رسالہ پسند آیا
ماہنامہ حجاب اِسلامی کادسمبر کاشمارہ ایک رِشتہ دار کے یہاں پڑھنے کاموقع ملا۔دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔خواتین وطالبات کے لیے یہ واقعی پاکیزہ اور کارآمد رسالہ ہے۔خواتین کے لیے یوں توبہت سے رسالے اُردومیں نکلتے ہیں مگر ان کوپاکیزہ اورصاف ستھراسمجھناایک غلط فہمی کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس ماہنامے کی تحریریں اورمضامین پڑھ کر خواہش ہوئی کہ اسے اپنے گھر منگایاجائے تاکہ گھرکی خواتین اور بچیاں اس سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ اس رسالے میں آپ نے جو مضامین چھاپے ان میں ’’کامیابی کی غلط تعبیر‘‘بہت پسندآیا۔اس مضمون کو پڑھ کر احساس ہواکہ ہماراسماج کس طرح اپنے بچوںپر اپنی خواہشات کابوجھ ڈال کراُنھیں کامیابی کے بجائے ناکامی کی طرف دھکیل رہاہے۔اس کے علاوہ افسانے، فکرصحت،تربیت اورازدواجیات پر لکھے گئے مضامین بہت اچھے اورمفید معلوم ہوئے۔
آپ اپنے رسالہ میںنوجوان لڑکیوں کے لیے ایسی تحریر شائع کریں جنھیں پڑھ کر وہ وقت اورحالات کے تقاضوں کو بھی سمجھ سکیں اوربہترین سماجی زِندگی کے لیے بھی تیار ہوسکیں۔اسی طرح صحابیات اور اِسلام کی عظیم خواتین کے بارے میں بھی معلومات دیتے رہیں۔
ہماری نیک تمنائیں رسالے اوراُس کے کارکنان کے ساتھ ہیں۔
خلیل احمد،پونہ
ڈاک کا معاملہ
میں گزشتہ کئی مہینوں سے پریشان تھاکہ یہ رسالہ کیوں نہیں مل رہا۔مجھے صرف اکتوبر کا رسالہ ملا اُس کے بعد کوئی رسالہ موصول نہیںہوا۔کئی بارآفس میںفون بھی کیا۔وہاں بتایاگیا کہ رسالہ آپ کو بھیجا جارہاہے۔میں سوچ کر حیران تھا کہ معلوم نہیں رسالہ بھیجاجارہا ہے یا یوں ہی تسلی دی جارہی ہے۔ گزشتہ ۱۵ دسمبر کو نومبراوردسمبر دونوں شمارے پوسٹ مین گھر پر دے گیا۔تب سمجھ میں آیاکہ آپ صحیح کہتے تھے۔رسالہ کیوںکہ گھر میںبہت پسند کیاجاتاہے اس لیے سب بے چینی سے اِنتظار کرتے ہیں۔اگروقت پر نہ ملے توبچے پریشان کرنے لگتے ہیں کہ فون کرکے معلوم کیجیے۔اس سے ہمیں بھی زحمت ہوتی ہے اورآپ کو بھی ناحق دُشواری اُٹھانی پڑتی ہے۔
نعیم الدین،جون پور،یوپی
]نعیم صاحب!ہم کہتے ہیں کہ ڈاک میں شکایت درج کرائی جائے۔مگرکوئی ایسانہیںکرتا۔ آپ بھی غلط سمجھ رہے تھے، معلوم نہیں اور کتنے لوگ ایساسمجھتے ہوں گے۔ آپ ڈاک خانہ میں جاکر شکایت کریں کہ دو رسالے ایک ساتھ کیوںملتے ہیں۔ ایڈیٹر[
بچوں کی تربیت اوروالد کاکردار
جنوری کاشمارہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ’بچوں کی تربیت میںوالد کاکردار‘بہت پسند آیا۔ بہت سے والدین معاشی ودیگر مصروفیات میںپھنس کر بچوں کو گویابھول جاتے ہیں۔وہ اُن کی روزی روٹی اورآرام فراہم کرنے کی فکر میںپھنسے رہنے ہی کو سمجھتے ہیں کہ اولاد کا حق اداکررہے ہیں۔یہ تصور غلط ہے۔ضروی ہے کہ بچوں کی تربیت میں جہاں ماں کا کردار ہو وہیں باپ بھی اپنی ذمہ داری کوسمجھے۔
ایسے گھروں میںجہاں ماں اور باپ دونوں ہی کاروباریانوکریوں میں مصروف ہوتے ہیں وہاں بچوں کی تربیت اور نگرانی نوکروں کے سپرد ہوتی ہے۔ بھلا نوکر کیا تربیت ونگرانی کریںگے۔اوربچے اُنھیںکیوںخاطرمیںلائیںگے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بگڑجاتے ہیں۔اورجب والدین کو ہوش آتا ہے تو معاملہ بہت دورجاچکاہوتاہے۔آپ نے بالکل ٹھیک توجہ دِلائی ہے۔ہمیںاُمیدہے کہ حجاب پڑھنے والے یقینا اس مضمون سے فائدہ اُٹھائیں گے۔
نجمہ انجم،لکھنؤ،یوپی
ازدواجی زِندگی اورصبر
میں ماہنامہ حجاب اِسلامی،نئی دہلی کا شکرگزار ہوں جس نے یہ قیمتی تحریر مجھے عنایت کی۔ماہ جنوری کی کتاب میںچھپی تحریر صبر کا موقع مجھے بہت اچھی لگی۔یہ کتاب میرے ایک دوست نے مجھے پڑھنے کے لیے دی تھی۔ مجھے لگاکہ یہ مضمون میرے دل کی آواز اور میری ضرورت تھا۔اس سے مسائل حل ہوگئے اور میری سوچنے کاانداز بدل گیا۔میںمضمون لکھنے والے اورترجمہ کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ سے اجرکی دُعاکرتاہوں۔
نہال الدین–ارریا،بہار
——