حجاب کے نام

شرکاء

ایک اہم مسئلہ
ستمبر کا شمارہ خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ ملا۔ اس بار رسالہ لیٹ ملا۔ معلوم نہیں کیا وجہ ہے ۔ ہمیشہ ہمارے یہاں وقت پر آجاتا ہے اور آخری ہفتہ میں رسالہ مل جاتا ہے۔ اس ماہ رسالے کو دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ ٹائٹل کافی پرکشش تھا۔ نیا سائز رسالہ کو دیدہ زیب بنارہا ہے۔
گزشتہ شمارے میں شاہنواز فاروقی کا مضمون مطالعے کا بحران کافی پسند آیا تھا۔ اس ماہ ان کا مضمون شادی کے ادارے کا بحران سماج کو جھنجھوڑنے والا ہے۔ اس اہم مسئلہ پر اس وقت سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی مناسب رہنمائی یا کاؤنسلنگ کریں تاکہ شادی کا یہ بندھن پائیدار بن سکے۔
اس دور کا سانحہ یہ ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں محبت کا فلمی تصور راج کررہا ہے اور پیار و محبت کا دائمی اور مضبوط و مستحکم تصور کہیں گم ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کا ہر اقدام جذباتی اور غوروفکر سے ہٹ کر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شادیاں ناکام ہورہی ہیں۔ اس کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ محبت میں ناکامی کی صورت میں نوجوان لڑکے لڑکیوں میں خودکشی کا رجحان بڑھا ہے۔ تیسری بات یہ ہے محبت میں ناکامی کی صورت میں ایک رد عمل تشدد کا بھی ہوتا ہے جس میں عام طور پر نوجوان لڑکے لڑکی کو قتل کرنے، اس پر تیزاب پھینکنے یا ان لوگوں کو نشانہ بنانے پر اتر آتے ہیں، جواِن کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ اس کی دلیل کے طور پر گزشتہ دنوں راجدھانی میں ایسے واقعات پیش آئے جن میں نوجوان لڑکے نے ایک طرفہ عشق میں گرفتار ہوکر کئی لوگوں کو قتل کرنے کے بعد خود کو گولی مارلی۔ یہ تینوں واقعات راجدھانی دہلی کے ہیں اور اس طرح کے واقعات دیگر مقامات پر بھی پیش آچکے ہیں۔ ہندوستان کے سماجی و معاشرتی مسائل میں یہ مسئلہ آئندہ دنوں میں سنگین صورتِ حال اختیار کرسکتا ہے۔ اس پر بند باندھنے اور اپنے نوجوانوں کی تربیت کی سخت ضرورت ہے۔
خلیل چشتی، ڈہری اون سون، بہار
مسجد اقصیٰ اور امتِ مسلمہ
مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔ قبلۂ اول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے قبلہ بنائے جانے سے پہلے اللہ کے رسول ﷺ نے مسجدِ اقصیٰ کی طرف رخ کرکے نمازیں ادا کیں۔ اس کے بعد خانہ کعبہ کو قبلہ بنادیا۔
اللہ کے رسولﷺ نے مسجد اقصیٰ کو امتِ مسلمہ کی عروج و زوال کی علامت قرار دیا ہے۔ اور اس وقت مسجدِ اقصیٰ یہودیوں کے قبضہ میں ہے اور پوری امت یہودی قوتوں کے ہاتھوں مجبور ہے۔ یہودی حکومت مسجدِ اقصیٰ کو گراکر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی بنانا چاہتی ہے اور اس کے لیے مختلف تدبیریں اور مہمات انجام دے رہی ہے مگر پوری دنیا کے مسلمان بشمول مسلم حکومتیں یا تو محض تماشائی بنی ہوئی ہیں یا محض احتجاجی بیانات جاری کرکے مطمئن ہیں۔ حالانکہ یہ ایک سنگین صورتِ حال ہے جو پوری امت مسلمہ کو دعوت غوروفکر دیتی ہے۔
بات صاف ہے کہ یہ امت کے مغلوب ہونے کی علامت ہے اور یہی بات اللہ کے رسولؐ نے فرمائی تھی، مختصر یہ ہے کہ امت کو اپنی حالت پر غوروفکر کرنا چاہیے اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اسی وقت ہماری حالت بدل سکتا ہے جب ہم خود ہی اپنی حالت بدلنے کی فکر کریں۔
قمر الدین خمار
بریلی، یوپی
رمضان کے بعد
اگست کا حجاب اسلامی سامنے ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کے وجود کو خطرہ اور مطالعے کے موضوع پر مضامین پسند آئے۔ روزے کے سلسلہ میں جولائی اور اگست کے شماروں میں جو مضامین پیش کیے گئے وہ قارئین کو اس ماہ مبارک سے مستفید ہونے کی طرف بہتر انداز میں متوجہ کرنے والے ہیں۔
اسلام نے ہمیں اس ماہِ مبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے آگاہ کیا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان میں مسجدیں بھرجاتی ہیں اور ایک روحانی ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ مگر جیسے جیسے رمضان گزرتا جاتا ہے ویسے ویسے ’’لوگ بھی گزرتے جاتے ہیں‘‘ اور رمضان کی برکتوں کو سمیٹنے والا جب آخری عشرہ آتا ہے تو مسجدیں تقریباً ویسے ہی ہونے لگتی ہیں، جیسے عام دنوں میں۔ یہ بے توجہی اور غفلت کا مقام ہے کہ جو دن زیادہ اہمیت اور برکت والے ہوتے ہیں، وہ دن زیادہ غفلت میں گزرتے ہیں۔ اور پھر رمضان گیا، عید آئی اور سب کچھ سمیٹ کر رکھ دیا گیا۔ مسجدیں ویسے ہی ویران اور زندگی پھر اسی راہ پر چلنے لگتی ہے جس پر رمضان سے پہلے تھی۔
حقیقت میں رمضان کا مہینہ امتِ مسلمہ کے لیے چارجر ہے جو آئندہ گیارہ ماہ کے لیے تقویٰ کی بیٹری کو چارج کردیتا ہے۔ تاکہ انسان بقیہ دنوں میں بھی اللہ تعالیٰ سے قریب رہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو رمضان کا آنا اور گزرجانا کوئی فائدہ مند نہیں۔ توجہ کی ضرورت ہے کہ رمضان المبارک کا اثر ہماری زندگی پر رمضان کے بعد بھی قائم رہے۔
ڈاکٹر نکہت فاطمہ
بھوپال، مدھیہ پردیش

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں