے۔ اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے،مندرجہ بالا بعض روایات پر اگر چہ کلام بھی کیا جاسکتا ہے لیکن قرآنی آیات اور احادیث کے تمام ذخیرہ کو دیکھا جائے تو اس سے پردہ کے وجوب کا واضح ثبوت مل جاتا ہے۔ لہٰذا حجاب اور پردہ کے احکام کو ماننا اور ان پر عمل پیرا ہونا ہر صاحبِ ایمان کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اس سے دست بردار ہونا ایمان واسلام کے بنیادی تقاضوں سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں