حجاب کے نام!

شرکاء

والدین کا یہ طرزِ عمل

حجاب اسلامی کا تازہ شمارہ خوبصورت پھولوں والے ٹائٹل کے ساتھ نظر نواز ہوا۔ دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ حجاب اسلامی کو واقعی آپ نے ایک اچھے رسالے کی صورت میں عوام کے درمیان متعارف کرایا ہے۔ اس کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ یہ کسی فقہی مسلک یا جماعتی و گروہی عصبیت سے بالکل پاک ہے اور خواتین و طالبات کے لیے انتہائی مفید۔ یہ ایسا رسالہ ہے جو ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے اور جسے گھر کے ہر فرد کو پڑھنا چاہیے۔

اس ماہ کے شمارے میں بہت سی خاص باتیں نظر آئیں۔ ان میں ایک اہم بات وہ ہے جس پر والدین کے صفحہ میں بحث کی گئی ہے۔ مضمون ہر طرح سے والدین کو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے اور تربیت اولاد سے متعلق ایک بڑے اہم مسئلہ کو سلجھا دیتا ہے۔

دوسری طرف زیر بحث مسئلہ ہمارے معاشرے کا سنگین مسئلہ ہے۔ معلوم نہیں والدین اپنی اولاد پر اپنی مرضی کیوں تھوپنا چاہتے ہیں اور انہیں وہ بنانا چاہتے ہیں جو وہ بننا نہیں چاہتے یا بننے کی صلاحیت اور مزاج نہیں رکھتے۔

اس سلسلہ میں مجھے اپنے پڑوس کے دو واقعات یاد آتے ہیں۔ ایک واقعہ ایک انتہائی ذہین اور نیک طبیعت طالب علم کا ہے۔ اس کے والد انجینئر ہیں اور ایک بڑی کمپنی میں ملازمت سے ریٹائرڈ ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو انجینئر بنائیں۔ لیکن اسے جرنلزم سے دلچسپی تھی۔ اچھا لکھتا تھا ، اُردو، مراٹھی، ہندی اور انگریزی کے ساتھ ساتھ گجراتی میں بھی لکھتا تھا۔ والد صاحب نے انجینئرنگ کا ٹسٹ دلوایا۔ پہلی بار ناکام ہوگیا۔ ایک سال پھر سے تیاری کی اور ٹسٹ دیا۔ اس بار کامیاب ہوگیا۔ انجینئرنگ کی پڑھائی شروع کردی مگر فیل ہوگیا۔ سخت محنت کی مگر اگلے سال بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ تیسرے سال ناکامی کے بعد کالج نے Not Fit For Technical Education کا سرٹی فیکٹ دے کر نکال دیا۔ لڑکا تعلیم سے بیزار ہوچکا تھا۔ کسی طرح بی اے کیا اور اب ایک ٹی وی چینل میں معمولی نوکری کررہا ہے۔ والدین کے خواب الگ ٹوٹے اور اس کا کیئرئر الگ تباہ ہوا۔

ایسا ہی افسوس ناک واقعہ ایک میڈیکل کے طالب علم کا ہے، جس پر والدین نے میڈیکل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ اس نے ٹسٹ پاس کرلیا۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور MBBSمکمل کرلیا۔ ڈگری لے کر گھر آیا، والد صاحب کوبلایا اور ڈگری ان کے قدموں میں رکھ دی اور بولا : ’’یہ پڑھائی میں نے آپ کے لیے کی تھی اپنے لیے نہیں۔ آپ کو ڈگری مل گئی یہ لیجیے اور اب میںچلتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ گھر سے نکل گیا۔ کئی سال کے بعد آیا۔ والدین نے شادی کرنا چاہی مگر اس نے صاف انکار کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ آپ کو میری شادی اور میری خواہش کی فکر سے کہیں زیادہ میرے ڈاکٹر بننے کی فکر تھی۔ میں جس سے شادی کرنا چاہتا تھا وہ اب کہیںاور ہے۔ اور اب چالیس سال کی عمر میںبھی تنہا ہے۔ پریکٹس نہیںکرتا۔ کیا کاروبار ہے معلوم نہیں۔ بڑا مایوس سا رہتا ہے۔ زندگی میں کوئی عزم و حوصلہ اور امنگ نہیں۔

یہ دو واقعات میرے آس پاس کے ہیں۔ تعلیم یافتہ گھرانے کے ہیں، ایسے تعلیم یافتہ گھرانوں سے جہاں اولاد پر جبر کیا جاتا ہو، وہ گھرانے زیادہ بہترین جہاں ناخواندہ والدین اپنا بچوں کا صرف حوصلہ بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ ان کے بچے ناقابلِ یقین حد تک آگے پہنچ جاتے ہیں۔ انجینئر ڈاکٹر بن جاتے ہیں ، آئی اے ایس بن جاتے ہیں۔

یہ عبرتناک ہے مگر یہ تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے۔ قارئین سے میری درخواست ہے کہ وہ اس مضمون اور ان واقعات سے سبق حاصل کریں اور اپنے بچوں پر تعلیم کے سلسلہ میں اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش نہ کریں۔

غوثیہ پروین، بیدر، کرناٹک

قرآن کاپیغام عام کرنے کی خواہش

ماہنامہ حجاب اسلامی کے آخری صفحہ پر سلام سینٹر کا اشتہار شائع ہوتا ہے۔ ان کی سرگرمیاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کے پیغام کو غیر مسلموں میں عام کرنے کے خواہش مند ہیں اور اس کے لیے سنجیدہ کوششیں بھی کررہے ہیں۔ میں نے کئی بار سوچا کہ ان سے رابطہ کروں۔ میں ایک اسکول ٹیچر ہوں اور خواہش کرتی ہوں کہ میں بھی غیر مسلموں تک قرآن پہنچانے کا کام کروں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ میں ان سے کچھ قرآن حاصل کرلوں۔اور اگر میں ان سے ایسا کہوں گی تو کیا وہ مجھے قرآن فراہم کریں گے۔

فاخرہ انور، شیش محل دہلی

]فاخرہ صاحبہ! سلام سینٹر ایک ٹرسٹ ہے جو امن، باہمی اخوت اور غیرمسلموں میں قرآن کے پیغام کو عام کرنے کے لیے کوشش کررہا ہے۔ آپ ان سے رابطہ کرسکتی ہیں۔ اور میرے خیال میں اور بھی جو لوگ غیرمسلموں میں قرآن کے پیغام کو پہنچانا چاہتے ہوں وہ بھی رابطے کرسکتے ہیں۔ ایڈیٹر[

کاغذ اور پرنٹنگ کا معیار بہتر ہو

ماہنامہ حجاب اسلامی کا تازہ شمارہ بہت پسند آیا۔ ’’زندگی کیا ہے‘‘، ’’کامیابی کی غلط تعبیر‘‘، اور ’’ازدواجی اختلافات چار سنہرے اصول‘‘ خاص طور پر پسند آئے۔ معاشرت کے تحت ’’میاں بیوی کے جھگڑے‘‘ اچھا لگا۔ دراصل ایسی صورت ِ حال میں لڑکی کے والدین کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے۔ دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ لڑکی کے ماں باپ خاص طور پر مائیں آگ بگولہ ہوجاتی ہیں اور ہمیشہ اپنی بیٹی ہی کی طرف داری کرتی ہیں۔ یہ کیفیت اکثر معاملات کو مزید مشکل بنادیتی ہے۔ ایسے میں سب سے بہتر کام یہ ہے کہ دونوں کو اچھی طرح سمجھایا جائے۔

رسالہ اچھا ہے مگر کاغذ اور پرنٹنگ کے معیار کو اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ سوال و جواب کا کالم اور انعامی مقابلے وغیرہ شروع کرکے قارئین کی دلچسپیوں کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ آپ رسالہ کو مقبول عام بنانے کے لیے کچھ اسکیمیں اور گفٹ اسکیم شروع کریں تو لوگ ضرور آگے آئیں گے اور سالہ کا حلقہ بڑے گا۔

ولی الرحمن خالد، ہری ہر (کرناٹک)

]ولی الرحمن صاحب! آپ نے جن چیزوں کی طرف توجہ دلائی ہے ہم انہیں نافذ کرنے کی فکر کریں گے۔ کاغذ اور پرنٹنگ کا معاملہ عجیب ہے۔ گرانی اور مہنگائی نے کمر توڑ رکھی ہے۔ بہت سی چیزیں خواہش کے باوجود محض وسائل کی کمی کے سبب مکمل نہیں ہوپارہی ہیں۔ آپ دعا فرمائیں۔ ایڈیٹر[ ہ

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں