حجاب عورت کے لیے ایک ایسا فریضہ ہے جو وہ احکام الٰہی کے تحت ادا کرتی ہے، مگر آج اسے مسئلہ بنا کر اچھالا جارہا ہے۔ قرآن ِ کریم میں سب سے پہلے سورۂ احزاب میں آیت حجاب نازل ہوئی۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو، نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں اگر تمھیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہوجاؤ۔ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمھاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا۔۔ نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے مانگا کرو۔ یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ تمھارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گنا ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔‘‘
اس کے بعد حجاب کا حکم قرآن کریم کی سورۂ نور کی آیت نمبر ۳۱ میں نازل ہوا:
’’اور اے نبیؐ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سورۂ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے لوگ اسے سن کر گھروں کو پلٹے اور جاکر انھوں نے اپنی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کو یہ خبر سنائی۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو یہ آیت سن کر بیٹھی رہ گئی ہو۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا پٹکا کھولا اور کسی نے چادر اٹھا کر اس کا دوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوئیں، وہ دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھیں۔ ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑے اور موٹے کپڑے کی چادریں بنائیں۔
پھر دوسرا حکم سورۂ احزاب میں نازل ہوا:
’’اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کرو۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔‘‘
ان آیات اور احادیث کے بعد کسی مسلمان میں یہ جرأت نہیں ہوتی کہ وہ حجاب کو کلچر، روایت یا معاشرتی اور سماجی رویہ قرار دیں۔ یہ واضح قرآنی، و الٰہی حکم ہے جسے مسلمان عورت بڑے افتخار کے ساتھ اپنائے ہوئے ہے۔اگرچہ مغربی دنیا میں اس وقت حجاب کے خلاف زبردست مہم چل رہی ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ مغربی ممالک میں اسلامی شعار کو اپنانے کا رجحان موجودہ نسل میں تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے جو کہ مغربی ذرائع ابلاغ اور وہاں کی حکومتوں کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے کیوں کہ یہاں مسلمانوں کی وہ پہلی نسل جو مختلف اسلامی ممالک سے ہجرت کرکے آئی تھی، ان میں یہ رجحان نہیں پایا جاتا تھا۔ اس طرح یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کی موجودہ نسل تیزی سے اسلام کی طرف لوٹ رہی ہے ۔ یہ ایک خوش آیند پیش رفت ہے۔ حجاب یا دیگر مذہبی شعار کا استعمال دباؤ یا زیادتی کی وجہ سے نہیں کیا جاتا جیسا کہ حجاب مخالف پراپیگنڈے کے ذریعے باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ یہ ہر فرد کا آزادانہ فیصلہ ہوتا ہے اور یہ مسلمان عورت کا حق بھی ہے اور اس کا افتخار جو وہ اللہ کا حکم سمجھ کر قبول کرتی ہے۔ جیسے اسے نماز اور روزے کاحکم دیا گیا ہے، اسی طرح اسے حجاب کا حکم بھی دیا گیا ہے جسے وہ پورا کرکے احکام الٰہی کی پابندی کرتی ہے۔
نجاشی کے دربار میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، نے ان سے کہا کہ ہمارے کچھ بھگوڑے آپ کے ہاں آگئے ہیں، انھیں واپس کردیں۔ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے سورۂ مریم سنا کر کہا کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس لیے آئے ہیں کہ مرد اور عورت دونوں کو ان کے حقوق دلائیں۔ نجاشی نے قہقہہ لگا کر کہا کہ کیا عورت کے بھی کوئی حقوق ہیں؟ ہم ان کی قیمت لگاتے ہیں، انھیں استعمال کرتے ہیں اور پھر پھینک دیتے ہیں۔
حضور نبی کریم ﷺ محسن نسواں بن کر آئے۔ انھوں نے عورت کو خوشبو اور نماز کے ساتھ برابر کرکے اس کے تقدس کو اور زیادہ نمایاں کردیا۔ اس کی حفاظت کے لیے احکام حجاب نازل کیے اور ا س کا آغاز مردوں سے مخاطب ہوکر کیا کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرو۔ (سورۂ نور)۔ یہ حجاب صرف ایک گز کپڑے کے ٹکڑے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظام عصمت و عفت اور نظام اخلاق ہے جو مردوں کو بھی اتنا ہی محفوظ رکھتا ہے جتنا عورتوں کو۔
اس وقت مغربی استعمار سے ہمیں سب سے بڑا خطرہ نظریاتی اور ثقافتی میدان میں درپیش ہے۔ وہ ہمارے عقیدے اور ایمان کو کمزور اور ہماری تہذیب و ثقافت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ تم ہمارے کلچر، قوانین اور تہذیب و ثقافت کو قبول کرلو، ان کے خیال میں اعتدال پسندی یہ ہے کہ مسلمان اپنی شناخت سے دستبردار ہوجائیں اور قرآن و سنت کی رہنمائی کو چھوڑ کر ان کے طرز زندگی کو اختیار کرلیں۔
