ناراضگی ختم کرنے کے لیے؟
میں آپ لوگوں سے بہت بہت ناراض ہوں۔ میں نے تقریباً ۵ ، ۶ خط لکھے، ہمیشہ کی طرح جواب ندارد۔ میں جانتی ہوں کہ میرے تمام خطوط نقطہ آغاز سے آخر تک سر تا پیر خامیوں سے لبریز تھے۔ کہاں گوہر نایاب انمول رسالہ اور کہاں میرے خطوط کہ انھیں جگہ ملے۔ آپ کے رسالے کے بارے میں ایک رائے رکھتی ہوں کہ یہ رسالہ بھی دیگر رسالوں کی طرح معیاری طرز رکھتا ہے۔بزم حجاب اور دوسرے کالم میں صرف ان کو شامل کرتے ہیں جو آپ کے لیے زیادہ شناسا ہیں۔ اس طرح کسی کو خوشی ہوتی ہے کوئی بدگمان رہ جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں ایک بار پھر خط بھیج رہی ہوں۔
نکہت
]امید ہے کہ آپ کی ناراضگی دور ہوگئی ہوگی۔ آپ حجاب کے مختلف کالموں پر اپنے تبصرے بھیجتی رہیں۔ لیکن اپنا پورا پتہ دینا نہ بھولیں۔[
غزلیں محدود ہیں؟
حجاب اسلامی کافی ستھرا اور پاکیزہ جذبوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ غزلوں کا معیار کافی اچھا ہے، لیکن محدود ہے۔ کم از کم ہر شمارہ میں دس یا بارہ غزلیں ہونی چاہئیں۔
محمد اقبال سالک،مہا پرل، رتناگیری
پہلے ہی تعارف میں
ماہِ اگست کا رسالہ حجاب اسلامی ہاتھ لگا۔ پہلی مرتبہ حجاب سے تعارف ہوا۔ حجاب میں شائع تمام مضامین اپنے اندر بے شمار معلومات کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہیں۔ اس انمول رسالے سے میری معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ایس امین الحسن اور سعادت حسینی کے مضمون بہت پسند آئے۔
سلمیٰ آفرین، ملیہ کالج، بیڑ، مہاراشٹر
ایک اور کالم شروع کریں
میرا حجاب اسلامی سے تعارف ماہ اگست کے شمارے سے ہوا ہے۔ اور میں حجاب اسلامی کے قارئین میں شمار ہونا چاہتی ہوں۔ ابھی میں نے ماہ اکتوبر رسالے کا بھی مطالعہ کیا۔ اس شمارے میں شائع شدہ آمنہ خاتون کا انٹرویو متاثر کن رہا ۔ اس انٹرویو سے ایک نصیحت ملی کہ ’ نا امیدی کفر ہے‘ یعنی خدائے تعالیٰ کو ناراض کرنا ہے۔ اور گوشۂ بہار میں شائع ہوئی چھوٹی چھوٹی باتیں طالبات کے لیے کافی سبق آموز ہیں۔ میری رائے میں آپ کے رسالے میں ایک کالم کی کمی ہے اور اسے شروع ہونا چاہیے اور وہ ہے ’’قارئین کے مسائل اور اس کا دینی حل‘‘
شیخ حسنہ تنویر، اورنگ آباد، مہاراشٹر
جہاد بالقلم میں حصہ لیں
نومبر کا شمارہ موصول ہوا۔ محترمہ مریم جمال صاحبہ نے اداریہ میں گو کہ ایک کڑوی خوراک دی ہے لیکن انشاء اللہ فائدہ مند ثابت ہوگی۔ ظاہر ہے رسالے کو تعریف و ستائش کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس جہاد بالقلم میں قلمی تعاون کی ضرورت ہے۔ ماہ ستمبر اور اکتوبر میں خط اور اقوال زریں شائع ہوئے۔ آپ کا بہت شکریہ۔ پسندیدہ اشعار کا کالم شروع کرکے آپ نے اچھا کیا اس کو اسی طرح جاری رکھنا۔ ایک مضمون اور چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
مسعو دہ عبدالمجید، رائے گڑھ، مہاراشٹر
اخبار خواتین پسند آیا
حجاب کا تازہ شمارہ ہاتھوں میں ہے اور لب پہ بے شمار دعائیں۔ ’’اخبار خواتین‘‘ کا سلسلہ بھی اچھا لگا اسے جاری رکھیں۔ ’’تذکیر‘‘،’’زکوٰۃ کی حکمت کیا ہے؟‘‘ ،’’رمضان کے بعد‘‘ سبھی مضامین بہت اچھے لگے۔ عمیر انس صاحب کی سبھی تحریر پسند آتی ہیں۔ میری طرف سے آپ سبھی کو بہت بہت عید مبارک۔
عارفہ رحمن، لکھمینہ، بیگوسرائے، بہار
اشیاء خوردونوش میں حرام اجزاء کی آمیزش
فرانس کے سرکاری محکمہ غذا میں کام کرنے والے ایک واقف کار نے ہندوستان کے ڈاکٹر امجدصاحب کو لکھا ہے کہ یوروپ اور امریکہ وغیرہ کی تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں دھڑلے سے مسلمانوں کو سور (خنزیر) کی چربی کھلا رہی ہیں۔ بسکٹ اور کیک سمیت بیشتر بیکری آئٹم، ٹوتھ پیسٹ، شیونگ کریم، چیونگ گم، چاکلیٹ، ٹافی، کارن فلیک، ڈبہ بند غذائی اشیاء، ڈبہ بند پھل اور پھلوں کے رس کے علاوہ وٹامن گولیوں سمیت کچھ ایلوپیتھک ٹانکوں میں دیگر اجزاء کے علاوہ لازماً جو چیز شامل ہوتی ہے وہ خنزیر کی چربی ہے۔ چونکہ اب بین الاقوامی قانون کے تحت تمام غذائی اشیاء کے پیکٹ یا ڈبے پر یہ لکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس کے اندر کون کون سے اجزاء شامل ہیں اور اس کی تغذیائی قوت کیا ہے، لہٰذا براہ راست خنزیر کی چربی یا حیوانی چربی لکھنے کے بجائے ایک مخصوص ای کوڈ کا استعمال ہوتا ہے۔
ڈاکٹر امجد خان کا کہنا ہے کہ E-100سے لے کر E-904تک جتنے کوڈ غذائی اشیاء کے پیکٹ، ریپر یا ڈبے وغیرہ پر درج ہوتے ہیں ان سے مراد سور کی چربی ہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر بریٹانیہ کمپنی کے ’’نیوٹری چوائس، کریم کریکر، بسکٹ کے ریپر پر اس میں شامل اجزاء کے تحت جہاں گیہوں کے آٹے، نباتاتی تیل، شکر و غیرہ کا حوالہ ہے وہیں اس فہرست میں Emusifier (E-481) بھی درج ہے۔ ڈاکٹر خان کی ای کوڈ فہرست کے مطابق یہ ای ۴۸۱ کوڈ بھی خنزیر کی چربی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر خان کے مطابق ان کے دوست فرانس کے پیگل مقام پر واقع محکمہ غذا کی کوالٹی کنٹرول لیباریٹری میں کام کرتے ہیں۔ یہ اطلاعات انھیں وہیں سے حاصل ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر خان کے مطابق اب یہ بات پائے ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ مختلف اشیاء کے Ingredientsمیں جو شئے E-No’sکے ساتھ درج ہوتی ہے وہ خنزیر کی چربی ہوتی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اب وہ بازار سے کوئی بھی چیز خریدتے وقت اس کے Ingredientsکو ضرور دیکھ لیں۔ اگر اس میں E-100سے E-904تک کوئی بھی کوڈ درج ہے تو اس سے بہر قیمت پرہیز کریں۔ ہم نے اس کا تذکرہ صرف اس لیے کیا کہ مسلم اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تحقیق کریں، کیونکہ اس سے پہلے ہمارے علم میں یہ بات بھی لائی جاچکی ہے کے چائنیز کھانوں میں Taste Makerکے طور پر جو خاص جزو استعمال ہوتا ہے وہ بھی خنزیر کی چربی سے بنایا جاتا ہے۔ اللہ ہماری مدد کرے اور ہمیں ہر طرح کی حرام غذا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ (بحوالہ: سہ روزہ دعوت، صفحہ۴، ۱۹؍ستمبر ۲۰۰۵ء)
مظفر اللہ خاں، سب ایڈیٹر روزنامہ راشٹریہ سہارا، گورکھپور ، یوپی
نوواردِ بزم
میں حجاب کی ڈاکٹر ابن فرید کے زمانے سے خریدار ہوں۔ ان کے بعد آپ نے حجاب کی شروعات کی تو بے انتہا خوشی ہوئی۔ آپ کی اس بزم میں پہلی مرتبہ ڈرتے ڈرتے شرکت کررہی ہوں۔ آپ نے شمارہ نومبر کے اداریہ میں خطوط نگاروں کی بہت ہی بہتر انداز میں رہنمائی کی ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ہم صرف حجاب کی مدح سرائی ہی میں نہ لگے رہیں بلکہ اپنی علمی فکری قابلیت کے ذریعہ اسے نکھارنے کی کوشش کریں۔ یہاں پر ہم نے بہت سے نئے خریدار بنائے ہیں۔ آپ کے شماروں میں اداریہ بہت پسند آتا ہے۔ خاص کر جبکہ زینب الغزالیؒ کے بارے میں دیا گیا تھا۔
سیدہ حنا، پوسد، مہاراشٹر
انتقال پُرملال
افسوس صد افسوس! ۵؍نومبر کی صبح یہ جانکاہ خبر ملی کہ ہمارے امیر محترم مرزا عظمت اللہ بیگ اس دنیا میں نہ رہے۔ ان للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم پوسد شہر میں جماعتِ اسلامی ہند حلقۂ پوسد تعلق کے امیر مقرر تھے۔ اور پورے خلوص، تندہی، اور ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ امیر ہونے کے باوجود بھی وہ ایک کارکن کی طرح دین کا چھوٹے سے چھوٹا کام کرنا چاہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نیک کاموں میں سبقت لے جانا چاہیے۔
عید کی دوسری صبح ان کے دل پر زبردست حملہ ہوا۔ اس سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اور اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ مرحوم کے جنازہ میں ہزاروں لوگ شامل تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر سرفراز فرمائے اور ان کے اہل بیت کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔
سیدہ حنا، پوسد، مہاراشٹر
سب کچھ پسند آیا
ماہِ دسمبر کا شمارہ پڑھ کر احساس ہوا کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ آج خواتین کا کیا حشر ہے۔ آپ کا اداریہ ’’کس جرم میں قتل کی گئی‘‘، مسلم معاشرہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آپ نے قرآنی آیتوں اور احادیث کے ساتھ جس چیز کی نشاندہی کی ہے اس پر اگر ہم عمل کریں تو ہمارا معاشرہ سدھر جائے گا۔ بیٹیاں، جنت کا ذریعہ ہیں، یقینا۔ ناصر الدین حیدر خاں کا مضمون ’’بیٹی بھی سہارا اور چراغ ہے‘‘ اور پھر ’’غائب بیٹیاں‘‘، ’’ڈیزائنر کپڑوں کی طرح چنی جارہی ہے اولاد‘‘ یہ ایسے مضامین ہیں جو علم و عقل والوں کے ذہن کو کھول سکتے ہیں۔ ان مضامین کے بعد محترمہ مریم جمال صاحبہ کا مضمون تہذیبی اصولوں کا شکار ہے عورت! ہر پہلو سے عورت کا جائزہ لیا ہے۔
ڈاکٹر م۔ق۔سلیم، حیدرآباد
طالبات میں دعوتی سرگرمیاں
حجاب سے ہمارا تعلق بانی اول مرحوم مائل خیرآبادیؒکے زمانے سے رہا ہے۔ مرحوم کے اور میری پھوپھی جان کے قلمی تعلقات بہت گہرے تھے اور مائل صاحب ہمارے گھر آکولہ بھی تشریف لاچکے تھے۔
آج کی مسلم طالبات جب کالج جاتی ہیں تو انھیں غیر مسلم طالبات سے واسطہ پڑتا ہے اور خود میرے ساتھ ایسا ہورہا ہے کہ میری غیر مسلم سہیلیاں مجھ سے اسلام کے متعلق طرح طرح کے سوالات پوچھتی ہیں اور الحمدللہ میں اپنی بساط کے مطابق تشفی بخش جواب دیتی ہوں۔ اورکئی نے مجھ سے ہندی قرآن اور اردوسیکھنے کی خواہش کی۔ تو انھیں غیر مسلموں کے مذہب کے بارے میں منطقی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کا پیغام ان تک پہنچانے کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو میں میرا مشورہ ہے کہ آپ حجاب میں مثلاًہندو ازم، سکھ پنتھ، عیسائیت، یہودیت ، بدھ ازم وغیرہ کی تاریخ اور معلومات کا کالم شروع کریں۔
سلمیٰ یاسمین نجمی صاحبہ کا ناول ’’ہم نفس‘‘ کی طرح ’’کرن آرزو کی‘‘ بھی بہت اچھا چل رہا ہے۔ قابلِ تعریف ہیں نجمی صاحبہ، پلیز آئندہ بھی ان کے ناول اور افسانے وغیرہ شائع کرتے رہیں۔ عمیر انس ندوی صاحب اور سید سعادت حسینی صاحب کے مضامین حالات حاضرہ کے مطابق ہوتے ہیں۔
فوزیہ آفریں محمد معین الدین، آکولہ
]آپ کے خط سے اندازہ ہوا کہ حجاب پر آپ کی خصوصی توجہ ہے۔ ہم آپ کے مشکور ہیں۔ طالبات میں دعوتی سرگرمیوں کا شوق پیدا کرنے کے لیے آپ کا مشورہ مناسب ہے۔ انشاء اللہ ہم جلد ہی دعوتی سرگرمیوں پر کالم شروع کریں گے۔ البتہ آپ کے پاس اس سلسلے میں جو تحریری تجربات اور مضامین ہوں اسے حجاب میں