حجاب کے ساتھ عہد نبوی میں خواتین کی عملی زندگی

ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

انسان کی معاشرتی زندگی میں ستر پوشی اور حجاب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ وہ انسانی خصوصیات ہے جو اسے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ خالق کائنات نے انسانوں کے اندر شرم و حیا کا جذبہ ودیعت کررکھا ہے جو اسے اپنے جسم کے قابلِ ستر حصوں کو چھپانے پر مجبور کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم ؑ اور حوا ؑ جنت میں لباس پہنے ہوئے تھے لیکن جب انھوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر منع کیے ہوئے درخت کا پھل چکھا تو ان کے ستر کھل گئے اور وہ درخت کے پتوں سے خود کو چھپانے لگے۔ (اعراف:۲۲) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سترپوشی انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ سترپوشی سے بے نیازی فطرت کے قانون کے خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

اسلام نے جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیا بالکل اسی طرح لباس کے کے سلسلے میں بھی احکامات دیے۔ سترپوشی کرنا مرد و عورت دونوں کے لیے ہے لیکن عورت کی جسمانی ساخت میں جو کشش قدرت نے دوسرے بہت سے مقاصد کی تکمیل کے لیے رکھی ہے اس کو چھپانا اور مردوں کی نظر سے محفوظ رکھنا زیادہ اہمیت کا متقاضی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کے اندر شرم و حیا، گریز اور احتیاط کی کیفیت مردوں سے زیادہ رکھی گئی۔ فقہی تفصیل کے مطابق :’’مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے (احناف کے نزدیک ناف ستر میں داخل نہیں ہے، جب کہ گھٹنا ستر میں داخل ہے) باندیوں کا ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے اور پیٹ، پیٹھ اور پہلو بھی ستر ہے۔ آزاد عورت کا ستر چہرہ، ہتھیلیوں اور پیروں کے سوا پورا جسم ہے۔‘‘

یہ وہ ستر ہے جس کا غیر کے سامنے ہی نہیں بلکہ تنہائی میں بھی بے وجہ کھولنا پسندیدہ نہیں۔ ترمذی میں ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرتؐ سے پوچھا: ’’اگر تنہائی میں ہوں اور کوئی دوسرا دیکھنے والا نہ ہو؟‘‘ فرمایا: ’’خدا تو دیکھتا ہے اس سے اور زیادہ حیا کرنا چاہیے‘‘۔

کوئی بھی سماج اسی وقت ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا جب کہ مرد و عورت مل کر سماج کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں۔نبی کریم ﷺ کا معاشرہ اس کی عملی تصویر ہے۔ اس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ دور نبوی میں عورت کو کس طرح آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا گیا تھا۔ اس معاشرے میں وہ اپنی صحت مند سرگرمیوں کے ساتھ پوری طرح متحرک نظر آتی ہے۔ حجاب کے ساتھ وہ سماجی، معاشرتی، معاشی، رفاحی کاموں، تعلیم و تربیت ، پاکیزہ تفریحات ، شادی بیاہ کی محفلوںیہاں تک کہ جہاد میں بھی مردوں کے ساتھ نظر آتی ہے۔ ان تمام سرگرمیوں میں میل جول کے اسلامی آداب کی قید کے علاوہ اور کوئی قید نہیں تھی۔

مساجد میں جانے کی آزادی:

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اپنی خواتین کو مسجد آنے سے مت روکو۔‘‘

عہدنبوی میں مسجد صرف عبادت کا مقام ہی نہیں بلکہ علم کا مرکز ، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا سنٹر، اجتماعات کی جگہ اور ضرورت کے وقت ورزش کا میدان بھی تھا۔ چنانچہ اس دور میں مسجد کے دروازے ہمیشہ خواتین کے لئے کھلے ہوتے تھے۔ عبادات میں شرکت کے علاوہ علمی محفلوں اور اصلاحی پروگراموں میں بھی عورتیں شریک ہوتی تھیں اور مسلمانوں کی سیاسی و سماجی خبروں سے وہ واقفیت رکھتی تھیں۔ آپﷺ کے دور میں خواتین مسا جدمیں جاتی رہیں اور نبی کریمؐ نے مسلمانوں کو انہیں روکنے سے منع کیا۔ حضرت عمرؓ کی ایک زوجہ عاتکہ اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر جماعت میں شریک ہوتی تھیںجب کہ عمرؓاس فعل کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن واضح فرمان رسولؐ کے بعد وہ مجبور تھے۔

نماز کے علاوہ خواتین اعتکاف، نبی اکرمؐ کے خطبات کو سننے، مسجد میں معتکف کی زیارت کرنے، زخمیوں کی تیمارداری کرنے اور مسجد کی خدمت کے لئے بھی مسجد میں آیا کرتی تھیں۔ عائشہؓ سے مروی ہے فرماتی ہیں :

’’میں ضرورت سے گھر میں داخل ہوتی تھی (یعنی دوران اعتکاف) گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو میں گزرتے ہوئے اس سے خیریت پوچھ لیتی۔۔۔‘‘

حضرت عبداللہ کی اہلیہ زینب فرماتی ہیں:

’’میں مسجد میں تھی، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ فرما رہے ہیں: ’’صدقہ کرو خواہ اپنے زیورات میں سے ہی کیوں نہ ہو…‘‘

مسجد میں معتکف کی زیارت۔ ام المومنین حضرت صفیہؓ سے روایت ہے: ’’رمضان کے آخری عشرہ میں رسول اللہؐ مسجد میں معتکف تھے، وہ آپؐ سے ملاقات کے لئے آئیں… ۔‘‘ (لمبی حدیث ہے)

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے: ’’غزوہ خندق میں حضرت سعد کے ہاتھوں کی شہہ رگ کٹ گئی۔ رسول اللہؐ نے قریب رہ کر تیمارداری کرنے کے لئے مسجد میں خیمہ نصب کرایا۔ مسجد میں بنو غفار کا خیمہ تھا، جب انھوں نے خون بہتے دیکھا تو گھبرائے اور کہا: یہ خون کہاں سے آرہا ہے؟ دیکھا تو حضرت سعد کے زخم سے خون جاری تھا اور اسی میں ان کا انتقال ہوگیا۔‘‘

ابن اسحاق کہتے ہیں: ’’رسول اللہؐ نے اپنی مسجد کے نزدیک رفیدہ کے خیمہ میں حضرت سعد کو ٹھہرایا۔ حضرت رفیدہ زخمیوں کا علاج کرتی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا انھیں اس کے خیمہ میں رکھو تاکہ میں قریب سے عیادت کروں۔‘‘

ساتھ ہی اس دور میں خواتین عمومی پروگراموں میں شرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مثلاً: شادی بیاہ کی تقریبات، عید کی نمازاور دعا میں شرکت، صحت مند تفریحات وغیرہ۔

l حضرت عائشہؓ نے فرمایا: بلاشبہ قریش کی خواتین بہت زیادہ فضل وکمال کی مالک ہیں، واللہ! میں نے انصار کی خواتین سے زیادہ بہتر کتاب اللہ کی تصدیق کرنے والا اور قرآن پر ایمان رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ سورۂ نور کی یہ آیت ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ﴾جیسے ہی نازل ہوئی ان کے مرد حضرات ان کی جانب سورۂ نور کی نازل شدہ آیات کی تلاوت کرتے ہوئے لوٹے، شوہر اپنی بیوی ، بیٹی، بہن، اور ہر رشتہ دار کو قرآنی آیات پڑھ کر سناتا، ہر ایک عورت نے نازل شدہ آیات کی تصدیق کرتے ہوئے اور ان پر ایمان لاتے ہوئے اپنی دھاری دار چادر نکالی اور اس سے اپنا سر اور منہ چھپالیا، صبح کے وقت تمام عورتیں باپردہ اور باحجاب ہوکر رسول اللہﷺ کے پیچھے نمازِ فجر ادا کر رہی تھیں گویا کہ ان کے سروں پر سیاہ پرندے ہوں۔‘‘ (تفسير ابن أبي حاتم حدیث نمبر:14406- (8 / 2575، تفسير ابن كثير، سورة نور، آيت: 31، سنن أبي داؤد: حديث نمبر: 4102 كتاب اللباس)

l حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ہم اپنی لڑکیوں کو عید کے دن عیدگاہ جانے سے منع کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک خاتون آئیں اور انہوں نے قصر بنی خلف میں قیام کیا، میں ان سے ملنے کے لئے حاضر ہوئی تو انہوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن کے شوہر نبی کریم ﷺ کے ساتھ بارہ غزوات میں شریک ہوئے ہیں، اور ان کی بہن بھی ان کے ساتھ چھہ غزوات میں ساتھ تھیں، وہ فرماتی تھیں: ہم مریضوں کی تیمار داری کیا کرتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو اور اس وجہ سے وہ عیدگاہ نہ جاسکے تو کیا اس پر کوئی حرج ہے؟آپﷺ نے فرمایا: اس کی سہیلی اپنی چادر اس کو اڑھا دے اور پھر وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔ (صحيح البخاري، حديث نمبر: 980، 324)

l حضرت عروہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ حضرتِ عائشہؓ نے ان کو بتایا کہ ’’مسلمان عورتیں اللہ کے رسولؐکے ساتھ فجر کی نماز میں اپنی اوڑھنیوں میں لپیٹی ہوئی شریک ہوتی تھیں، پھر نماز ادا کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو واپس آتیں تو تاریکی کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔‘‘ (صحيح البخاري، حديث نمبر: 578 (1 / 120)

معاشی زندگی

اسلام اگرچہ عورت پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ داری عائد نہیں کرتا ہے بلکہ اس کی تمام تر ضروریات کی تکمیل کے لئے شادی سے پہلے باپ یا ولی اور شادی کے بعد شوہر کو مکلف بناتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی عورتوں کو اسلامی حدود میں رہتے ہوئے کوئی بھی جائز ذریعہ معاش کو اپنانے کی اجازت دیتا ہے۔مسلم عورت تجارت کرسکتی ہے، صنعت و حرفت سے وابستہ ہوسکتی ہے اورکسی قابل احترام پیشے سے منسلک ہوسکتی ہے۔ اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اسے پیسے کمانے کی ضرورت ہی ہو۔ اگر ضرورت نہ بھی ہو اور عورت صلاحیت رکھتی ہو اور گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد ہو تو وہ محض صدقہ و خیرات اور اہلِ خاندان پر خرچ کرنے کی غرض سے بھی کوئی ذریعۂ معاش اختیار کرسکتی ہے۔ عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے عہد کے واقعات و حالات سے ہمیں اس کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں۔ البتہ گھر سے باہر نکلنے اور کام کرنے کے لئےاسلام نے جو اخلاقی حدود اور ضوابط دیے ہیں، جن میں التزام پردہ سرِ فہرست ، کا لحاظ کرتے ہوئے وہ ایسا کرسکتی ہے۔

عہد نبوی میں کسب معاش کی تگ و دو کی سب سے بڑی اور نمایاں مثال حضرت خدیجہؓ عنہا ہیں جو کہ ایک بہت بڑی تاجر تھیں۔ اسلام کی اولین empower یا بااختیار خواتین میں انہیں سرفہرست رکھا جاسکتا ہے جن کا شمار ’سابقون الاولون‘ میں ہوتا ہے اورجو خلق خدا میں سے سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون تھیں۔ وہ ایک صاحب ثروت اور تاجر خاتون تھیں۔ نبی کریمؐ سے نکاح میں آنے سے پہلے بھی وہ ’طاہرہ ‘ کے لقب سے جانی جاتی تھیں۔ وہ اپنا مال دوسرے ممالک میں بھیجتی اور وہاں کا مال منگواتیں۔ گویا موجودہ دور کے مطابق ان کا ایکسپورٹ، امپورٹ جیسا بزنس تھا۔ اپنے تجارتی لین دین میں ہی انہوں نے نبی کریمؐ کی خوبیوں کو پرکھا اور نکاح کا پیغام دیا۔ شادی کے بعد بھی وہ آزادی سے اپنے معاملات انجام دیتی رہیں اور وہ نبی کریمؐ کی سب سے بڑی طاقت بن گئیں اور ان کی تمام دولت رسول اکرمؐ کے کام آتی رہی۔ جس سال وفات ہوئی اسے آپؐ نے عام الحزن (غم کے سال) کا نام دیا۔ یہاں یہ بات ذہن میں ضرور رہنی چاہیے کہ حضرت خدیجہ ام المؤمنین اور زوجۂ رسول ہیں جو براہِ راست پردہ کے حکم کی مخاطب ہیں۔

حضرت حولاءؓ ایسی عطر فروش تھیں کہ وہ ’’العطارۃ‘‘ کے نام سے ہی مشہور ہوگئی تھیں وہ رسول اللہؐ کے خانہ مبارک بھی آتی تھیں اور عطر فروخت کرتی تھیں اور رسول اکرمؐ ان کے عطروں کی خوشبوئوں سے ان کو پہچان لیا کرتے تھے۔

حضرت ملیکہؓ جو مشہور صحابی حضرت سائب بن اقرع ثقفی کی ماں تھیں، عطر فروشی کا کام کرتی تھیں۔ ان کے فرزند حضرت سائب ثقفیؓ کا بیان ہے کہ ایک بار میری ماں ملیکہؓ رسول اکرمؐ کی خدمت میں عطرفروشی کے ارادے سے پہنچیں۔ رسول اکرمؐ نے بعد خرید ان سے ان کی حاجت و ضرورت کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے عرض کیا کہ حاجت تو کوئی نہیں لیکن میرے چھوٹے بچے کے لئے، جو ان کے ساتھ تھا، دعا فرما دیں۔ رسول اکرمؐ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی۔

کاشتکاری

حضورؐ کے عہد میں خواتین کھیتی باڑی کا کام بھی کرتی تھیں۔ حدیث میں آتا ہے حضرت جابرؓ کی خالہ مطلّقہ ہوگئیں اور وہ دوران عدّت اپنے کھجور کو توڑنے کے لئے نکلیں، ایک صحابی نے انہیں اس سے روکا تو وہ رسول اللہؐ کے پاس آئیں، اور آپؐ سے مسئلہ دریافت کیا، تو آپؐ نے فرمایا: ’’نکلو اور اپنے کھجور کو توڑو، امید کہ تم اس سے صدقہ یا خیر کا کام کر پائوگی۔‘‘

صنعت و حرفت

ام المومنین حضرت زینب بنت حجش ایک دستکار خاتون تھیں۔ وہ چمڑے کی دباغت کے فن کو جانتی تھیں۔ وہ طرح طرح کی چیزیں تیار کرتیں اور انہیں فروخت کر تی تھیں۔ اس پیسے کو وہ اللہ کی راہ میں خیرات کر دیا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے نبی کریمﷺ نے اپنی بیویوں سے فرمایا:

’’تم سب میں پہلے وہ مجھ سے ملے گی جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں، تو سب بیویاں اپنے اپنے ہاتھ ناپتیںتا کہ معلوم ہو کہ کس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں ہم سب میں زینب کے ہاتھ زیادہ لمبے تھے۔ وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرتیں اور صدقہ دیتیں۔‘‘

حضرت زینب بنت جحش کی دستکاری اور سخاوت و صدقہ سے متعلق بہت سے واقعات اور احادیث ہمیں ملتی ہیں۔ ام المؤمنین زینب بن جحش زوجۂ رسولؐ تھیں۔ جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝۳۲ۚ وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْرًا۝۳۳ۚ

ترجمہ: ’’نبیؐ کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑجائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔ اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘ (الاحزاب 32-33)

اور

وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ۝۰ۭ

ترجمہ: ’’(اے ایمان والو!) جب تم ان (ازواجِ مطہرات سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔‘‘(الاحزاب 32-33)

حضرت زینب ثفقیؓ جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی زوجہ تھیں اور زینب انصاریہؓ جو ابو مسعود انصاریؓ کی بیوی تھیں، ان دونوں کے شوہر نفقہ دینے سے عاجز تھے اور یہ دونوں خواتین اپنے ہاتھ کی کاریگری اور دستکاری سے چیزیں بنا کر فروخت کرتی تھیں اور اپنے شوہر اور دوسرے زیر کفالت لوگوں کا نفقہ اٹھاتی تھیں، اللہ کے رسولؐ نے ان کے نفقہ کو دہرے اجر کا باعث بتایا۔ ایک تو صدقے کا اجر اور دوسرے قرابت کا اجر۔

رضاعت

دورِ نبوی میں اور اس سے پہلے بھی ایک خالص نسوانی پیشہ رضاعت کا بھی تھا۔ زمانہ قدیم سے عرب سماج میں پیشہ ور مرضعات کا ایک طبقہ موجود رہتا تھا۔ حلیمہ سعدیہ ایک مشہور ترین مرضعہ ہیں جو نبی اکرمؐ کی رضاعی ماں تھیں۔ حضرت ثوبیہؓ بھی باقاعدہ مرضعہ تھیں جو مکہ مکرمہ میں یہ خدمت انجام دیا کرتی تھیں۔ حضرت ام بردہؓ رسول اکرمؐ کے بیٹے ابراہیمؓ کی رضاعی ماں تھیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سی خواتین پیشہ رضاعت سے وابستہ تھیں۔ ان پیشوں کے علاوہ بھی مسلم سماج میں بعض دوسرے پیشے بھی تھے۔ جو عورتوں سے متعلق تھے۔ اس لئے اس سے عورتیں وابستہ ہوا کرتی تھیں۔ جیسے قابلہ (دائیوں کا طبقہ)۔ حاضنہ (کمسن بچے بچیوں کی دیکھ بھال اور پرورش کے لئے ایک خاص طبقہ)۔

مومن خواتین کی یہ معاشی جدوجہد اس دور میں تھی جبکہ پردہ کا عام حکم نازل ہوچکا تھا۔ جو اس طرح ہے:

ترجمہ: ’’اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادورں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔‘‘(الاحزاب:59)

سماجی زندگی

عہدِ نبوی میں عورت کی سماجی زندگی کا ایک واقعہ دیکھئے: ایک بار چند خواتین نے اپنی ایک الجھن رفع کرنے کے لئے رسول کریمؐ کی خدمت میں ایک وفد حضرت اسماء بنت زیدؓ کی قیادت میں بھیجا۔اسماءؓ نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:

’’میں قاصد ہوں مسلمان خواتین کی ایک جماعت کی طرف سے جو میرے پیچھے ہے۔ سب کی سب وہی کہتی ہیں جو میں کہتی ہوں اور وہی رائے رکھتی ہیں جو میری رائے ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف بھیجا ہے۔ پس ہم سب آپؐ پر ایمان لائے اور آپؐ کی پیروی کی۔ لیکن ہم طبقہ نسواں کا یہ حال ہے کہ وہ پابند، پردہ نشین، گھر میں بیٹھی رہنے والی، مردوں کی خواہشات کی مرکز اور ان کی اولاد کو اٹھانے والی ہیں اور مردوں کو جمعوں میں شرکت اور جنازہ میں اور جہاد میں حصہ لینے کی بنا پر فضیلت دی گئی ہے۔ جب وہ جہاد پر جاتے ہیں تو ہم ان کے مال و اسباب کی حفاظت اور ان کے بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ تو کیا اے اللہ کے رسولؐ اجر و ثواب میں ہم بھی ان کے ساتھ شریک ہیں؟ ‘‘ رسول کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کی جانب اپنا رخ مبارک فرمایا اور پوچھا ’’کیا تم نے کسی عورت کو اپنے دین کے متعلق اس عورت سے زیادہ بہتر انداز میں سوال کرتے سنا ہے؟ صحابہ ؓ نے جواب دیا ’’قسم خدا کی! ہم نے نہیں سنا‘‘۔ اس کے بعد رسول کریمؐ نے اسماءؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’اسماءؓ! جائو۔ اپنے پیچھے جو عورتیں ہیں ان کو بتا دو کہ تمہارا اپنے شوہروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی رضا جوئی اور ان کے ساتھ موافقت کے لئے ان کی اتباع کرنا، ان سب خدمات کے برابر ہے۔ جس کا تم نے ابھی ذکر کیا ہے۔‘‘

ایک حدیث میں عورتوں کا ایک عورت کو نبیﷺ کی خدمت میں بھیجنے اور درخواست پیش کرنے کی روایت ملتی ہے۔ فرماتی ہیں:

’’آپ کی گفتگو اور وعظ و نصیحت سے مرد مستفید ہوتے ہیںلہٰذا آپ اپنے اوقات میں سے ہمارے لئے کوئی دن مقرر کیجئے جس میں ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ ہمیں وہ باتیں بتائیں ، جن کی اللہ نے آپ کو تعلیم دی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : اچھا تو فلاں دن تم لوگ فلاں جگہ جمع ہو جائو۔ چنانچہ وہ جمع ہوئیں تو حضورﷺ ان کے پاس گئے اور اللہ نے آپ کو دین سکھایا ہے اس کی آپ نے تعلیم دی۔‘‘

یہدونوں واقعات ایک طرف تو دورِ نبوی کی عورتوں کی دین سے محبت، علم کے شوق اور راہ خدا میں آگے بڑھنے اور اجرو ثواب کے متعلق فکر مندی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ عہدِ نبوی کی خواتین پردہ کی پابندی کرنے والی اور بلاضرورت گھروں سے نکلنے کا التزام کرنے والی تھیں۔

پہلے واقعے میں وفد کی قائد کا یہ کہنا کہ ’’ہم طبقہ نسواں کا حال یہ ہے کہ وہ پابند، پردہ نشین اور گھر میں رہنے والی….‘‘ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اس دور کی خواتین اپنی سماجی زندگی میں کس قدر پردہ کے حکم کی پابند تھیں۔

مسجد کی خدمت

ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں جھاڑو لگاتی تھی ان کا انتقال ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق دریافت کیا تو لوگوں نے کہا کہ ان کا انتقال ہو گیا، آپﷺ نے فرمایا : کیا مجھے بتایا نہیں ؟ مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔ آپﷺ اس کی قبر پرآکر نماز پڑھی۔

مہمانوں کی طعام و رہائش کا انتظام

حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ ام شریک ایک مالدار انصاری خاتون تھیں۔ راہ خدا میں کثرت سے خرچ کرتی تھیں۔ ان کے پاس مہمان ٹہرتے تھے۔

’’سہل بن سعدؓ ایک خاتون کا ذکر کرتے ہیں جو اپنی کھیتی میں پانی کی نالیوں کے اطراف چقندر کاشت کیا کرتی… اور جمعہ کے دن سہلؓ اور دیگر صحابہ کو چقندر اور آٹے سے تیار کردہ حلوہ کھلاتی تھیں۔‘‘

جہاد میں شرکت

شریعت اسلامی نے ریاست کے دفاع اور اس کی حفاظت کا بار اور ذمہ داری عورتوں پر نہیں ڈالی ہے لیکن اس کے باوجود دور نبوی کے واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ عورتوں نے نہایت ہی جوش و ولولہ اور ہمت وجرأت کے ساتھ جنگ میں شرکت کی۔ دین اسلام کو سر بلند دیکھنے کے لئے انھوں نے صرف اپنے شوہروں، بیٹوں، باپوں اور بھائیوں کی ہی قربانی نہیں دی بلکہ اپنی بساط اور حیثیت سے بڑھ کر اس میں براہ راست حصہ بھی لیا اوردشمنوں کا نہایت بہادری سے مقابلہ کیا۔ وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں، پانی بھر کر لاتیںاور انھیں پلاتیں اور زخمیوں کو اٹھا کر محفوظ مقام تک پہنچاتیں۔

انسؓ سے روایت ہے: ’’جنگ احد کے دن میں نے عاشہؓ اور ام سلیم ؓ کو دیکھاکہ وہ پنڈلیوں تک کپڑا ا کھینچے ہوئے تھیںکہ ان کی پازیبیں دیکھ رہی تھیں۔وہ اپنی پیٹھوں پر مشکیں بھر بھر کر لاتیںاور لوگوں کو پلاتیں۔‘‘

صرف یہی نہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر وہ باضابطہ جنگ میں حصہ بھی لیتی تھیں۔ حضرت ام عمّارہؓ انھیں خواتین میں سے ایک ہیں۔ جنگ احد میں جب جنگ شدت پر تھی تو ام عمارہؓ رسول کریمؐ کے سینہ سپر بن گئیں۔ وہ تیر اور تلوار سے ان حملوں کو روک رہی تھیں۔ رسول کریمؐ کی مدافعت میں انھوں نے جس شجاعت و بہادری اور سرفروشی کا مظاہرہ کیا تھا اس کے متعلق رسول اکرمؐ نے خود اپنی زبان مبارک سے ان الفاظ میں سراہا:

’’دائیں بائیں جس طرف بھی میں نے رخ کیا۔ ام عمارہؓ کو میری مدافعت میں لڑتے دیکھا۔‘‘۔

ان کے علاوہ ام حکیمؓ، اسماء بنت یزیدؓ، ام حارثؓ انصاریہ، صفیہ بنت عبدالمطلب، لیلیٰ الغفاریہ، ام سلیطؓ، حضرت حتساءؓ، حضرت عائشہؓ ، حضرت فاطمہؓ اور بہت سی صحابیات نے جنگ میں شرکت کی اور رضا کا رانہ خدمات انجام دیں۔

حضرت انسؓ کی روایت سے یہ صاف ظاہر ہے کہ جنگ کے میدان میں بھی صحابیات اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپے ہوئی تھیں اور حالتِ جنگ میں بھی ان کی پنڈلیوں سے نیچے کا حصہ جس میں وہ پازیب پہنے ہوئے تھیں، ہی ایسا تھا جو نظر آرہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جسم کے باقی حصے پوری طرح چھپے ہوئے تھے۔

دورِ نبوی کی حجاب کے ساتھ خواتین کی ہمہ جہت عملی زندگی کی جو مثالیں پیش کی گئی ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ:

(1) مسلم خواتین یہ جان لیں کہ عہدِ نبوی کی خواتین کا ایک ہمہ جہت رول ہا ہے اور رسولِ پاکؐ نے طبقۂ نسواں کو حقیقت میں اس ہمہ جہت رول کے لیے تیار کیا تھا۔ آج کی عورت اور خصوصاً مسلم عورت بھی خود کو اس رول کے لیے تیار کرے اور اسے کرنا چاہیے جو صحابیاتِ رسول کا رہا ہے۔

(2) صحابیات نے یہ ہمہ جہت رول اللہ اور رسول کے حکم پردہ کے ساتھ انجام دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم عورت پردہ کے التزام کے ساتھ ایک ہمہ جہت زندگی گزار سکتی ہے اور بے شمار ایسے کارہانے نمایاں انجام دے سکتی ہے جس کے بارے میں لوگ سوچ بھی نہیں سکتے جیسا کہ امِ عمارہؓ کے واقعے سے ثابت ہوتا ہے۔

(3) پردہ مسلم خاتون کی ترقی اور اس کے ہمہ جہت رول کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ اس کے اندر عزم اور حوصلہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر خوداعتمادی اور تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی پردہ کا التزام کرنے والی بے شمار خواتین عالمی شہرت کے مقام تک پہنچیں اور دنیا نے ان کی عظمت اور ان کے کاموں کی اہمیت کو تسلیم کرکے عزت و اکرام دیا ہے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں