تضادات کی شکار نئی نسل
حجاب سے حجاب اسلامی بنا آپ کا رسالہ آج پہلی مرتبہ نظر سے گزرا ہے۔ حجاب بند ہونے کے بعد پھر سے جاری ہونے کی خبر مجھے نہ تھی۔ آج جبکہ میں نے یہ رسالہ دیکھا ہے میری خوشی کا اندازہ شاید کوئی نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ میںآج بھی حجاب کے پرانے شمارے نکال کر پڑھتی ہوں۔ کیا کروں — اور ہے کیا پڑھنے کے لیے۔ کیا پاکیزہ آنچل پڑھوں؟ کیا خاتونِ مشرق پڑھوں جو پہلی ہی نظر میں حیا سوز تاثر دیتے ہیں۔
ماہنامہ حجاب یعنی حجابِ اسلامی اپنی ظاہری شکل میں پچھلے حجاب سے بالکل مختلف ہے۔ مگر ہاں اس کی روح اور مقصدیت نہ صرف باقی ہے بلکہ اور زیادہ نمایاں نظر آنے لگتی ہے۔ آپ نے اسے جامع اور متنوع بناکر وقت کی ضرورتوں کے عین مطابق بنانے کی کوشش کی ہے خاص طور پر ’’ہو بہو‘‘ اور’’کیریر گائڈنس‘‘ کے کالم بہت مناسب اور ضروری ہیں۔ نفسیات سے متعلق مضمون مفید ہے۔ ’’ہندوتوا خواتین اور اسلام‘‘ اس شمارے کی روح معلوم ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی ابھی بے شمار گوشے باقی ہیں جن پر مسلم خواتین خصوصاً تحریکی خواتین کی رہنمائی کی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ غیر مسلم تحریکوں، اداروں اور سماجی خدمت کی کارکن خواتین کی فعالیت، انداز کار اور مسلم معاشرہ کو ان سے پہنچنے والے نقصانات سے بھی واقف کرایا جانا چاہیے تاکہ حفاظت کی طرف توجہ کی جائے۔
اس وقت ہمارے بچے معاشرتی اعتبار سے عجیب و غریب تضادات کی کیفیت کا شکار ہیں۔ اسکول بالکل مغربی طرز کا ہے جہاں وہ تعلیم پارہے ہیں اور گھر میں اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایسے میں تضادات سے کیسے بچا جائے یہ بڑا اہم سوال ہے۔ اس پر والدین کی رہنمائی ضروری ہے۔ امید ہے کہ حجاب اس میدان میں صحیح رہنمائی کرے گا۔ ہماری جانب سے مبارک باد۔
نازیہ حسن، بارہ دری، بگراسی، بلند شہر
خنساء کا کردار ادا کرنے والی
اپریل ۲۰۰۶ء کا شمارہ ہمدست ہوا۔ حضرتِ خنساءؓ کا کردار دہرانے والی فلسطینی خاتون کا انٹرویو بہت سبق آموز ہے۔ سوالات کے جامع و مختصر جوابات، مگر ایمان و یقین سے بھر پور جذبات کا اظہار۔ نہ صرف آنکھوں میں آنسو آتے ہیں بلکہ ہم سب کو بھی اللہ کے دین کی اشاعت و اقامت کے لیے اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ گھروں پر رہ کر اپنے بچوں کی اسلامی نہج پر تربیت کا جو عظیم کام رب کائنات نے خواتین کے سپرد کیا ہے، اگر خواتین یہ فریضہ انجام دیں تو یقینا ہر مسلمان بچہ گوہرِ نایاب بلکہ افتخارِ انسانیت ہوگا۔ ترجمان القرآن کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ۴۲ سالہ اسماعیل ہانیہ جس فلسطینی اتھارٹی کے نو منتخب وزیر اعظم ہیں اسی نومنتخب پارلیمنٹ کی ممبر ایمان کی حرارت و حلاوت سے بھر پور یہ فلسطینی خنساءؓ بھی ہے، جس کا انٹرویو آپ نے شائع کیا۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت دیکھئے کہ دشمن کے تمام تر منصوبوں کے باوجود آج مشرق وسطیٰ کا مستقبل اس تنظیم سے وابستہ ہوگیا ہے جسے دنیا دہشت گرد گردانتی رہی ہے۔ حالانکہ وہ دبے کچلے اور محروم و مجبور لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فلسطینی عوام کی خصوصی نصرت فرمائے اور ان پر اپنا فضل خاص نازل فرمائے۔ آمین!
الحمدللہ حجاب کے تمام مشمولات اچھے ہیں۔ عورت عہدِ رسالت میں، کتاب کا تعارف آپ نے شائع کیا ہے اس طرح کی کتب کے بجائے ایسی کتب کا تعارف دیجیے جس کو پڑھ کر قاریاتِ حجاب پھر سے حضرت فاطمہؓ، حضرت خنساءؓ ، حضرت خدیجہؓ کا کردار ادا کرنے والی بن جائیں۔
اس کے علاوہ اسلامی معاشرہ اور اس کی تعمیر میں خواتین کا حصہ، مولانا سید جلال الدین عمری کی مسلمان عورت کے حقوق، جیسی کتب کا تعارف کروائیے۔ خواتین سے متعلق کتابوں کے تعارف کا مقصد یہ ہو کہ خواتین اپنے حقوق، اپنے فرائض، اپنا جائز دائرہ کار، اور اپنی اہمیت اور اپنا اصل کام کیا ہے یہ جان لیں۔ امید ہے توجہ فرمائیں گے۔
کیریئر کے انتخاب میں مسلم لڑکیوں کو پیشِ نظر رکھ کر مفید مشورے دیے گئے ہیں۔ مہتاب عالم صاحب کو مبارکباد۔
ملا الفت قانتہ، ہبلی، کرناٹک
طالبات کا کیرئر
ماہ اپریل کا شمارہ موصول ہوا۔ ’’کیریئر کا انتخاب‘‘ دیکھاتو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ آپ نے ایک اچھی شروعات کردی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہماری طالبات کو کافی مدد ملے گی۔ واقعی یہ مسلم سماج کا بڑا مسئلہ ہے۔ طلبہ کی ایک بڑی تعداد بے ہدف تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہے اور صرف ڈگریاں حاصل کرنے میں لگی ہے۔ لڑکیوں کا معاملہ تو اور بھی تکلیف دہ ہے۔ یا تو والدین لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم ہی دلانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، یا اگر کرتے ہیں تو بے مقصد۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کی ان راہوں سے واقف کرایا جائے جس پر چل کر وہ علم و ادب اور بحث و تحقیق کا کام بھی کرسکیں اور اپنی خانگی ذمہ داریوں کو بھی بہ خوبی انجام دے سکیں۔ آج بے شمار میدان علم و تحقیق ایسے ہیں جو ہماری دین دار اور باشعور بیٹیوں کے انتظار میں ہیں۔ اور اگر ان کا انتخاب کیا جائے تو ملک و ملت کی خدمت بھی ہوسکتی ہے۔
سید شہاب الدین ،ایوت محل (مہاراشٹر)
انفرادیت برقرار رکھئے
حجاب سے میرا جذباتی رشتہ ہے۔ میں حجاب کی اس وقت سے قاری ہوں جب دورِ اول میں بچوں کا صفحہ ہی میری سمجھ میں آتا تھا پھر جوں جوں شعور بڑھتا گیا اور مضامین میری سمجھ میں آتے گئے، میری آپ سے درخواست ہے کہ جہاں ہر طرح کے آنچلوں کی بھرمار ہے وہاں آپ حجاب کو کوئی رنگین آنچل نہ بنائیے جیسے کرن آرزو کی وغیرہ۔ حجاب کا معیار بہت بلند ہے اس کی انفرادیت کو برقرار رکھیے گا۔
شاہدہ آفرین خیرآباد، یوپی
حجاب اسلامی پسند آیا
اس وقت حجاب اسلامی ہمارے ہاتھوں میں ہے پہلی مرتبہ پڑھ رہی ہوں۔ اس کے مضامین، حاص طور پر افسانے،بیوٹی ٹپس، پکوان اور بچوں کا گوشہ پسند آئے۔
نینی فردوس، عادل آباد، اے پی
٭تازہ حجاب ہاتھ میں ہے۔ پہلی مرتبہ اس رسالہ سے تعارف ہوا۔ حجاب کے تمام مضامین اپنے اندر معلومات کا خزانہ رکھتے ہیں۔
شمع کوثر، حمید پورہ، عادل آباد
٭حجاب اسلامی مارج ۲۰۰۶ء کا شمارہ سامنے ہے۔ اس میں افسانہ کروٹ، سلطان جمیل نسیم کا معیاری تھا۔ تعلیم و کیرئر کا کالم بھی اچھی ابتداء ہے ۔ بیوٹی پٹس اور مہندی کے ڈیزائن کافی پسند آئے۔
جویریہ فاطمہ، نرمل، عادل آباد
٭رسالہ حجاب اسلامی پہلی بار دیکھنے کو ملا۔ بڑی خوشی ہوئی کہ آپ اتنا اچھا رسالہ نکال رہے ہیں۔ یہ اس لائق ہے کہ تمام اردو جاننے والی خواتین کے گھروں میں لازماً لایا جائے۔
عظمی فرحین، عادل آباد
٭حجاب پسند آیا، مضامین معلوماتی، معیاری اور دین پسند طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اللہ کرے حجاب اسلامی جاری رہے اور ہمیشہ اسی طرح ملتا رہے۔
عظمی، خانم، عادل آباد
صفحات بڑھانے پر غور کریں
حجاب اسلامی گذشتہ کئی مہینوں سے زیر مطالعہ ہے۔ اس کی اسلامی شناخت اور اس سے میل کھاتے مضامین قابل تحسین ہیں۔ لیکن بعض چیزوں کی سختی سے کمی محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً شعرو ادب کا گوشہ نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اپریل کے شمارے میں تو ایک بھی غزل نہیں ہے۔ معلوم نہیں ایسا کیوں ہے۔ افسانوں کے انتخاب اور معیار دونوں ہی قابل غور معلوم ہوتے ہیں۔ اچھے شعراء اور اچھے افسانہ نگاروں سے اپنا تعلق مضبوط بنائیے۔ اسی طرح ہم خیال اور ہم فکر قلم کار بھی تیار کرنے کی کوشش کیجیے۔ رسالوں اور مدیروں کا یہ بھی ایک کام ہوتا ہے کہ وہ قلم کاروں کو تیار کرتے اور تربیت کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو رسالہ چلانا مشکل ہوجائے۔
اخیر میں ایک بات یہ عرض کرنی ہے کہ رسالہ بڑا تشنہ محسوس ہوتا ہے۔ اور چند ہی گھنٹوں میں ختم ہوجاتا ہے۔ صفحات بڑھانے پر غور کیجیے۔ اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے مگر حجاب اسلامی جیسے رسالہ کو مزید مقبول بنانے میں معاون ضرور ہوگا۔ اللہ کرے رسالہ ترقی کرتا رہے۔
نیاز کوثر، لکھنؤ
مضامین خوب تر ہیں
اپریل ۲۰۰۶ء کا شمارہ سادہ مگر دلکش ٹائٹل کے ساتھ ملا اور پڑھا۔ سبھی مستقل کالم کے مضامین خوب سے خوب تر ہیں۔ سرورق مضمون ہندتوا خواتین اور اسلام واقعی سمجھنے کی چیز ہے۔ اسوئہ رسول اور خواتین سبق آموز ہے۔ اسلام میںعورت کا مقام بہت ہی خوبصورتی سے بتایا گیا ہے۔
مستخق الزماں خاں، سمستی پور