حجاب کے نام!

شرکاء

لڑکیوں کے تناسب میں کمی
ہندوستان کے ایک مشہور اخبار میں گزشتہ ماہ ایک خبر دیکھنے کو ملی تھی جس میں چین سے متعلق یہ معلومات فراہم کی گئی تھیں، وہاں لڑکیوں کے تناسب میں کمی کے سبب نوجوانوں کو شادیاں کرنے میں بڑی دشواریوں کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ چین ۱۱۸ لڑکے اور سو لڑکیوں کا تناسب ہے۔ اس چیز نے ان کے سماج میں بحران کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ جن والدین کے پاس لڑکیاں ہیں وہ اب اپنی بیٹی کی قیمت وصول کررہے ہیں اور لڑکے کو ہندوستانی کرنسی کے مطابق کئی کئی لاکھ کی رقم دینی پڑرہی ہے۔ یہ چیزیں دیہی چین میں کافی نظر آرہی ہیں۔ گزشتہ مہینے یہ خبر چینی میڈیا میں اس وقت بحث کا موضوع بن گئی، جب جنوب مشرق کی ریاست شن ڈونگ کے ایک نوجوان نے میڈیا کو یہ بتایا کہ اس نے لڑکی والوں کو پچاس ہزار ین (تقریباً چار لاکھ روپے) دئیے ہیں حالانکہ ان کا مطالبہ اور زیادہ کا تھا۔
ہمارے ملک میں بھی لڑکیوں کا تناسب گررہا ہے۔ حکومت کی تمام اسکیموں اور لڑکیوں کی پیدائش کی حوصلہ افزائی کے باوجود لڑکیوں کا قتل جارہی ہے۔ ہمارے یہاں آئے دن ایسی خبریں اخبارات میں چھپتی ہیں کہ ایک ماں معصوم بچی کو عوامی مقام پر چھوڑ کر غائب ہوگئی وغیرہ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابھی بھی ہمارے سماج میں لڑکیاں غیرمطلوب ہیں۔ اس کا نتیجہ سماج میں فساد اور برائیوں کا فروغ ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تناسب کی کھائی اور گہری ہوجائے اور پورے سماج کو جرائم کی بھٹی میں جھونک دے۔
ڈاکٹر نکہت فاطمہ (بھوپال)
جمعہ کا دن، چند باتیں
حجاب اسلامی کا تازہ شمارہ پیش نظر ہے۔ بامعنی اور خوبصورت رنگوں سے سجا ٹائٹل اچھا لگا۔ اس شمارے کے مضامین میں ’’عصر حاضر میں خطبات جمعہ کا کردار‘‘ بہت اچھا لگا۔
مسلم سماج اور اسلامی نظام عبادت اور نظام معاشرت میں جمعہ کے دن کی بڑی اہمیت ہے۔اس دن کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کے دن کے طور پر اور اللہ کے رسول نے یومِ عید کے طور پر بتایا ہے۔ مسلمان کا چھوٹی چھوٹی جگہوں سے بڑی بڑی جگہوں اور بڑی مساجد میں نمازِ جمعہ کے لیے جمعہ ہونے کی تعلیم دی ہے۔ ایسا صرف ہفتہ میں ایک ہی مرتبہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد عید اور بقرعید کی نماز کے لیے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ بہترین موقع ہوتا ہے کہ امام و خطیب حضرات امت کے مسلمانوں کی ذہنی و فکری تربیت، غلط رسوم و رواج کی بیخ کنی اور صالح اقدار کے فروغ کو اپنے خطبوں کا موضوع بنائیں۔ اگر مسلمانوں میں جمعہ کے خطبوں بامقصد اور بامعنی استعمال ہو اور ہمارے ائمہ کرام ایسے باصلاحیت اور قائدانہ رول رکھنے والے ہوں تو امت کے اندر زبردست بیداری آسکتی ہے۔
اسی سے متعلق ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ جمعہ کا خطبہ صرف عربی زبان میں دینے کو ہی جائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ایسا ہی کیا۔ یقینا ایسی ہی بات ہے۔ اللہ کے رسول کی زبان اور سننے والوں کی زبان عربی تھی۔ آج نہ بولنے والوں کی زبان عربی ہے نہ سننے والوں کی۔ ایسے میں خطبہ جمعہ کا مطلب فوت ہوجاتا ہے۔
اس سلسلہ میں ایک خاص بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ اب سماجی اور سیاسی اسباب کی بنا پر چھوٹی چھوٹی مسجدوں میں بھی جمعہ کی نماز کا رواج عام ہورہا ہے۔ یہ غلط اور اجتماع جمعہ کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ بڑی بڑی مسجدوں میں جمع ہوں اور چھوٹی مسجدوں میں اس وقت سنتوں اور نوافل کا اہتمام کیا کریں۔
قمرالدین خمار، بریلی
ایک مشورہ
رسالہ دن بہ دن معیاری مضامین اور صالح ادب شائع کرنے میں ترقی کررہا ہے۔ سلمیٰ نسرین صاحبہ نے اچانک ہی ’’صداقتوں کے پاسبان‘‘ ختم کردیا پھر بھی اختتام اچھا تھا۔ اللہ تعالیٰ انھیں صحتِ عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین! ناچیز کا ایک مشورہ تھا کہ حجاب میں اگر اردو زبان پر بھی ایک کالم شروع کیا جائے تو اچھا ہے جیسے محاوروں کا استعمال، کالم نگاری، مضمون نگاری، زبان و بیان کے قواعد وغیرہ پر توجہ دی جائے کیونکہ میرے اندازے کے مطابق حجاب کے قارئین میں نوجوان لڑکیاں زیادہ ہیں تو ان میں اس کی وجہ سے لکھنے لکھانے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور اس کی وجہ سے صالح ادب کی ترقی کی طرف پیش قدمی بھی ہوگی۔
سعدیہ اختر عندلیب
؟؟؟
مجموعی طور پر مارچ کا شمارہ پسند آیا۔ خاص طور پر افسانوی ادب میں’بیکار سامان‘ اور ’مجرم کون‘ افسانے اچھے لگے۔ مستقل کالم میں خطوط کی کمی محسوس ہوئی۔
زلفیٰ رفعت اور بہنیں، اودگیر
]فروری کا شمارہ بہت تاخیر سے شائع ہونے کی وجہ سے لوگوں کے تاثرات وصول نہ ہوسکے تھے، اس لیے مارچ کے شمارے میں خطوط کی کمی رہی۔ ایڈیٹر[
اچھا رسالہ
حجاب اسلامی مطالعہ میں رہتا ہے۔ اچھا رسالہ ہے۔ خاص طور پر خواتین کے لیے تو بہت ہی اچھا ہے۔ آپ اس کے معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، یہ آپ کی ادارتی خوبی ہے۔
جمیل نظام آبادی، مالاپلی، نظام آباد
مئی ؟؟
مئی کا حجاب اسلامی بہت اچھا تھا۔ غزالہ عزیز کا مضمون ’’عورت معاشرے میں حق چاہتی ہے‘‘ خواتین کو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ سرورق سے متعلق دونوں مضامین جو طلاق کے سلسلے میں نئے قانون کے بارے میں معلومات دیتے تھے، اچھے لگے۔ سب سے اچھا مضمون علی طنطاوی کا محسوس ہوا۔ یہ مضمون آج کی خواتین کو مغربی سماج کے سیاہ پہلوؤں کو بھی بہت اچھی طرح بیان کردیتا ہے۔ دراصل ہم مشرق کے لوگ ابھی تک مغربی تصور آزادی سے مرعوب ہیں اور حقیقت کو دیکھ نہیں پا رہے ہیں جبکہ مغرب میں اس آزادی نے عورت کی بے عزتی کی انتہا کردی اور اسے کسی لائق نہ چھوڑا۔ پورا مغربی معاشرہ اس کا ثبوت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مغربی سماج میں عورت کی بری حالت کو یہاں کے معاشرے کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔
شہناز کوثر، بذریعہ ای میل

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146