مغربی معاشرے میں فکری و جنسی انتشار ہے، ان کا خاندانی نظام تباہ ہوگیا ہے، ان کے معاشرے میں بے چینی ہے، لیکن اپنی مادی قوت کے سہارے وہ تہذیبی میدان میں بھی برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ہمارا خاندانی نظام ان کا خاص ہدف ہے۔ ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے وہ خواتین کو اکساتے ہیں اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلامی تہذیب اور قرآن و سنت کے قوانین میں تمھارے اوپر ظلم و زیادتی روا رکھی گئی ہے، تمھیں پابند اور غلام بنا کر رکھا گیا ہے، مغرب کی عورت کے مقابلے میں تم ایک طرح سے قید کی زندگی میں ہو۔ خواتین سے کہا جاتا ہے کہ تم ان پابندیوں کو تو ڑوگی تو تمھیں آزادی نصیب ہوگی، حالاں کہ اسی آزادی کے نتیجے میں ان کا خاندانی نظام تہس نہس ہوچکا ہے۔ ان کے ہاں کوئی چیز مقدس نہیں رہی۔ شادی کا تقدس بھی ختم ہوگیا ہے اور ان کے مرد اور عورتیں آسانی کے ساتھ شادی کے بندھن میں جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر کوئی اس بندھن کو قبول کر بھی لے تو دو تین سال میں علیحدگی ہوجاتی ہے اور زندہ والدین کے بچے خانماں برباد ہوجاتے ہیں۔
سنگل پیرنٹ چائلڈ (Single Parent Child) کی تعداد بڑھتی جارہی ہے یعنی بچہ ماں کے ساتھ ہوتا ہے اور باپ کا پتا نہیں ہوتا۔ اس طرح سے معاشرتی طور پر ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کہ بن باپ کے بچوں کا سارا بوجھ ماں پر آجاتا ہے۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مغرب میں عورت کی آزادی حقیقت میں مرد کی تفریح طبع کے سوا کچھ نہیں ہے۔امریکہ کے بارے میں ایک رپورٹ آئی ہے کہ سیاہ فام باشندوں میں 70فی صد اور سفید فام میں 35فی صد بچے سنگل پیرنٹ ہیں اور ان کے دانشور خبردار کر رہے ہیں کہ اگر سفید فام لوگوں میں بھی سنگل پیرنٹ بچوں کا تناسب اسی رفتار سے بڑھتا گیا تو ہمارا معاشرہ تباہ ہوجائے گا۔ یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ اس فطری نظام سے تجاوز اختیار کیا گیا ہے جس کی اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نشاندہی فرمائی ہے۔
انسانی تاریخ میں حجاب کی طاقت کبھی بھی کسی نے ایسے نہ دیکھی ہوگی کہ کبھی یہ قانون ساز اداروں میں بحث و مباحثے اور قانون سازی کا عنوان بن جائے اور کبھی تہذیبوں کے عروج کی علامت بن جائے۔ کبھی اس کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں اور کبھی جان کی بازی لگائی جائے۔ عربی کا ایک مقولہ ہے کہ
النساء عماد البلاد۔ ’’عورتیں تہذیبوں کی عمارت کا بنیادی ستون ہوتی ہیں۔‘‘
عورت اللہ کے لطف و جمال اور صفت تخلیق کا مظہر ہے۔ جب بھی شیطان کسی سماج کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلا وار عورت کی صفت حیا پر کرتاہے۔ یہی اس کی والین اور پسندیدہ چال ہے، جو اس نے حضرت آدمؑ اور بی بی حواؑ پر آزمائی تھی اور اس جال میں آج تک وہ حضرت انسان کو پھنساتا چلا آرہا ہے۔
قوموں کی زندگی میں عورت کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اسے دنیامیں سربلندی اور سرفرازی کا مقام دینے کا سہرا مضبوط اور اعلیٰ اخلاق و کردار کی حامل عورت کے سرہی ہوتا ہے اور اگر عورت سے حیا کی صفت ختم ہوجائے تو معاشرہ حیوانیت کا شکار ہوکر نسلوں میں بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔
آج بھی عورت کے تقدس کو پامال کرنے کی پوری طرح سازشیں ہورہی ہیں۔ کبھی اس کو اشتہار کی زینت بنایا جاتا ہے اور کبھی سر عام رسوا کیا جاتا ہے۔ اور اب سڑکوں پر بھنگڑا کلچر کی ابتدا کردی گئی ہے کہ اگر اس کا ابھی سے سد باب نہ کیا گیا تو یہاں بھی عورت اسی طرح سے غیر محفوظ ہوجائے گی جیسا کہ حالیہ دنوں میں کیا جانے لگا ہے۔ اگر ہم جلسوں اور میوزک کنسرٹ میں کوئی فرق روا نہ رکھیں گے اور سر عام اپنی قوم کی بیٹیوں کی عزت کو داؤ پر لگائیں گے تو خدا نخواستہ یہ معاشرہ بہت جلد اپنے تقدس، اقدار اور روایات سے بے بہرہ ہوجائے گا۔
یہ حجاب معاشرے میں اخلاق و کردار کے استحکام کا نام ہے۔ شرق و غرب میں نئی نسل کی بیداری کی علامت بھی ہے۔ نہ جبر و زیادتی کا سبب ہے اور نہ پسماندگی کی علامت۔ یہ تو بلند کرداری اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پابندی اور ساتھ ہی عظمت نسواں کے تحفظ کی علامت ہے۔ اس لیے ہر مسلم عورت کو چاہیے کہ وہ موجودہ حالات کا گہرائی سے جائزہ لے، موجودہ تہذیب کی درندگی کو دیکھے اور اس دور کے سماجی و معاشرتی ایثار کو سمجھے۔ ایسے میں حجاب کی ضرورت و اہمیت اس پر واضح ہوجائے گی۔lll