مفید مشورہ
ماہنامہ حجابِ اسلامی نے اپنے قارئین کے دلوں میں ایک مقام بنالیا ہے۔ دن بہ دن اس کی ترقی اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مختلف النوع مضامین کا انتخاب بھی قابلِ تعریف ہے۔ البتہ ایک چیز کی طرف توجہ دلانی ضروری سمجھتا ہوں۔ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں اکثریت ایسے افراد کی ہے جنھیں بہتر غذا بالخصوص موسمی پھل بھی مشکل سے کھانے کو مل پاتے ہیں۔ خاص طور سے ایسے ملک میں مادہ پرستوں اور ظاہری حسن کے دیوانوں کی تقلید میں پھلوں کو کھانے کی بجائے چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں پر پیسٹ کی شکل میں استعمال کرنے کی ترغیب دینا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ اس کے بجائے حجاب اسلامی کو چاہیے کہ وہ اپنے قارئین کو یہ مشورہ دیا کرے کہ پھلوں کو لگانے کے بجائے کھانے کے لیے استعمال کریں۔ اس سے ان کے ظاہری و باطنی دونوں طرح کے حسن کی اصلاح ہوگی۔
تنویر آفاقی،E-7، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی
اداریہ پسند آیا
کافی عرصہ سے کچھ لکھنے کی سوچ رہا تھا مگر مصروفیت کی وجہ سے دل کی بات کاغذ پر نہیں آسکی، اپریل ۲۰۱۱ء کے شمارے نے مجبور کردیا کہ چند سطریں ہی سہی مگر کچھ نہ کچھ لکھوں ضرور!
حجاب کا اداریہ پڑھ کر آپ کی سوچ سے سوفیصد متفق ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس موضوع پر مزید گفتگو ہو اور ہماری خواتین جو مغربی خواتین کی طرح آزادی چاہتی ہیں انھیں ان کے مضر اثرات سے آگاہی ہو اور ساتھ ساتھ انھیں یہ اچھی طرح معلوم ہو کہ اسلام نے جو آزادی خواتین کو دی ہے وہ نہ کسی دوسرے مذہب میں ہے اور نہ ہی دنیا کی کسی سلطنت میں۔ اللہ سے دعا گوہوں کہ آپ حجاب کے ذریعے سے جو خدمت خلق و دعوتی کام کررہے ہیں وہ مسلسل جاری رہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو مزید ہمت و حوصلہ دے تاکہ اور ذرائع سے بھی آپ ملتِ اسلامیہ کی خدمت کرسکیں۔ آمین!
حامد علی اخترؔ، تھانہ بھون، مظفر نگر، یوپی
دعوتی کردار کی ضرورت
حجاب برابر موصول ہورہا ہے میں ہر بار سوچتا ہوں کہ اپنے تاثرات لکھوں مگر تساہلی کی وجہ سے تکمیل نہیں ہوپاتی۔ آج جب اپریل کا شمارہ ملا تو میں نے قلم تھام لیا ٹائٹل پر گلاب شگفتہ نے طبیعت کو مفرح کردیا، کیا دیدہ زیب ٹائٹل ہے، اس سے پہلے بھی فروری کا سرورق بھی گلاب اور مرحوم حفیظ میرٹھی کے قیمتی شعر سے مزین تھا ۔ اللہ آپ کے حسن ذوق کو قائم رکھے۔
اس ماہ کے اداریہ نے یہ بات واضح کردی کہ مختلف ناموں سے دن منانا یہ جیسے اب حکومتوں کا ریاکارانہ مشغلہ بن گیا ہے۔ جو دیگر امور کی طرح مغرب کی کورانہ تقلید ہے۔
عورتوں کے ساتھ جرائم کے معاملہ میں واقعی پورے ملک کے ساتھ ساتھ دہلی بھی سرفہرست ہے۔ یہ سب نتیجہ ہے مغربی کلچر، عریانیت اور مادہ پرستی کا۔ عورت صرف اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے محفوظ رہ سکتی ہے۔ اب سماج کا بیدار طبقہ ذہنی کشمکش میں مبتلا ہے اور اس موجودہ کلچر سے اوب چکا ہے۔ پرامن راہ کی تلاش میں ہے، جس کو اللہ سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کردیتا ہے وہ اسلام کے سایہ میں بے تکلف آکر اپنے کو تازہ دم محسوس کرتا ہے، اس کی مثال حجاب میں شائع ’’پریتی‘‘ موجودہ ’’عفیفہ‘‘ کی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امت نے بحیثیت مجموعی داعیانہ کردار کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ جزوی طور پر لوگ امت میں اصلاح کا کام کرتے ہیں اور اسی کو کلی طور پر دعوتی کام سمجھتے ہیں جو خود فریبی ہے۔ دعوت نام ہے اس بلکتی دنیا کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرانے کا۔
