حجاب کے نام!

شرکاء

خصوصی شمارہ کا انتظار

۲۸؍فروری کو پرنٹ شدہ لفافے میں خوبصورت سرورق والا حجاب موصول ہوا۔ ابھی سرسری مطالعہ کیاہے کیونکہ امتحان بالکل سر پر ہے۔ مہاراشٹر اور آندھرا کانفرنسوں کی رپورٹ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ سماجیات، ہوبہو اور خواتین و تحریک کے تحت مائل خیر آبادیؒ کے سادہ مگر بے حد اہم مضمون کا اثر کافی دیر تک ذہن پر رہا۔ ساجدہ فرزانہ صاحبہ کا ’’ریا و نمود‘‘ لگ رہا ہے کہ پہلے پڑھ چکی ہوں۔ آندھرا کانفرنس میں میں نے انھیں بہت تلاش کیا بلکہ آمنہ صابری صاحبہ کے ہاتھوں مریم بھابھی کے کہنے پر انھیں چٹھی بھی بھجوائی تھی مگر ملاقات نہ ہوسکی۔ پتہ نہیں وہ شریکِ اجتماع تھیں بھی یا نہیں۔ ملاقات نہ ہونے کا سخت افسوس ہورہا ہے۔ ٹوویگن پڈسن کے انٹرویو کا عنوان نسلی مسلمان … افسوسناک سچائی ہے۔ اس بات کا تلخ تجربہ لوگوں کو خصوصاً کالج اسٹوڈنٹس کو ہوتا رہا ہے جن کے دعوتی کام میں اپنے مسلم ساتھیوں کی بے راہ روی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔

نئے نمبر کا انتظار اب صبر آزما ہورہا ہے۔اس کا دیدار کب ہوگا؟

سلمیٰ نسرین آکولہ

]ملاقات تو میری بھی نہ ہوسکی مگر ساجدہ فرزانہ صادق صاحبہ وہاں تھیں، یہ بات مجھے اس وقت معلوم ہوئی جب میں ان سے ملنے گیا۔ نمبر بھلا مئی میں کیسے آئے گا۔ کیا تم نے مضمون بھیج دیا؟ ’’تم نے جاگے تو کروٹ نہ لے گی سحر‘‘ ؟؟[

یورپ کا دو رخا انداز

۴۵۰ سالوں میں ۲۶۵۹ جنگیں لڑنے والے جنگجو یوروپ اور سالانہ ۲۰-۱۵ ارب ڈالر کے اسلحہ کی تجارت کرنے والا امریکہ مل کر اسلام اور مسلمانوں کی ایک شر انگیز تصور بنارہے ہیں جس کی کڑی اہانتِ رسول پر مبنی شائع کارٹون اور ان کی مختلف ممالک میں بار بار اشاعت شامل ہے۔ اس شرمناک فتنہ پروری کو آزادیِ اظہار کے نام پر جائز ٹھہرایا جارہا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہندوستان کے انگریزی پریس کا بڑا حصہ اس فتنہ انگیزی کی حمایت میں شامل ہے مگر اس منافقانہ کردار کو عیاں اور واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ جس ہندوستانی اخبار نے اس کی حمایت کی اس نے امریکہ میں شراب کی بوتل اور اشتہار میں ’’درگا‘‘ کی تصویر بنانے پر اعتراض کیا اور پہلے صفحے پر شائع کیا اور نتیجتاً اس کمپنی نے اسی دن ۱۵؍فروری ۲۰۰۶ کو اپنا اشتہار واپس لے لیا۔ اس منافقانہ کردار کی ایک اور مثال برطانوی پارلیمنٹ میں دیکھنے کو ملی جس میں ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف یا ’’بڑائی کرنا‘‘ بھی جرم میں شامل کیا گیا۔ جبکہ نہ تو دہشت گردی کی تعریف متعین ہے اور نہ ’’تعریف‘‘ یا ’’بڑائی‘‘ کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ اگر دہشت گردی کی تعریف بھی جرم ہے تو اہانتِ رسول ﷺ کیوں جرم نہیں؟ کیا اس سے بدامنی نہیں پھیلتی؟ کیا اس سے جانی مالی نقصان نہیں ہوتا؟ کیا اس سے دل مجروح نہیں ہوتے؟ کیا اہانتِ رسول ﷺ سے اور اس کی ناجائز سرکاری حمایت سے غصہ نہیں پیدا ہوگا؟ پھر اس آزادی کے معاملہ میں بھی ان منافقین کا رویہ قابلِ نفرت ہے۔ اسلام کی ہتک برطانیہ میں جرم نہیں ہے مگر عیسائیت کی ہتک جرم ہے۔

