مستحکم خاندان کی ضرورت
ماہ جولائی کا حجاب اسلامی پسند آیا۔ اس شمارے کے اہم ترین مضامین میرے نزدیک ’’مستحکم خاندان کی ضرورت‘‘ اور ’’کیسے بنتا ہے مثالی گھر‘‘ تھے۔ یہ مضامین اس حیثیت سے اہم اور وقت کی ضرورت ہیں کہ پوری دنیا میں اس وقت خاندان کا ادارہ انتشار کا شکار ہے۔ رشتے ناطے کمزور پڑ رہے ہیں۔ بھائی بھائی اور بھائی بہن کے درمیان، والدین اور اولاد کے درمیان رشتوں میں اب وہ مٹھاس باقی نہیں جو مطلوب تھی۔ میاں بیوی اور بچے والدین تک کی جو مضبوط اور مستحکم یونٹ تھی وہ بھی کمزور پڑرہی ہے۔ ماں باپ دونوں برسرِ روزگار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ، بچے نوکروں یا بوڑھے دادا دادی کے حوالے۔
اسلام خاندان اور رشتے ناطوں کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ ان کو نبھانے اور انھیں مضبوط کرنے کی تلقین کرتا ہے، ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے اور انھیں ادا کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ جبکہ موجودہ نظامِ حیات اور نظامِ معاشرت ان چیزوں کو قابلِ توجہ ہی تصور نہیں کرتا۔ اسلام اور دوسرے معاشروں میں یہ بنیادی فرق ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا خاندانی نظام اس بگاڑ کے دور میں بھی نسبتاً زیادہ مضبوط اور بہتر ہے۔
مسلم سماج پر بھی خاندانی نظام کے دشمن اقدار نے حملہ بول رکھا ہے۔ جیسے جیسے مسلم سماج اس کی زد میں آئے گا اس کے برے اثرات سے نہ بچ سکے گا۔ ایسے میں اسلام کے اس خاندانی نظام کو مضبوط کرنے اور لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ حجاب اسلامی کے قارئین اس کی ضرورت و اہمیت کو سمجھیں گے۔
ڈاکٹر نکہت فاطمہ
باغ ارم، بھوپال (ایم پی)
مطالعے کا قحط
ماہ اگست کے شمارے میں تمام مضامین اگرچہ اچھے اور مفید تھے مگر ان میں ایک مضمون ’’معاشرے میں مطالعے کا قحط‘‘ دل کو چھو گیا۔ مضمون نگار نے جن حقائق اور جن باتوں کا اظہار اس مضمون میں کیا ہے وہ بڑے قیمتی اور قابلِ توجہ ہیں۔ مضمون نگار نے اس موضوع پر جو مشورے دیے ہیں اگرچہ وہ اجتماعی نفاذ کے طالب ہیں مگر اپنے گھر میں مطالعے کے رجحان کو فروغ دینے اور اہلِ خانہ کو اچھا، صحت مند اور مفید لٹریچر پڑھنے کی طرف مائل کرنے کے لیے ہم اپنی سطح پر کوشش کرسکتے ہیں اور ہمیں کرنی چاہیے۔
میرے خیال میں اس کے لیے بہترین ترکیب یہ ہوسکتی ہے اور اس کا تذکرہ مضمون نگار نے بھی کیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو قصے کہانیاں سنانے اور ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو کے لیے وقت نکالیں اور پھر ان کی مزید معلومات اور شوق کی تسکین کے لیے مختلف قسم کی کتابیں انھیں فراہم کریں۔ اس کا ایک اور طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے گھر میں مختلف زبانوں کے اچھے، معیاری اور مفید رسالے منگوانے کا اہتمام کریں۔ آج بعض گھروں میں بچے دسیوں روپے سے زیادہ کے چاکلیٹ، چپس، آئس کریم اور نہ جانے کیا کیا چیزیں کھا جاتے ہیں۔ اس طرح بچوں کے چٹورپن کے اخراجات کا اندازہ لگایا جائے تو وہ کئی ہزار روپے سالانہ ہوجاتا ہے۔ اور یہ کوئی مفید خرچ بھی نہیں۔ اکثر اس سے بچوں کی صحت پر برے اثرات پڑتے ہیں۔ والدین اس پر خرچ تو کرتے ہیں مگر سو دو سو روپے کے ماہانہ رسالے خرید کر لانے کی زحمت نہیں کرتے۔ یہ محض توجہ اور ذوق و شوق کی بات ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اس کی اہمیت کو سمجھیں۔
اسماء سلطانہ، رگھوبیر نگر، نئی دہلی
جولائی و اگست کے شمارے
ماہ اگست کا حجابِ اسلامی سامنے ہے۔ مختلف النوع، مفید اور اچھے مضامین دیکھنے کو ملے۔ آپ نے جولائی اور اگست کے دونوں شماروں میں رمضان پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے۔ اللہ کرے رمضان المبارک کا اثر ہماری زندگیوں میں قائم رہے۔
