حجاب کی نئی اشاعت
آج اپنے ایک ملنے والے کے پاس فروری ۲۰۰۶ء کا حجاب نظر آیا۔ دیکھ کر خیال ہوا کہ حجاب بند ہوئے تو کئی سال ہوچکے۔ یہ کون سا حجاب ہے، الٹ پلٹ کر دیکھا تو مائل خیرآبادی اور ڈاکٹر ابن فرید مرحومین کے نام نظر آئے۔ حیرت ہے اپنی غفلت پر ابھی تک میں یہی سمجھ رہی تھی حجاب بند ہے۔
پیش نظر شمارہ قابل دید اور قابل مطالعہ ہے۔ اگر حجاب کا یہی طرز ہے تو بہت شاندار ہے۔ آپ فروری سے اب تک کے جملے شمارے ارسال فرمائیں۔ میں منی آرڈر بھیج چکی ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں بھوپال میں اس کو پھیلانے کی کیا شکل ہوگی رہنمائی فرمائیں۔ حجاب اپنے ابتدائی دور سے ایک مشن اور تحریک رہا ہے خواتین میں بیداری اور دینی شعور پیدا کرنے کی۔ اللہ کرے یہ مشن اور تحریک ہی کی حیثیت سے جاری رہے۔
ہم اس کی ترقی کے لیے دعا بھی کرتے ہیں اور کوشش بھی کریں گے۔
منذرہ تسنیم، پھول باغ، بھوپال
’’حجاب نومبر ۲۰۰۳ء سے برابر نکل رہا ہے۔ اللہ کا فضل ہے۔ ہم اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حجاب کو لے کر آگے بڑھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ آپ کے تعاون کے لیے اللہ سے جزائے خیر کی دعا کرتے ہیں۔ ہم ایک تفصیلی خط آپ کو الگ سے ارسال کررہے ہیں۔ ایڈیٹر‘‘
رسالہ کو عمومی بنائیے
الحمدللہ حجابِ اسلامی ہر ماہ کے آخری ہفتہ میں بذریعہ وی پی وصول ہورہا ہے۔ شکریہ۔ براہ کرم رسالہ کو عوامی بنانے کی کوشش فرمائیں کسی کسی شمارہ میں ایسے مضامین شائع ہوجاتے ہیں جن کو تحریکی مزاج کے لوگوں کے علاوہ عام خواتین سمجھنے سے قاصر رہتی ہیں مثلاً ’’ہندوتوا‘‘ والا مضمون اس کے علاوہ اور بھی مضامین ہیں جو عام فکری سطح سے بلند معلوم ہوتے ہیں۔ امید ہے توجہ فرمائیں گے۔
عبدالکریم، جھانسی، یوپی
مسائل پر سوال و جواب کا کالم
میں ماہِ جنوری ۲۰۰۵ء سے حجابِ اسلامی کی خریدار ہوں۔ پہلی بار جب حجابِ اسلامی نظر سے گزراتھا تو بڑی خوشی ہوئی تھی۔ اپنے آپ میں ایک قیمتی چیز ہے۔ خاص طور پر خواتین کی دینی رہنمائی میں بڑا مفید ہے۔ اپنے مواد کے اعتبار سے حجاب خواتین کا منفرد پرچہ ہے اور اس میں وہ بہت کچھ ہے جس کی خواتین کو ضرورت ہے۔ خواتین کی صحت سے متعلق مضامین کا سلسلہ جاری رکھئے۔ کچھ چیزوں کی اب بھی اس میں کمی محسوس ہورہی ہے۔ مثلاً قارئین کے مسائل، خواتین کے گھریلو و سماجی مسائل اور ان کا دینی حل، شعری مقابلہ وغیرہ اگر شروع کیے جائیں تو عام قارئین کا شوق بھی بڑھے گا اور مفید بھی ہوگا۔
سیدہ عمرانہ ناز، برکت نگر، پرلی
تاش پتے اور ٹائٹل
عرض یہ ہے کہ جون کا شمارہ دیکھا تو سرورق پر تاش کے پتوں کی تصویر نظر آئی تو حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے سوچا کہ شاید اندرونی صفحات پر اس سے متعلق کوئی تحریر ہوگی مگر مایوسی ہوئی یہ دیکھ کر کہ تاش کے پتوں کا ذکر کہیں نہیں ہے تو ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ حجابِ اسلامی کے سرورق پر تاش کے پتے چہ معنی دارد؟
سرورق پر چھپے تاش کے پتوں کا اندرونی صفحات پر موجود مضامین سے کوئی گہرا تعلق ہو یا نہ ہو اس سے قطع نظر یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک اسلامی رسالے کے سرورق پر ایسی غیر اسلامی شئے کی تصویر چھاپ کر کس قسم کے آرٹ یا تزئین کا حق ادا کیا جارہا ہے۔ کیا اسلامی آرٹ میں تاش کے پتوں کے لیے بھی جگہ موجود ہے۔ اگر وہ پتے کسی تعلیمی تاش کے پتے ہیں تو ان کی صورت و شکل دوسری ہونی چاہیے، جیسی کہ تعلیمی تاش کے پتوں کی ہوتی ہے۔
برائے مہربانی اس اسلامی جریدے کی اسلامی شناخت کو برقرار رکھیں اور اس میں کسی غیر اسلامی شئے کی آمیزش نہ ہونے دیں۔ سرورق پر بغیر سر پیر کی تصویریں جن کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہوتا چھپی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ کسی اسلامی آرٹسٹ کے ذریعہ سرورق کی تزئین کروائی جائے کیونکہ کمپیوٹر کے ذریعہ مختلف اشیاء کو ایک صفحہ پر سمیٹ کر پیش کردینا آسان ہوتا ہے۔ مگر مقصد پر نظر رکھتے ہوئے آرٹ کی تخلیق کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ چونکہ حجاب بھی ایک مقصدی رسالہ ہے اس لیے اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اپنے مشمولات کو اپنے مقصد سے ہم آہنگ رکھے اور کوئی لغو شئے اس میں شامل نہ ہونے پائے۔
وصی احمد، کھام گاؤں (مہاراشٹر)
’’وصی احمد صاحب آپ کے اپنی رائے سے آگاہ کرنے کے لیے ہم شکر گزار ہیں۔ اس طرح کے خطوط ہمیں قارئین کی سوچ کو سمجھنے اور رسالہ کو نکھارنے میں مدد کردیتے ہیں۔ آپ کے خط کے جواب میں عرض ہے کہ:
دراصل ہر قاری کا مزاج،سوچ اورنتائج اخد کرنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہم نے ٹائٹل میں جو آئیڈیا دیا ہے ایک عام قاری اس تک نہ پہنچ سکے۔ دراصل’’مسلم سماج میں شادیاں‘‘ کے تحت جو تاش کے پتہ دئے گئے ہیں وہ معنوی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسے سماج میں جہاں شادیاں دشوار ہوتی جارہی ہیں، جہیز ناسور بن رہا ہے اور حالت یہ ہے کہ جواری اور لاٹری بازوں کی طرح مسلم نوجوان بھی شادی کے وقت زیادہ سے زیادہ جہیز پر نظر گڑائے رہتے ہیں، ان پتوں کی معنویت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ایسے حالات میں جہا ںشادیاں لاٹری اور جوئے کی طرح حرام کی دولت حاصل کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں یہ پتے اسی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘ ایڈیٹر
لڑکیوں کی شاندار کامیابی
ماہ جولائی کا رسالہ اپنے رنگ اور آہنگ دونوں اعتبار سے نیا تھا۔ ’’تعلیم کے میدان میں آگے نکلتی لڑکیاں‘‘ میں آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ یقینا قابلِ غور ہیں۔ مگر … اس سے بھی زیادہ قابل غور وہ ہزاروں لاکھوں لڑکیاں ہیں جو اپنی زندگی میں اسکول جانے کا خواب ہی نہیں دیکھ پاتیں۔ امت اپنی ان بیٹیوں کی اعلیٰ ترین کامیابیوں پر خوش ہوتی ہے اور خوش ہونے کا حق ہے۔ مگر ان لاکھوں لڑکیوں کی حالت پر ایک آنسو بھی کسی کی آنکھ سے نہیں گرتا جو سڑک پر پیدا ہوتی ہیں اور تعمیر ہوتی ہوئی بلند و بالا عمارتوں میں پروان چڑھتی ہیں (جب تک وہ زیر تعمیر ہیں) اور اپنا بچپن، جوانی اور بڑھاپا تک پیٹ کی آگ بجھانے کی فکر میں گزار دیتی ہیں۔
کوئی شخص، کوئی ادارہ اور کوئی تنظیم ان کی فلاح اور تعلیم و تربیت کے لیے آگے نہیں آتے۔ اگر یقین نہ ہو تو آپ اپنے شہر دہلی ہی میں زیر تعمیر عالی شان عمارتوں کے پاس جاکر دیکھ لیجیے۔ ان میں خاصی تعداد عورتوں کی ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ بڑی تعداد مسلمانوں کی ہو۔
بڑی اذیت ناک صورتحال ہے، کاش امت اس طرف بھی متوجہ ہو۔
فاضل حسین، کوٹالی اسٹریٹ، کلکتہ
بچے اور آرٹ
جون کا حجاب موصول ہوا۔ ہمارے یہاں عام طور پر ہر مہینہ کی ۲۴؍تاریخ کو رسالہ مل جاتا ہے۔ ٹائٹل پسند آیا اور اندر کے مضامین اس سے بھی زیادہ۔ محترم امین الحسن صاحب کا مضمون بچے اور آرٹ کئی پہلوؤں سے اہم ہے۔ اس میں سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ والدین کو اپنے بچوں میں تخلیقی فکر، ایجادی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ خوبیاں خدا داد ہوتی ہیں مگر تربیت کے معنی ہی یہ ہیں کہ انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرکے انہیں اعلیٰ ترین صلاحیتوں میں تبدیل کیا جائے۔ موصوف سے مستقل لکھتے رہنے کی گزارش ہم قارئین بھی کرتے ہیں۔ ادارہ تو خیر اس کا ذمہ دار ہے ہی۔
سیدہ نزہت ریحانہ، پٹنہ سٹی، بہار
چند مشورے
حجاب اسلامی جولائی کا شمارہ ملا۔ یہ دوسرا شمارہ ہے جو میری نظروں کے سامنے ہے۔ اور اسے دیکھتے اور پڑھتے ہوئے حجاب کے دورِ اول و دورِ ثانی کے مدیروں کی یاد نے آنکھوں کو نم کردیا۔ میں حجاب اس وقت سے پڑھتی ہوں جب مائل چچا اس کے مدیر تھے اور میں ہائی اسکول کی طالبہ۔ پھر ام صہیب کے دور کا حجاب۔ میں انٹر اور گریجویشن کے دور سے گزر رہی تھی اور اب جب کہ میرے تین بچے ہیں الحمدللہ۔ آپ کے ذریعہ نکالا جانے والا حجاب پڑھ رہی ہوں۔
اللہ مائل چچا ،ابن فرید صاحب اورام صہیب کی قبروں کو نور سے بھر دے۔ ان کا چھوڑا ہوا یہ قلمی جہاد قیامت تک چلتا رہے۔ اللہ حجاب کے ذریعہ حجاب کی حفاظت فرمائے۔ حجاب کے نام لیوا ہر دور میں کامیاب ہوں۔ آپ سب وہ قوت وطاقت عطا فرمائے جو حجاب کی کامیابی کے لیے درکار ہے۔
الحمدللہ پرچہ اچھا ہے۔ اور میرا مشورہ ہے کہ ایسے طبع زاد یا غیر مطبوعہ افسانے جو کہ سبق آموز ہوں یا تحریکی ذہن و فکر سے نہ ٹکراتے ہوں انھیں شامل کریں۔ نوجوان ذہن کے لیے یہ افسانے بڑے اپیل کرتے ہیں۔
’’آرائشِ حسن‘‘ آج کی لڑکیوں کا پسندیدہ موضوع ہے اسے ہر ماہ شامل کریں۔ اور اگر تحریکی خواتین یا سرگرم لڑکیوں کے انٹرویوز ہو ںتو بہت مفید رہے گا۔
مسلمان ملکوں کی خواتین اور لڑکیوں کی تحریکی سرگرمیاں بھی شامل ہوں تو اچھا رہے گا۔
حنا عندلیب، پداپلی