ابھی ایرانی اخبار کے ذریعہ نام نہاد ’’ہولوکاسٹ‘‘ پر کارٹون مقابلہ پر یورپ میں کیوں غصہ ہے؟ کیا اس سے آزادی اظہار رائے پر بندش نہیں پیدا ہوتی؟ یا اس سے یوروپی عیسائیوں کا اصل چہرہ کھلنے کا خوف ہے۔

ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، دہرہ دون

سوچنے کی باتیں

مارچ کا شمارہ دلکش ٹائٹل کے ساتھ میرے ہاتھوں میں ہے۔ شمارہ کے مشمولات پسند آئے۔ سرورق کا مضمون یقینا حوصلہ افزا ہے۔ طب و صحت، تعلیم و کیریر اچھے لگے، مہندی ڈیزائن جاری رکھیں۔ حجاب ایک اصلاحی اور فکری رسالہ ہے جو خواتین اور طالبات کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ اس حیثیت سے ضروری ہے کہ اس میں وضاحت کے ساتھ بتایا جائے کہ مغرب اور دوسرے معاشرے کس طرح عورت کا استحصال کررہے ہیں اور کس طرح کرتے آئے ہیں۔

اصلاح پسند رسالہ ہونے کی حیثیت سے لوگوں کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلانا بھی ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرہ اس وقت تک مثالی اور مطلوب معاشرہ نہیں بن سکتا جب تک ہر مسلمان مرد و عورت اپنی زندگی کے سررشتہ کو اللہ کی کتاب قرآن مجید اور اس کے رسول کی سنت سے نہ جوڑیں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے اپنے گھروں میں دعوت دین کا عمل شروع ہو اور اپنے اہل خانہ کی تعمیر سیرت کی ذمہ داری انجام دی جائے۔

سماجی اور معاشرتی سطح پر مسلم سماج کا دین سے تعلق اور مساجد سے گہرا ربط ضروری ہے۔ کیونکہ مسجدیں ہمارا مرکز، تبدیلی کا ذریعہ اور رب کی خوشنودی کا راستہ ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ جن آبادیوں میں مسجد نہ ہو وہاں مسجد کی تعمیر سماجی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مسلمان اپنے معاملات آپس میں حل کرلیا کریں اور برادرانہ اخوت کو فروغ دیں۔ اسلام کا نظام زکوٰۃ خوشحال معاشرہ کا ضامن ہے مگر ہم اس سے ناواقف ہیں۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ہر مقام پر خواہ وہ دفتر میں ہوں، کالج اور تعلیم گاہ میں ہوں، فیکٹری یا سیاست کے ایوانوں میں ہوں خود کو بہترین مسلمان کے طور پر پیش کریں اگر ایسا ممکن ہوسکا تو اسلام کے لیے زبردست مواقع پیدا ہوجائیں گے۔

مستحق الزماں خاں، محی الدین نگر، بہار

خوب سے خوب تر

حجاب خوب سے خوب تر ہورہا ہے اللہ اسے نظر بد سے بچائے اور یہ یوں ہی ترقی کی راہوں پر گامزن رہے۔

ساجدہ فرزانہ صادق، جگتیال

جنوری کا شمارہ

میں حجاب کی پرانی قاری ہوں، ہمارے گھر میں حجاب تقریباً دو سال سے آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ حجاب طالبات اور خواتین کا معیاری تربیتی رسالہ ہے۔ ماہ جنوری کا حجاب پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ سرورق بہت پسند آیا۔ آپ نے سماج کے بڑے تکلیف دہ اور رستے ناسور پر نشتر لگایا ہے۔ سمعیہ سالم کا افسانہ ’’بأی ذنب قلت‘‘ بھی اچھا لگا۔ اللہ سے دعا ہے کہ حجاب خوب پھلے پھولے اور اردو داں طبقہ میں مقبول ہو۔