ماہ جولائی کے شمارے میں مستحکم خاندان اور مثالی گھر کے موضوع پر تحریریں بے حد پسند آئیں۔افسانوں میں تینوں افسانے بہت خوب اور قاری کے ذہن و فکر پر اچھا اثر چھوڑنے والے تھے۔ خصوصاً جمیل نظام آبادی اور عبدالستار کشف کے افسانے اچھے لگے۔
اگست کے شمارے میں آپ نے رمضان سے متعلق جو تحریریں شائع کی ہیں وہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے مفید ہیں مگر روزہ اور انسانی صحت کے سلسلے میں میرا خیال یہ ہے کہ یہ اندازِ فکر ان لوگوں کا ہوتا ہے جو روزے کو تقویٰ کی حقیقی روح کے ساتھ نہیں سمجھ پاتے۔جو لوگ روزے کی حقیقی روح کو سمجھتے ہیں ان کو صحت اور جسمانی فائدے بتانے اور سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ تو روزے کو اللہ کا حکم خاص سمجھ کر انجام دیتے ہیں، خواہ کچھ بھی ہوجائے۔
ایسے وقت میں جبکہ یہودی ریشہ دوانیاں مسجدِ اقصیٰ کو گراکر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا منصوبہ روبہ عمل لانے میں لگی ہیں۔ مسجدِ اقصیٰ یعنی قبلہ اول کے سلسلہ میں مضمون کی اشاعت وقت کی ضرورت ہے۔
سائز کے سلسلہ میں میری رائے پہلے سائز کے حق میں ہے۔
ہما انور (بذریعہ ای میل)جمشید پور
سائز کی تبدیلی
اگست کے حجاب اسلامی میں مسجدِ اقصیٰ کی تصویر دیکھ کر ذہن قبلۂ اول کے خلاف یہودی سازشوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ادھر چند ماہ میں جو خبریں اخبارات کے ذریعے پڑھنے کو ملیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ کے وجود کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ گزشتہ سال بھی وہاں سے باب مغاربہ کے انہدام کی خبریں آئی تھیں اور ابھی بھی اس قسم کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔
مسجدِ اقصیٰ پر مضمون کی اشاعت قارئین حجاب کے لیے یقینا نئی بات نہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ امتِ مسلمہ جہاں کہیں بھی ہے اسے اس مسجد کے سلسلہ میں بیدار اور فکر مند رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ان کے ایمان کا جزو ہے۔
گزشتہ دو تین مہینوں سے حجاب اسلامی کے سائز میں تبدیلی آئی ہے۔ وہ تبدیلی کوئی بہت زیادہ پرکشش تبدیلی ثابت نہیں ہوئی۔ ذمہ داران نے کیا سوچ کر ایسا کیا یہ تو اندازہ کرنا مشکل ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ اگر اسے حجاب کو اور زیادہ مؤثر، پرکشش اور مقبول بنانے کے لیے اختیار کیا گیا ہے تو میرا تاثر یہ ہے کہ اس سے وہ مقصد حاصل نہ ہوسکا۔ اگر اس میں کوئی تکنیکی اور مالی اخراجات میں کفایت نہیں ہے تو پہلے والا سائز زیادہ موزوں ہے۔
خلیل الرحمن اظہر، سدھارتھ نگر
سائز کی تبدیلی
سب سے پہلے تو عید کی مبارکباد دل کی گہرائیوں سے قبول فرمائیں، آپ سبھی کو عید کی دلی مبارکباد اور تمام ہی قارئین حجاب کو بھی عید بہت بہت مبارک ہو۔
حجاب کے موجودہ سائز کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ اپنا حجاب دوسرے رسائل سے اگر تھوڑا مختلف اور منفرد نظر آرہا ہے تو کیا مسئلہ ہے۔ پچھلے ماہ یہ بات سامنے آئی کہ حجاب کے سائز کو لے کر ابھی تک کوئی ایک رائے منتخب نہیں ہوپائی ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ ماہ سلمیٰ نسرین کی رائے تھی کہ حجاب کا پہلے والا Look زیادہ Smartتھا۔ ان کی رائے میرے نزدیک بہت وزن دار ہے۔ مگر میں سوچتی ہوں کہ اگر ہمارا رسالہ دیگر رسائل سے تھوڑا مختلف لگ رہا ہے اور کاغذ کی کوالٹی بھی پہلے سے کافی بہتر ہے تو اس اسٹائل کو ترجیح دی جائے تو مناسب ہوگا۔
میں حجاب کی بہت ہی پرانی قاری ہوں۔ حجاب اور میرا تعلق اس وقت سے ہے جب میں بہت چھوٹی تھی، الحمدللہ قارئین حجاب کی تعداد میں روز بروز اضـافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔
فائزہ عروج طیبائی، کانپور