دیگر مشمولات اور نثری ادب بھی خوب ہے، بہت دنوں سے ناچیز کا کلام حجاب میں نظر نہیں آرہا ہے، امید ہے کہ کسی قریبی شمارے میں غزل شائع کریںگے۔ میری جانب سے اہلِ خانہ اور اسٹاف کو سلام عرض کریں۔
فرقان بجنوری، مہاڈ، رائے گڑھ
]جناب فرقان بجنوری صاحب! آپ کی بات درست ہے، کاش امت اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر عہدہ برآہو۔ آپ کی ایک غزل اسی شمارے میں شاملِ اشاعت ہے۔ اپنا کلام ارسال کرتے رہیں۔ مدیر[
صالح ادب کا پلیٹ فارم
حجاب باصرہ نواز ہوا، حسبِ معمول تمام تحریریں بہت خوب تھیں۔ اداریہ میں آپ نے ہمارے سسٹم کی کئی کوتاہیوں میں سے ایک کوتاہی کا تذکرہ بڑے بہترین انداز میں کیا ہے۔ اب ضرورت ہے ہمیں سمجھنے کی اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی۔ محکمہ ڈاک کی عام لاپرواہیاں اور اردو داں طبقے کے ساتھ خاص طور پر آئے دن دیکھنے کو ملتی ہیں۔ خود ہمارے گھر ڈاک ڈالنے والا پوسٹ مین بڑی بیزاری سے کہہ رہا تھا ’’اس زمانے میں ایسی کتابیں کون پڑھتا ہے میڈم۔‘‘ بہرحال اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کے حجاب وقت پر مل رہا ہے۔ ماشاء اللہ تمام مضامین پسند آئے۔ خصوصاً میں افسانوی ادب کی تعریف کروں گی آج کے مادہ پرست دور میں جہاں جنسی لٹریچر اور غیر صالح افسانوں اور ناولوں کی بھر مار ہے وہاں حجاب صالح لٹریچر کی اشاعت و ترویج کے لیے ایک پلیٹ فارم ہے، انور کمال صاحب کا ’’کمرے میں بند آدمی‘‘ بہت اچھا تھا لیکن اگر اختتام میں اعتدال پر بھی چند ایک مکالموں کا اضافہ ہوجاتا تو بات واضح ہوجاتی۔
سعدیہ اختر عندلیب
خواتین کا خاص رسالہ
ماہ مارچ کا شمارہ اس بار تاخیر سے ملا، سوچنے کی بات ہے رسالہ ۲۰، ۲۱؍فروری کو پوسٹ کیا گیا آج ۱۸؍مارچ کو ملا وجہ کیا ہے؟ وہی جو ایڈیٹر محترم شمشاد حسین فلاحی صاحب نے اپنے اداریہ میں لکھی ہے کہ ڈاک کے نظام کی خرابی۔ ایڈیٹر صاحب نے سوفیصد بالکل صحیح لکھا ہے میرا تجربہ ہے قارئین حجاب اداریہ کو پھر ایک بار پڑھیں جتنی باتیں ڈاک محکمہ کے تعلق سے درج کی گئیں ہیں صد فیصد صحیح ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ڈاکیہ کے لیے گھر پر پہنچانے سے زیادہ آسان کام اسے واپس کردینا ہے یا کسی کو بھی دے دینا، کسی دوکان پر رکھ دینا ہے میں اپنے وطن مئو ائمہ میں تھا تو برابر ہر ماہ کے پہلے ہفتہ روزانہ ڈاکخانہ جاکر حجاب، ہلال، ہادی، زندگی نو، سہ روزہ دعوت، نور، البلاغ ممبئی لے کر آتا۔ ہندوستان میں جتنے بھی سرکاری محکمہ ہیں ہر شعبہ میں لاپرواہی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ حجاب خواتین کے لیے خاص ہے اس لیے گزارش ہے کہ اس کے تمام مضامین خواتین ہی کے متعلق ہونے چاہئیں اور بالکل عام فہم اور آسان اردو ہو۔
میری اہلیہ امِ مصعب پورے رسالے سے استفادہ کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسالے کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔ آمین
مولانا عادل الہ آبادی، رتنا گری، مہاراشٹر
——