ثمینہ خانم

اردھا پور، ناندیڑ’

GIOکی خبریں؟

مارچ کا رسالہ ملا بہت خوشی ہوئی۔ ہمیں ہر ماہ اس کا بڑی بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔ اس ماہ کی خصوصی رپورٹ ’’بنت حرم جاگ رہی ہے‘‘ بڑھ کر حوصلہ ملا۔’’دیر سے حرم کو‘‘ پڑھ کر ایمان کو تقویت ملتی ہے۔

میرا مشورہ ہے کہ ہر ماہ حجاب اسلامی میں اسلامی مہینوں سے واقفیت بہم پہنچائی جائے۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ حجاب میں GIOکی تمام ریاستی سطح پر ہونے والی سرگرمیوں اور دیگر کارگزاریوں کی بھی خبریں شائع ہوتیں۔

آنٹی منتزہ فراست، آکولہ

]اسلامی مہینوں سے واقف کرانے کی تجویز مناسب ہے۔ اس کے لیے آپ سال کے تمام مہینوں کا تعارف بہ شکل مضمون کرائیں اور اس ماہ کے ضروری اور اہم واقعات کا تذکرہ کریں تو کافی ہوگا۔ GIOکی سرگرمیوں کی خبروں کے لیے حجاب کے صفحات حاضر ہیں۔ بلکہ ہم کئی بار اپیل بھی کرچکے ہیں کہ خواتین تنظیمیں، ادارے اپنی سرگرمیوں کی خبریں ارسال کریں۔ GIO سے توہم نے خاص طور پر کہا اور بعض مقامات پر ان کی ریاستی ذمہ دار خواتین سے بھی درخواست کی مگر۔ ایڈیٹر[

عورت اور امپاورمنٹ

فروری کا شمارہ ملا۔ خوبصورت اور بامعنی ٹائٹل دیکھ کر خوشی ہوئی۔ سید سعادت حسینی کی تحریر جو سرورق پر ہے، حقیقت پر مبنی اور دعوت و فکر دیتی ہے۔ الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال بڑا اہم ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں جب ہم عورت کے امپاورمنٹ کی بات کرتے ہیں تو ذہن منفی رخ پر چلا جاتا ہے۔ اس کی وجہ وہ سماجی ومعاشرتی صورت حال ہے جو ہر جگہ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ایک طرف تو امپاورمنٹ کے فریضہ کو ادا کرنے والا یورپ ہے جہاں عورتوں کی زندگی جہنم بن گئی ہے، خاندان ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، رشتہ ناطے اپنی معنویت کھوچکے ہیں اور عورت محض تفریح طبع کا ذریعہ اور جنس بازار بن گئی ہے۔ دوسری طرف مشرق کا وہ معاشرہ ہے جہاں آج بھی عورت کے ستی ہونے کی وکالت کی جارہی ہے۔ مذہبی اعتبار سے اسے نہ جائداد کا حق ہے اور نہ پوتر کتابوں کے اشلوک سننے کی آزادی۔ عورت وہاں بھی مظلوم ہے اور یہاں بھی۔

وہ مجبور و بے بسہے اب وہ جائے تو جہائے کہاں۔ اس صورتحال میں جب اس کے امپاورمنٹ کی بات کی جاتی ہے تو فوراً ذہن مرد و عورت کی باہمی کشمکش اور جنس کی بنیاد پر برتری و کمتری کے جھگڑے کی طرف چلا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عورت کی فلاح کا ضامن نہ تو مشرقی معاشرہ ہے اور نہ مغربی سماج۔ وہاں وہ بے عزت و بے غیرت بنادی گئی ہے اور یہاں اس کے انسانی وجود کو رد کردیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت عورت ذات اپنی شخصیت اور شناخت کے مسئلہ کو لے کر کافی سنجیدہ ہوتی نظر آتی ہے۔

بس یہی وقت ہے کہ اسے اس کے صحیح مقام کی طرف رہنمائی کی جائے اور وہ رہنمائی اسلام کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ کاش کے مسلم خواتین اس بات کا احساس کرتیں۔

منیرہ کمال

شعبہ عربی و فارسی، بنارس ہندو یونیورسٹی، (بنارس)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں