رضیہ مشکور صاحبہ کاخط
’’حجاب اسلامی‘‘ کے پرچے ہمیں یہاں مل رہے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے بہت خوشی ہوتی ہے رسالہ دیکھ کر۔ صد شکر کہ حجاب کی جو روایت تھی وہ نہ صرف یہ کہ برقرار رہی بلکہ اس کے معیار کا خیال رکھنا بجائے خود محنت طلب تھا۔ جب میں یہ رسالہ آپ کے حوالے کرکے آئی تھی تو میری امیدیں بہت حوصلہ افزا نہیں تھیں، میری فکر یہ تھی کہ کیا حجاب کا مکمل سیٹ اپ اور کل اختیار صحیح ہاتھوں میں سونپ رہی ہوں؟ مگر اب مجھے کوئی فکر نہیں کہ حجاب اسلامی اپنی راہوں کا تنہا مسافر نہیں ہے اس کے ہمسفر بہت محنت کرنے والے ہیں۔ بس اس جگہ آپ کو ایک مشورہ دینا چاہتی ہوں کہ ’’جس مشن کے ساتھ آپ نے اسے شروع کیا ہے اسے مشن کی صورت ہی قائم رکھئے گا، پروفیشنل مت کیجیے گا۔ورنہ اس کا مقصد فوت ہوجائے گا۔‘‘
جب سے امریکہ آئی ہوں مسلسل پہ در پہ اس مادی دنیا کی سحر انگیزیوں نے مجھے ذہنی طور پر مکمل طور پر بوکھلا کے رکھ دیا تھا۔ اب چند ماہ قبل میں نے خود کو بڑی مشکل سے سمیٹا اور سودوزیاںسے آزاد ہوگئی۔ اب قدرے بہتر محسوس کررہی ہوں، اس پورے عرصے میں، میں صرف ابو (مرحوم ڈاکٹر ابن فرید) کے بارے میں چند ذاتی تاثرات اور اپنے ذاتی حالات ہی رقم کرسکی۔ پچھلے چند سالوں میں کیا پایا کیا کھویا؟ اور بس۔
جہاں تک میرے علم میں ہے ابو بھی مستقل سالنامے اور خصوصی شمارے نکالتے رہے تھے۔ جولائی ۲۰۰۱ء میں جب حجاب کو بند کرنے کافیصلہ کیا تھا اس وقت بھی امی ابو ’’بیٹی اور بہو‘‘ کی اہمیت، تعلیم و تربیت کے موضوع پر خصوصی شمارہ نکالنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ بلکہ مجھے فورس کررہے تھے کہ یہ ذمہ داری تم سنبھالو۔ اس خصوصی شمارے کو سال کے آخری شمارے کی حیثیت سے شائع ہونا تھا۔ مگر ابو کی صحت اور دیگر خانگی امور نے مہلت ہی نہ دی۔ اب آپ کے بھیجے ہوئے خاکہ پر جو نظر ڈالتی ہوں تو بے اختیار پچھلا منظر تازہ ہوجاتا ہے۔ اللہ ہمت و حوصلہ عطا فرمائے اور آپ کی راہ آسان کرے۔
رہی مضمون کی درخواست تو یقینا میں ایک کا تو وعدہ کرتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں ’’بہن، بیٹی اور بہو‘‘ کے موضوع پر کوشش کرسکتی ہوں۔ دوسرے کا وعدہ نہیں کرتی کوشش ضرور کرسکتی ہوں مگر آپ ایک ہی مان کر چلئے۔
بحر حال آپ یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں جو ایک لمبے عرصے کے بعد حجاب کو مستقل طور پر دو سال سے شائع کرنے کا حوصلہ کرپائے۔ آپ کا کہنا ٹھیک ہے آج اگر ابو حیات ہوتے تو بہت خوش ہوتے اور اپنے مشوروں سے حجاب اسلامی میں چار چاند لگا دیتے۔ اللہ کی مرضی، صبر کے سوا چارہ نہیں۔
رضیہ مشکور،برلنگٹن (امریکہ)
بہترین رسالہ
مجھے ایسا لگتا ہے کہ عصر حاضر میں فحش رسالوں کے اس ہجوم میں ایک ایسا بھی رسالہ ہے جو الٰہی احکامات اور سنت رسولؐ کی روشنی میں خواتین کی رہنمائی کرتا۔ اور خواتین ِکے لیے آخرت کا سامان مہیا کراتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ جو مضمون شائع کریں ان کو تصاویر، ڈایگرام اور خاکوں سے سجا کر مضمون کی اہمیت کو بڑھائیں۔ جیسے اگست ۲۰۰۵ء میں مضمون ’’وقت قدرت کا ایک انمول عطیہ‘‘ ۔ مجھے بہت زیادہ پسند آیا۔ اگر اس میں وقت کی اہمیت کو تصاویر کے ذریعہ سے بتایا جاتا تو مضمون کی اہمیت اور بڑھ جاتی۔
ارشاد خاں، امراوتی
کارآمد پرچہ
میں حجاب کی قاری ہوں۔ ماشاء اللہ آپ کا پرچہ بہت عمدہ، صاف ستھرا اورپاکیزہ، خواتین و طالبات کی تربیت کے لیے نہایت مفید اور کارآمد ہے۔ مجھے اور ہمارے گھر کے سبھی افراد کو حجاب بے حد پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حجاب ہمیشہ ’’دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے۔‘‘ اللہ کا شکر ہے کہ حجاب ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور خواتین اور طالبات بھی اس کی ترقی کے لیے تعاون کررہی ہیں۔
آفرین صبا
ٹائٹل پر قرآنی آیات
ماہنامہ حجاب اسلامی میں سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے مضامین بہت پسند آرہے ہیں۔ ان کی تحریریں برابر ملتی رہیں تو قارئین کو فائدہ ہوگا۔ میرا ایک مشورہ یہ ہے کہ ٹائٹل پر قرآنی آیات نہ چھاپیں۔ اس سے قرآن کا احترام باقی نہ رہنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
ہاشمی سید شعیب،آزاد نگر، اُدگیر
مسائل کا کالم
شمارہ ستمبر ۲۰۰۵ء کا ملا۔ بھرپور مطالعہ میری عادت ہے۔ اس شمارہ میں خاص طور پر پسند آیا ’’گھریلو نسخے امراض اور بچاؤ کی تدابیر، پکوان، بچوں کی تربیت کے نفسیاتی پہلو، ڈریس کوڈ وغیرہ۔‘‘ اداریہ سبق آموز اور عقمل مند قاضی معلوماتی مضمون ہے۔
’’مسائل اور ان کا حل‘‘ ایک کالم شروع ہونا چاہیے۔
سلطانہ خانم، بھاگلپور
دعوت دین
اداریہ، دینیات، سیرت صحابیات غرض مستقل کالم سب کے سب اہمیت کے حامل ہیں۔ بزم حجاب میں صائمہ عابدی، شمع پروین اور غلام رسول دیشمکھ تینوں قلم کاروں نے اچھا لکھا ہے۔ تاریخ کے صفحات مفلس گورنر، مزاحیہ، انٹرویو اور ڈریس کوڈ بھی معلوماتی رہے۔ دوسرے تمام مضامین بھی اہم ہیں۔
دعوت کی اہمیت اور زبان کے مقام و مرتبہ پر قارئین کرام سے گذارش ہے کہ ہم دینی زبان عربی، مادری زبان اردو یا جو بھی ہو، ملکی زبان ہندی کے ساتھ بین الاقوامی زبان انگلش پر بھی توجہ دیں اور اپنے گھر کے بچوں کو بھی چاروں زبانوں سے واقف کرائیں۔ ہمارے گھر میں دعوتی موضوع پر چاروں زبانوں اور مقامی زبان میں اسلامی لٹریچر ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم چاروں زبانوں میں دعوتِ دین کی اہمیت کی حامل پرچوں کے مستقل خریدار بنیں۔ پرچوں کو پڑھیں اور دعوتی استعمال کے تحت دوسروں کو دیں۔ ہمیں زبان کی لڑائی نہیں لڑنی ہے بلکہ ہر زبان کے لوگوں تک دین پہنچانا ہے۔ اس کی کوشش ہر سطح پر ضروری ہے۔
مستحق الزماں خان، سمستی پور
مضامین پسند آئے
ادھر کئی مہینوں سے میں ماہ نامہ حجاب اسلامی کا مطالعہ برابر کرتی رہتی ہوں۔ سچ پوچھئے تو اس پرآشوب و پرفتن دور میں ہمارے لیے یہ ایک مشعلِ راہ سے کم نہیں ہے اور اس کے ذریعہ اسلام کی بڑی اچھی خدمت و ترجمانی ہورہی ہے۔
درحقیقت مردوں کے لیے ہندوپاک سے سیکڑوں رسالے اور میگزین شائع ہورہے ہیں لیکن عورتوں کے لیے اس طرح کے رسالے پورے بر صغیر میں نادر الوجود اور کمیاب ہیں۔
حجاب اسلامی جون ۲۰۰۵ء کے رسالے میں ’’عریانیت توہین انسانیت‘‘ بہن بشریٰ ناہید اور ایس امین الحسن صاحب کا مضمون ’’خوشگوار مستحکم رشتے‘‘ ہر اعتبار سے بہت پسند آئے۔ مجموعی اعتبار سے یہ رسالہ بہت خوب ہے اللہ اس کو اور زیادہ معیاری بنائے۔ آمین!
ام حسان قاسمی، اعظم گڑھ
اگست کا شمارہ
حجاب اسلامی سے میرا تعارف اپریل کے شمارے سے ہوا۔ اسے اوروں سے مختلف پاکر مزید مطالعے کی خواہش ہوئی۔ ہر بار اس میں ایک بات تو ایسی دل چھونے والی پڑھنے کو مل جاتی ہے جس سے ہم غافل ہوتے ہیں۔ خیر اس بار اگست کے شمارے کے مطالعے نے میری آنکھیں نم کردیں۔ عمرانہ کیس پر اٹھائے گئے سوالات پر اداریہ قابل غور تھا۔ عائشہ اور حمیرہ کو ان کی عظیم الشان کامیابی کے لیے خصوصی مبارکباد۔ ان کے جیسی قابل اور ہونہار طالبات کی کامبیوں کی بنا پر ہم فخر سے کہہ سکیں گی ’’ہم بھی کسی سے کم نہیں‘‘۔ شادماں پروین کی قابل تعریف تحریر شکر کی فضیلت مجھے بے انتہاپسند آئی۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی اپنے اندر بڑی بڑی فضیلتیں رکھتی ہیں۔ اقبال اور مسولینی کی معلوماتی ملاقات خوب رہی۔ باقی مضامین بھی دلچسپ تھے۔
ثمینہ مرزا، آکولہ
ملت کی خواتین سے!
آج کا معاشرہ اور خصوصاً مسلم معاشرہ اسلامی اخلاق و اقدار سے اتنا دور ہوتا جارہا ہے کہ آج کے مخلوط معاشرہ میں اسلام کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہ گیا ہے یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ اسلام جیسا دین حق اور نعمت عظیم کے ہوتے ہوئے بھی ہم اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں غیر ضروری کاموں میں صرف کررہے ہیں اور ایسے کاموں میں صرف کررہے ہیں جن سے کوئی فائدہ نہ ہماری ذات کوہے، نہ معاشرے کو نہ ملک و ملت کو ہوپا رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی بھی ملت و معاشرے کی اصلاح و فلاح اور اس کی صحت کا دارومدار اس بات پر موقوف ہے کہ اس ملت کی خواتین کا اسکی تعمیر و ترقی میں کتنا رول ہے۔ حجاب اسلامی اس سمت میں ایک حقیقی اور منفرد تحریک ہے یہ معاشرہ اور ملت کی اس ضرورت کو پورا کرنے میں اہم رول ادا کررہا ہے۔ تمام مسلم بہنوں سے میرا التماس ہے کہ حجاب اسلامی کو ہر فرد اور گھر گھر تک پہنچانے میں مدد کریں یہ اجر عظیم ان کے لیے فلاح آخرت کا ضامن ہوگا۔
رابعہ رڑکوی، مظفر نگر
رسالہ پسند ہے
میں ماہ نامہ حجاب کی نئی قاری ہوں، پانچ چھ ماہ سے اس کا مطالعہ کررہی ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ اتنا عرصہ اس سے بے خبر کیسے رہی۔ مجھے یہ رسالہ بہت پسند ہے۔ گھر کے سبھی افراد اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اتنا معیاری رسالہ نکالنے پر میں آپ کو مبارکباد دیتی ہوں۔ یہ ایک مکمل رسالہ ہے۔ گھر کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے بھی انسان ساری دنیا کی معلومات جمع کرسکتا ہے۔
مسعودہ عبدالمجید انڈیکر، رائے گڑھ