اپریل ۲۰۱۴ء میں اسرائیلی اخبار ہارٹس (Haartez) کے نیٹ ایڈیشن پرایال ساگل بزاو (Eyal Sigul Bizawe) کا ’’مصر میں حجاب فیشن‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں مصنف نے اپنے مخصوص نقطہ نظر سے مصر اور عمومی طور پر مغرب میں بڑھتے ہوئے پردے کے رجحان کا تذکرہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مضمون میں شامل بعض حقائق ایشیا کے قاری کے لیے دلچسپ اور معلوماتی ہوں گے لہٰذا اس کے بعض حصوں کا ترجمہ درج ذیل سطور میں پیش کر رہا ہوں۔
میرے پہلے دورے کے دس سال بعد قاہرہ کا یہ دوسرا دورہ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ شور میں ڈوبی گلیاں، اندرون شہر یورپی طرز تعمیر پر بنی بستیاں، پرہجوم مارکیٹیں، بہترین فٹ پاتھ، مساجد، قبطی گرجے، ریسٹورانٹس اور چائے خانے اس وقت قاہرہ کی شناخت تھے۔ سب کچھ ویسا ہی تھا لیکن ایک تبدیلی اتنی واضح تھی جس سے میں صرف نظر نہ کرسکا۔
۱۹۶۰ء میں اندرون شہر خواتین حجاب اور مختصر آستین دونوں کے ساتھ نظر آتی تھیں لیکن ۱۹۹۰ء میں آستین دراز ہوگئیں اور حجاب کی بہتات نظر آئی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ اکثر خواتین حجاب کے روایتی طریقہ پر سرکو ڈھانپ رہی ہیں، اور یہ کوئی غیر معمولی بات بھی نہیں کیوں کہ پوری عرب سوسائٹی اور خصوصاً مصر میں مذہب مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً قاہرہ سفر کرنے والا ہر سیاح مصری خواتین کے لباس، عادات، حجاب ونقاب جیسی تبدیلیوں کا بہ آسانی مشاہدہ کرسکتا ہے۔ ان سیاحوں کی طرح جو عرب ممالک آتے جاتے رہتے اور وہاں رہائش نہیں رکھتے، مجھے بھی یہ سب دیکھ کر رنج ہوا۔
میری نظر میں مذہب پر اس طرح عمل درآمد عورت کو زمانہ قدیم کے قبائلی نظام کی طرف لے جانا ہے، جہاں عورت کے لیے سختی ہی سختی ہے۔ میرے لیے حجاب مصری عورت کی کمتری اور اس کے استحصال و محکومی کی علامت تھا۔ لیکن میں نے بعض ایسی باتیں بھی نوٹ کیں جو میری اس سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ مثلاً میں نے دیکھا کہ ایک بڑے فیشن اسٹور المتاحجیبۃ (نام حجاب سے بنا ہے) مختلف رنگوں اور ڈیزائن کے برقعوں اور اسکارف سے بھرا ہوا تھا لیکن ساتھ ہی گڑیاں، چاندی کے بٹن والے چمڑے کے سیاہ زیر جامے، ایسے شفاف کپڑے کے بنے حجاب اور نائٹ گاؤن جن میں دوسری طرف بہ آسانی دیکھا جاسکتا تھا، بھی موجود تھے۔
جب میں نے سوچا کہ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ کیسے چل سکتے ہیں تو خیال آیا کہ اپنے بیڈ روم میں شوہر کے سامنے ایک عورت ایسے لباس پہن سکتی ہے اور اسے پہننا بھی چاہیے۔ ان سب کے باوجود مصری معاشرے میں عورت ترجیح دیتی ہے کہ پبلک مقامات پر اپنے کو چھپائے تاکہ دیکھی نہ جاسکے۔ لیکن ساتھ ہی ایسی لڑکیاں بھی نظر آئیں جو سر ڈھانپے تھیں لیکن دریائے نیل کے ساحل پر بوائے فرینڈز کے ساتھ سیر کر رہی تھیں۔ دفاتر وغیرہ میں ایسی خواتین نظر آئیں جو پورے میک اپ،جینز، ہائی ہیل کے ساتھ حجاب میں تھیں، میں نے گلیوں میں ایسے مناظر بھی دیکھے کہ ماں کا سر اور بال دونوں کھلے لیکن بیٹی نے پردہ کیا ہوا ہے۔ میں نے نائٹ کلب میں بہت سی خواتین اسکارف میں دیکھیں۔
قاہرہ کے اپنے اگلے دورے میں مجھے سے ایسی خواتین حجاب میں ملیں جو آزادی نسواں کی علمبردار تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سی خواتین کے لیے اب حجاب کوئی مذہبی تقاضا ہی نہیں بلکہ ان کی علیحدہ شناخت کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ اب ان کے لیے یہ شناخت دراصل مغربی تہذیب سے اپنے کو علیحدہ رکھنے کا نام ہے، بالفاظ دیگر وہ مغرب کی عورت سے کہہ رہی ہیں کہ ’’تم اپنے جسم کی نمائش کرنا چاہتی ہو جب کہ ہم اسے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں‘‘ تمہارا فیشن امریکہ کو وقف ہے جب کہ ہمارا سعودی عرب کو۔‘‘ اس سے بڑھ کر یہ کہ اب بہت سی خواتین نے حجاب کو اسلامی آزادی نسواں بنا دیا ہے، جو ان کے لیے اختیارات اور طاقت کا ایک ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔
۲۰۰۴ء سے مسلم خواتین کے لیے ایک رسالہ ’’حجاب فیشن‘‘ کے نام سے شائع ہو رہا ہے۔ یہ رسالہ برطانیہ سے شائع ہو کر پوری عرب میں دنیا میں فروخت ہوتا ہے۔ دنیا کے دیگر خواتین میگزین کی طرح حجاب فیشن میں بھی خاندان، رشتوں، صحت، بیوٹی کیئر اور کھانا پکانے کی ترکیب جیسے موضوع شامل ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی مغربی آزادی نسواں کی علمبردار خواتین کے مضامین بھی شائع ہوتے ہیں۔ لیکن رسالے کی سب سے دلچسپ انفرادیت یہ ہے کہ اس میں مسلم خواتین کے لیے اسکارف و نقاب اور دیگر لباس کے رنگ برنگ فیشن پیش کیے جاتے ہیں مثلاً مراکشی کفتان، گلف کی عبائیں، سعودی برقعے اور دیگر مسلم ممالک کے خواتین کے لباس۔ اس کے علاوہ حجاب کے بے شمار فیشن اور قسمیں اس رسالے میں شائع ہوتی ہیں۔ حجاب کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
’ہفتہ حجاب‘ جو ہر سال لندن میں منایا جاتا ہے ۔ اس موقع پر فیشن شوز ہوتے ہیں جن میں دنیا بھر سے مرد و خواتین معتدل فیشن ڈیزائنرز شریک ہوتے ہیں اور حجاب اوردیگر اسی قسم کے ملبوسات کے نئے نئے نمونے پیش کرتے ہیں۔ نہ صرف اپنے پراڈکٹس کی فروخت کیلیے بلکہ حجاب کو فیشن ایبل اور مارکیٹ میں قابل قبول بنانے کے لیے بھی۔ پیش نظر یہ بھی ہوتا ہے کہ مغربی دنیا میں موجود حجاب سے متعلق منفی تاثر ختم کیا جائے کیوں کہ مغرب حجاب کو عورت کا استحصال سمجھتا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ رسالوں، فیشن شوز اور ویب سائٹس پر ایسے ملبوسات بھی پیش کیے جاتے ہیں، جو اسلامی تعلیمات کے برعکس ہوتے ہیں، مثلاً بھڑکانے والے شوق رنگوں اور ڈیزائین کے نقاب و اسکارف، چست فٹنگ کے پاجامے یا ایسے چست لباس جن سے عورت کے جسم کے نقوش واضح ہوں۔ یہ چیزیں مسلمانوں کے مذہبی قانون کے خلاف ہیں، جن کے مطابق عورت کو ایسا لباس پہننا چاہیے جس سے جسمانی ساخت پوشیدہ رہے اور اتنے شوخ و رنگ وار نہ ہوں جو لوگوں کومتوجہ کریں۔
تویہ تمام صورت حال کیا ظاہر کرتی ہے؟ یہ کہ حجاب ایک دلچسپ چیز ہے؟ اور کیا تمام مسلمان خواتین خوش ہیں کہ انہیں ایک اعلی مقام مل گیا ہے؟ کئی مصری خواتین ایک سماجی دباؤ کی بات کرتی ہیں جس میں اپنے خاندان، محلہ پڑوس یا دفاتر کے لوگوں کی نگاہوں سے بچنے کے لیے انہیں پردہ کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے مرد اس شرط پر شادی کرتے ہیں کہ عورت کو پردہ کرنا ہوگا۔ بہت سے مذہبی گھرانوں میں بیٹیاں پردہ کرنے پر مجبور ہوتی ہیں کیوں کہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپریشن نہیں ہوتا۔ اس مکالمے پر ایال ساگل کا مذکورہ مضمون اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
اس موضوع پر میں اپنے چند مشاہدات بھی قارئین کی نذر کرنا چاہوں گا۔ انٹرنیٹ اور کمیونی کیشن کی وسعت کی وجہ سے دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی۔ آج دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کی خبریں مجھے میرے لیپ ٹاپ یا اسمارٹ فون پر لمحہ بہ لمحہ مل رہی ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان نوجوانوں میں داڑھی اور مسلمان خواتین میں کسی نہ کسی شکل میں پردے کا رواج بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں امریکہ کے PEW ریسرچ سنٹر نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تیونس، مصر، ترکی، عراق، لبنا، پاکستان اور سعودی عرب میں مجموعی طور پر چار فیصد خواتین سر ڈھانپنا پسند نہیں کرتیں، ۱۲ فیصد دو پٹہ یا چادر لیتی ہیں جب کہ بقیہ نوے فیصد اسکارف یا نقاب لیتی ہیں۔ پاکستان میں دو فیصد سر ڈھانپنا پسند نہیں کرتیں، پانچ فیصد دو پٹہ لیتی ہیں جب کہ ۹۰ فیصد کی اکثریت کسی نہ کسی شکل میں حجاب کرتی ہے۔ ریسرچ میں حسب ذیل تفصیلی نقشہ پیش کیا گیا ہے:
ملک
اسکارف یا
نقاب میں (%)
دو پٹہ میں
(%)
ننگے سر (%)
تیونس
۶۲
۲۳
۱۵
مصر
۸۳
۱۳
۴
ترکی
۵۱
۱۷
۳۲
عراق
۸۷
۱۰
۳
لبنان
۳۹
۱۲
۴۹
پاکستان
۹۰
۸
۲
سعودی عرب
۹۲
۵
۳
تمام ممالک کا اوسط
۸۴
۱۲
۴
پابندیوں کی وجہ سے امریکی ایران میں سروے نہ کرسکے جہاں حجاب کا استعمال دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ یہ حجاب کی مقبولیت ہے جس نے کمرشل اداروں اور ایڈ ورٹائزنگ کمپنیوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ حجاب کو معاشرے کی دگر ضرورتوں کی طرح ایک ضرورت سمجھیں اور حجاب کرنے والی خواتین کی ضرورت کے مطابق پراڈکٹس مارکیٹ میں لائیں۔ مثال کے طور پر اینٹی ڈینڈرف شیمپو بنانے والی ایک کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اسکارف یا برقعہ پہننے والی خواتین کے لیے خصوصی شیمپو تیار کیا ہے۔ اب تو اشتہارات اور ڈراموں میں بھی خواتین کو حجاب میں پیش کیا جانے لگا ہے۔lll