حجاب کے سلسلے میں تشکیک کا ازالہ

ڈاکٹر محی الدین غازی

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لفظ کی بحث میں لوگ اس طرح الجھ جاتے ہیں کہ حقیقت گم ہوجاتی ہے۔ حجاب کی بحث میں بھی ایسا ہی کچھ پیش آیا۔

بحث حجاب ( Head scarf )کے حوالے سے ہوئی اور اس کا زیادہ تر رُخ چہرہ ڈھانپنے، یعنی نقاب (veil)کی طرف رہا۔ حالاں کہ مسئلہ چہرہ ڈھانپنے کا تھا ہی نہیں، مسئلہ تو سر ڈھانپنے کا تھا۔

ہم بھی یہاں چہرے کی نقاب کے بارے میں بات نہیں کریں گے، کیوں کہ وہ ابھی زیرِ بحث ہے ہی نہیں۔ ہم یہاں سر ڈھانپنے کے بارے میں بات کریں گے، جسے حجاب کا نام دیا گیا ہے۔

بعض لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ قرآن میں حجاب کا ذکر اللہ کے رسول ﷺ کی ازواج مطہرات کے سلسلے میں آیا ہے، اس لیے اسے ان کے ساتھ ہی خاص ماننا چاہیے۔ یہ بات تو درست ہے کہ قرآن مجید میں لفظ ’حجاب ‘ کا ذکر امہات المومنینؓ کے حوالے سے آیا ہے۔ لیکن دو باتیں درست نہیں ہیں۔

ایک بات یہ کہ حجاب کے لفظ کے ساتھ جو بات قرآن مجید میں آئی ہے، وہ امہات المومنین کے ساتھ خاص ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ بات سب کے لیے ہے۔

دوسری بات یہ درست نہیں ہے کہ اس آیت میں حجاب سر ڈھانپنے کے لیے آیا ہے۔ اس آیت میں تو حجاب کا لفظ اوٹ کے معنی میں ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اگر کسی کو ازواج مطہرات سے کوئی بات کرنی ہے تو اوٹ میں رہ کر بات کرے، بالکل سامنے نہ آجائے۔ آیت اور اس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّآ اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰىہُ۝۰ۙ وَلٰكِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْـتَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيٖ مِنْكُمْ۝۰ۡوَاللہُ لَا يَسْتَحْيٖ مِنَ الْحَقِّ۝۰ۭ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ۝۰ۭ وَمَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُــؤْذُوْا رَسُوْلَ اللہِ وَلَآ اَنْ تَنْكِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖٓ اَبَدًا۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللہِ عَظِيْمًا۝۵۳ (الاحزاب: 53)

ترجمہ:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں نہ داخل ہو، الا یہ کہ تمھیں اس کی اجازت دی جائے، کھانا کھانے کے لیے۔ اور پہلے سے بیٹھ کر کھانا تیار ہونے کا انتظار نہ کرو، اور جب تمھیں کھانے کے لیے بلایا جائے تو آؤ اور جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو تمھارا یہ طرز عمل نبی کے لیے تکلیف دہ ہے۔ مگر وہ تم سے شرماتے ہیں، مگر اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا ۔ نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو،اس میں تمھارے بھی دلوں کی پاکیزگی ہے اور ان کے دلوں کی بھی۔ تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف پہنچاؤ، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘

اس آیت میں عام مسلمانوں کو ہدایت دی گئی کہ نبی ﷺ کی بیویوں سے کوئی بات کرنی ہو تو اوٹ میں رہ کر کریں اور اس ہدایت کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ’’اس میں تمھارے بھی دلوں کی پاکیزگی ہے اور ان کے دلوں کی بھی۔‘‘ ظاہر ہے کہ دلوں کی پاکیزگی صرف ان لوگوں کی ضرورت نہیں ہے جو ازواج مطہرات سے بات کریں اور نہ خواتین میں صرف ازواج مطہرات کی ضرورت ہے۔ یہ تو ان سے کہیں زیادہ ہر مرد اور ہر عورت کی ضرورت ہے۔

معلوم یہ ہوا کہ قرآن مجید میں حجاب کے لفظ سے جو حکم ہے وہ سر ڈھانپنے کا نہیں بلکہ اوٹ سے بات کرنے کاہے، اس کی علت دلوں کی پاکیزگی ہے، اس لیے وہ سب کے لیے ہے۔

اب اس کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ سر ڈھانپنے کا حکم قرآن مجید میں ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کس کے لیے ہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ قرآن میں سر ڈھانپنے کا حکم ہے اور وہ تمام عورتوں کے لیے ہے۔ اس کے لیے درج ذیل آیت جامع رہنمائی کرتی ہے:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰي جُيُوْبِہِنَّ۝۰۠ — وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِہِنَّ۝۰ۭ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ جَمِيْعًا اَيُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۳۱ [النور: 31]

ترجمہ: ’’اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں… اور وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ اے مومنو، تم سب مل کر اللہ کی طرف رجوع کرو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔‘‘

آیت کے یہ مختصر جملے لباس کے سلسلے میں جامع اور مکمل رہنمائی کرتے ہیں۔اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ عورت کا لباس سر سے پاؤں تک ہے۔ یہ بتانے کے لیے ایک نہایت بلیغ اور قوی اسلوب اختیار کیا گیا۔ وہ یہ کہ یہ مانتے ہوئے کہ سر کو ڈھانپنے والا کپڑا تو لباس کا حصہ ہے ہی، اور ہر مومن عورت اپنا سر ڈھانپتی ہی ہے، لباس کی مزید وضاحت کی کہ سر کی اوڑھنی (خمار ) گردن کو بھی ڈھانپے اور لباس میں ملبوس سینے کو بھی۔پھر آیت کے آخر میں یہ مانتے ہوئے کہ مومن عورتوں کا لباس ٹانگوں کو تو چھپاتا ہی ہے، یہ تعلیم دی گئی کہ عورتیں اس طرح پاؤں مار کر نہ چلیں کہ پوشیدہ زینت کی لوگوں کو خبر ہوجائے۔ اس طرح ایک ہی آیت میں سر سے پاؤں تک کے لباس کا ذکر ایک مسلّمہ کی حیثیت سے کردیا گیا۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ تم اوڑھنی سے سر تو ڈھانپتی ہی ہو، لیکن اس پراکتفا کرنے کے بجائے اس سے گردن اور سینہ بھی چھپاؤ، اور تم ٹانگیں تو مستور رکھتی ہی ہو، مگر ایسے نہ چلو کہ ٹانگوں کے لباس میں پوشیدہ زینت کا لوگوں کو پتہ چل جائے۔ یہ اسلوب بہت مضبوط قسم کی دلیل شمار ہوتا ہے۔کیوں کہ اس اسلوب میں اس چیز کا حکم دینے کے بجائے، اسے ایک موجود حقیقت مان کر اس کی بنیاد پر مزید احکام دیے جاتے ہیں۔

آیت میں سر، گردن اور سینہ ڈھانپنے کی بات بھی مذکور ہے اور ٹانگیں مستور رکھنے کی بھی بات ہے۔جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ باقی جسم تو مستور رکھنا ہی ہے۔

قرآن مجید میں سر ڈھانپنے کے لیے حجاب کا لفظ تو استعمال نہیں کیا ہے، لیکن خمار کا لفظ استعمال کیا ہے۔ خمار کہتے ہی ہیں سر کی اوڑھنی کو۔ بہت سی جگہوں کی طرح عرب میں بھی یہ رواج تھا کہ اوڑھنی سے سر ڈھانپتے ہوئے اسے پیچھے کی طرف لٹکادیا جاتا۔ اس میں ایک سہولت سی تو رہتی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی ہوتا ہے کہ گردن اور سینے کا پردہ نہیں ہوپاتاہے۔ قرآن مجید میں اس رواج کی اصلاح کی گئی اور یہ کہا گیا کہ سر کی اوڑھنی کو سینے پر رکھو تاکہ سر، گردن اور سینہ سب کا پردہ ہوجائے۔ سینہ تو کُرتے میں ملبوس ہوتا ہی ہے، لیکن پھر بھی ضرورت رہتی ہے کہ اوپر سے کوئی کپڑا اسے مزید مستور کرے۔

معلوم یہ ہوا کہ قرآن مجید نے لباس اور پردے کے سلسلے میں عرب کے رواج کو جوں کا توں قبول نہیں کیا،بلکہ اس رواج کے قابلِ اصلاح پہلوؤں کی اصلاح کی۔

اس کے بعد یہ کہنا غلط ہوجاتا ہے کہ پورے جسم کو مستور رکھنے والا لباس پہننا اور سر ڈھانپنا عرب کا رواج ہے، وہ دین کی تعلیم نہیں ہے۔ اسے رواج کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے شریعت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔

اگر قرآن مجید ایسے علاقے میں نازل ہوتا جہاں سر اور ٹانگوں کو کھلا رکھنے کا رواج ہوتا، تو ضرور اس رواج کی اصلاح کرتا اور یہ حکم دیتا کہ سر سے پاؤں تک پورا جسم مستور رہنا چاہیے۔

ظاہر ہے کہ جب قرآن مجید نے سر ڈھانپنے اور کرتا پہننے لیکن گردن کھلی رکھنے اور سینے پر اوڑھنی نہیں ڈالنے والے رواج کو قبول نہیں کیا تو وہ ایسے رواج کو کیسے قبول کرسکتا ہے جہاں سر کھلا رکھا جاتا ہو۔

یہ بھی ظاہر ہے کہ جب قرآن مجید نے یہ گوارا نہیں کیا کہ ٹانگیں تو لباس میں پوشیدہ رہیں، مگر غلط چال کی وجہ سے پائل کی آواز لوگوں کو متوجہ کرے، تو وہ یہ کیسے قبول کرسکتا ہے کہ پوری ٹانگیں ہی کھلی رہیں۔

غرض نہ تو یہ کہنا درست ہے کہ سر ڈھانپنے کا حکم ازواج مطہرات کے ساتھ خاص تھا، اور نہ ہی یہ کہنا صحیح ہے کہ سر ڈھانپنا عرب کے رواج کا معاملہ ہے ، وہ اسلامی شریعت کا حصہ نہیں ہے۔ اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ سر ڈھانپنا شریعت میں فرض نہیں بلکہ محض پسندیدہ ہے۔ کیوں کہ قرآن مجید کی رو سے سر ڈھانپنا جسم کے لباس کا ایک حصہ ہے، اور لباس کے سلسلے میں دین میں بہت تاکید ہے اور بے لباسی کے بارے میں وعیدیں ہیں۔

علمائے سلف کی طرف رجوع کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ چہرے اور دونوں ہاتھوں کے علاوہ پورے جسم کو مستور رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں کسی بھی اختلاف کا ہمیں کسی بھی علاقے یا زمانے میں ذکر نہیں ملتا۔ اس لباس پر پوری امت کا متواتر عمل رہا ہے۔ خواہ وہ اسلامی یوروپ ہو، اسلامی افریقہ ہو، یا اسلامی مشرقی علاقے ہوں۔کسی بھی جگہ کے مسلمانوں نے اس کی دینی اہمیت کو کم نہیں کیا اور کسی نے بھی اسے شریعت کے بجائے ثقافت کے مسئلے کے طور پر نہیں لیا۔

مسلمانوں نے یوروپ کے اسپین (اندلس) کو فتح کیا اور وہاں صدیوں بسے رہے۔ آپ اندلس کے علما کے بیانات پڑھیں۔ مسلمانوں نے یوروپ کے استنبول کو فتح کیا اور اسے اپنا وطن بنایا۔ اسلام افریقہ، ایران، ہندوستان اور چین پہنچا۔ ان سب علاقوں کے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ جہاں تک لباس کی صورت شکل ہے، انھوں نے عربی لباس کو اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے یہاں رائج لباس کو اختیار کیا۔ لیکن جہاں تک لباس کے ضابطوں کی بات ہے انھوں نے اپنے یہاں رائج ثقافت وکلچر کی پروا نہیں کی اور ان ضابطوں کو اختیار کیا جو قرآن وسنت اور امت کے اجماعی عملی تواتر سے انھیں ملے تھے۔ کسی علاقے کے کسی فقیہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اجنبی مردوں کے سامنے عورت سر کھلا رکھ سکتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ سر ڈھانپنا اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے۔وہ ہر زمانے اورہر علاقے کی تمام مسلم خواتین کے لیےہے اور اس کی حیثیت ہمیشہ سے فرض کی رہی ہے اور رہے گی۔

عورت کے لیے سر ڈھانپنا قرآن وسنت میں منصوص حکم ہے، اجتہادی مسئلہ نہیں ہے کہ اس کے سلسلے میں کوئی نیا اجتہاد کیا جائے۔ وہ ٹھوس اخلاقی بنیادوں پر قائم آفاقی حکم ہے، کسی خاص زمانے، یا علاقے یا ثقافت وکلچر سے متعلق نہیں ہے کہ اس میں تبدیلی کی بات کی جائے۔اس کا تعلق فرائض سےہے، آداب ومستحبات سے نہیں ہے کہ اسے اختیاری سمجھا جائے۔

اس پر تو اختلاف ہوسکتا ہے اور ہے بھی کہ تعلیم کے عمل میں یونیفارم کی ضرورت ہے یا نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر تعلیم نہایت ضروری ہے تو یونیفارم کا اس سے تعلق محض ایک اضافی اور جمالیاتی لاحقے کا ہے۔ اس کے بغیر بھی تعلیم کا عمل بحسن و خوبی انجام دیا جاسکتا ہے اور دیا جاتا ہے۔ لیکن اس پر تو کوئی اختلاف ہی نہیں ہے کہ اسلام میں عورت کے لیے سر ڈھانپنا فرض ہے، ضروری ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146