جولائی کا شمارہ
جولائی کا شمارہ ملا۔ جون کے شمارے کی طرح یہ بھی نئے سائز اور نئے گیٹ اپ میں تھا۔ سارے مضامین اچھے لگے۔ رمضان کے سلسلہ میں جو بھی مضامین ہیں وہ عملی رہنمائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’کیسے بنتا ہے مثالی گھر‘‘ اور ’’مستحکم خاندان کی ضرورت‘‘ پسند آئے۔
موجودہ دور میں جب کہ لڑکیوں میں تعلیم اور وہ بھی اعلیٰ تعلیم کو کافی فروغ ملا ہے وہ روزگار کے میدان میں آگے آئی ہیں۔ مگر گھر اور خاندان کو چلانے کے لیے جو توجہ اور جو لگن درکار ہے وہ کم ہوئی ہے۔ اور اس کی زد براہِ راست خاندان کے استحکام پر پڑی ہے۔ نتیجتاً گھر ٹوٹ رہے ہیں۔ بچے بے توجہی کا شکار ہوکر باغی او رمجرم بن رہے ہیں۔ رشتوں ناطوں میں انتشار پیدا ہورہا ہے۔ ایسے میں خاندانی استحکام اور مضبوط گھر بنانے پر توجہ دینا خاص طور پر اہم ہے۔ حجاب اسلامی کی قاری خواتین اس حقیقت کو سمجھتی ہیں۔ انھیں یہ بات اوروں کو بتانے کی فکر کرنی چاہیے۔ اس طرح ہم ایک سماجی و معاشرتی ذمہ داری ادا کرسکیں گے۔
جولائی کے شمارے میں قارئین کے خطوط دیکھ کر اندازہ ہوا کہ لوگوں نے نئے سائز اور نئے گیٹ اپ کو پسند کیا ہے۔ ان کی پسند بہرحال ان کی پسند ہے۔ میرے خیال میں اس وقت جاری رسالوں میں کوئی بھی معیاری اردو یا انگریزی رسالہ اس سائز میں نہیں نکلتا۔ اس سائز کے انتخاب میں اگر کچھ تکنیکی باتیں ہیں تو الگ بات ہے ورنہ میری رائے میں یہ سائز حجاب اسلامی کے مزاج اور اس کی امیج سے میل نہیں کھاتا۔ بہرحال فیصلہ تو آپ ہی کو کرنا ہے۔
علی رضوان، احمد نگر
جہیز اور وراثت
مئی کا حجاب اسلامی نئے رنگ ڈھنگ میں نظر آیا۔ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ بہترین کاغذ پر اچھی پرنٹنگ تھی۔اس سے اندازہ ہوا کہ آپ حجاب کو ظاہری طور پر بھی معیاری بنانے کی کوشش میں لگے ہیں۔
اس شمارے کے سبھی مضامین اچھے تھے۔ مگر معاشرت کے کالم میں ’’جہیز نہیں وراثت‘‘ خاص معلوم ہوا۔ دراصل اس کے میری نظر میں خاص طور سے دو پہلو ہیں:
ایک یہ کہ جہیز نے ہمارے سماج میں ایک لاعلاج بیماری کی سی صورت اختیار کرلی ہے اور ہر سال سیکڑوں ولہنیں معلوم اعداد و شمار کے مطابق جہیز کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔
(۲) ماں باپ کی وراثت میں لڑکیوں کا حصہ دینا اب ایک اجنبی سا عمل ہوگیا ہے۔ نہ دیا جاتا ہے اور نہ ہی لڑکیاں دینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ بعض جگہ تو ایسا ہوتا ہے کہ اگر لڑکی نے اپنا حصہ مانگ لیا تو ماں باپ اور بھائیوں سے تعلقات ختم۔ کہا جاتا ہے کہ جب تو نے اپنا حصہ لے لیا تو اب تیرا یہاں کیا رہا؟
جبکہ اسلام کا صاف حکم ہے کہ لڑکیوں کا بھی ماں باپ کی جائداد میں حصہ ہے اور لڑکوں کا بھی خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔
اس جہیز کے مطالبے نے سماج میں ظلم و ہلاکت کو رائج کیا اور جائداد میں لڑکی کو حصہ نہ دینے نے بھی سماج میں غضب اور زیادتی کو رائج کیا۔ افسوس اس بات پر ہے کہ مسلم سماج بھی اس معاملہ میں اسی قدر جہالت پر ہے جس قدر جہالت پر اہل وطن ہیں۔ سوائے ان چند لوگوں کے جنھیں اللہ نے دین کی سمجھ دی ہے۔ مسلم سماج کو اس پر ضرور سوچنا چاہیے۔
وحیدہ رحمن، جیند (ہریانہ)
سائز کا مسئلہ
جون کا شمارہ کافی تاخیر سے یعنی ۱۸؍جون کو ملا تھا، اس لیے خط لکھنے میں بھی دیر ہوئی۔ ابھی میرے مسلسل ٹیسٹ ایگزام چل رہے ہیں، لیکن فوری طور پر خط لکھنا اس لیے ضروری تھا کہ کہیں بات پرانی نہ ہوجائے۔ جون کا حجاب ایک نئے اسٹائل میں دستیاب ہوا۔ پہلی نظر میں تو وہ بزرگوں کا کوئی سنجیدہ سا رسالہ محسوس ہورہا ہے۔ حجاب کے سائز کی یہ تبدیلی ہمارے سرکل میں کسی کو کچھ زیادہ خوشگوار نہیں لگی۔ صفحات کی کوالٹی البتہ بہترین ہے لیکن اس سائز میں یہ بالکل بھی Handyنہیں ہے اور ایک صفحے پر تین کالم قاری کے ذہن و نظر کو تھکا ہی دیتے ہیں۔ کل جولائی کا شمارہ بھی ملا جس سے معلوم ہوا کہ قارئین کو یہ بدلاؤ اچھا لگا ہے مگر ہم اپنی رائے بہرحال دیں گے کہ سائز پہلے کا رہنے دیں اور صفحات کی کوالٹی یہی رکھیں… اگر ممکن ہو تو……
اس خط کے ذریعے میں ان تمام قارئین کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنھوں نے ناول کی پسندیدگی کے لیے خطوط لکھے، فون کیے اور میسج بھیجے اور اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازا۔ ناول ختم ہونے کے بعد سے کچھ قارئین کا شدید اصرار ہے کہ ’صداقتوں کے پاسبان‘ کا دوسرا حصہ ضرور ہی لکھا جائے لیکن اس سلسلے میں امتحانات سے فراغت کے بعد ہی کچھ سوچا جاسکتا ہے۔ ان تمام قارئین کی بھی میں ممنون ہوں جنھوں نے میری خیریت دریافت کی تھی، میں الحمدللہ اب ٹھیک ہوں اور پیپر بھی لکھ پارہی ہوں۔
امی ابو سلام کہہ رہے ہیں اور اسماء باجی اپنے مضمون کے متعلق پوچھ رہی ہیں۔
سلمیٰ نسرین بنت عبدالرحیم آکولہ
]سائز پر مجھے تمہارے تبصرے کا انتظار تھا۔ شاید اب وہ لوگ بھی خط لکھ کر اپنی رائے دیں جنھیں یہ نیا سائز پسند نہ آیا۔ ہم بہرحال قارئین کی پسند ہی کو اس سلسلے میں اہمیت دیں گے۔ ہم نے اس سائز کا انتخاب کسی تکنیکی وجہ سے یا اخراجات میں کفایت کے سبب نہیں کیا۔ بلکہ محض اس وجہ سے کیا کہ یہ سائز ہمیں اچھا لگا اور اس سائز میں پیج ڈیزائن بھی اچھا بنایا جاسکتا ہے۔
ماہنامہ حجاب اسلامی اپنے جملہ قارئین کو اس وقت خاص طور پر دعوت دیتا ہے کہ وہ حجاب کے موجودہ سائز اور گیٹ اپ پر تبصرہ کریں، اپنی رائے دیں اور بتائیں کہ موجودہ سائز اور گیٹ اپ زیادہ مناسب ہے یا پرانا والا۔ اس کام کے لیے ہم اگست اور ستمبر دو ماہ کا وقت مقرر کرتے ہیں۔ پھر فیصلہ کریں گے۔ ایڈیٹر[
——