اچھا مضمون
مجھے ہر مہینہ حجاب اسلامی کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے اور میں اس کے سارے مضامین بڑے شوق سے پڑھتی ہوں۔
اگست کا شمارہ پڑھا، اس کے تمام مضامین بہت اچھے تھے۔ بہ طور خاص بہن زینب غزالی کا مضمون ’’طالبات میں دعوتی کام‘‘ کافی اچھا اور موثر تھا۔ اس مضمون سے بہت ساری چیزیں سمجھ میں آئیں۔ ہمیشہ سے حجاب اسلامی کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ اکثر دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں رہنمائی کرتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں مسلسل مضامین آتے رہے ہیں۔ ان مضامین کے تناظر میں یہ مضمون کافی ا ہم اور عملی رہنمائی دینے والا ہے۔ ماہنامہ حجاب اور بہن زینب غزالی کا شکریہ کہ انہوں نے یہ اچھا مضمون ہمیں پڑھنے کو دیا۔
فردوس نوشین
رام گڑھ، جھار کھنڈ (بذریعہ ای-میل)
ایک شکایت
میں ماہ نامہ حجاب اسلامی کی مستقل قاری ہوں۔ یہ میرا سب سے پسندیدہ رسالہ ہے۔ مئی ۲۰۱۳ کے شمارہ میں ایک مضمون ’’موٹاپا اور خواتین‘‘ شائع ہوا تھا۔ یہ مضمون کافی اچھا اور مفید تھا۔ مگر اس مضمون میں الفاظ کااستعمال ایسا تھا جس سے عام قاری کو سمجھنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ اسی طرح انگریزی الفاظ بھی سمجھنے کے لیے آسان نہ تھے۔ اس مضمون کو پڑھنے اور سمجھنے میں دقت ہوئی۔ اور ابھی اس مضمون کے سلسلے کی تشنگی باقی ہے۔ آپ سے مودبانہ درخواست ہے کہ آئندہ آسان اور عام فہم زبان کا استعمال کریں اور اگر ممکن ہو تو اس مضمون کو ذرا آسان الفاظ کے ساتھ دوبارہ شائع کردیں۔ میں منتظر ہوں۔ توجہ فرمائیں۔
طلعت پروین
رام گڑھ کینٹ (بذریعہ ای-میل)
[طلعت صاحبہ! آپ کی شکایت حجاب سے محبت کی دلیل ہے۔ ہماری کوشش یہی ہوتی ے کہ حجاب اسلامی کی زبان آسان اور عام فہم ہو۔ لیکن تمام مضمون نگار آسان زبان نہیں لکھ پاتے۔ ہم آئندہ کوشش کریں گے کہ حجاب اسلامی کے تمام مضامین کو آسان زبان میں پیش کریں۔ جہاں تک دوبارہ شائع کرنے کی بات ہے تو شاید حجاب کے ہزاروں قارئین ایسا نہ سوچتے ہوں، اس لیے دوبارہ شائع کرنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ایڈیٹر]
کالج میں دعوتی کام
اگست ۲۰۱۳ کا شمارہ ہاتھوں میں ہے۔ تمام مضامین پڑھ چکی ہوں۔ طالبات میں دعوتی کام پسند آیا۔ دراصل کالج کھلنے کے بعد آپ نے طالبات کو بہت اہم کام کی طرف متوجہ کیا ہے۔ مضمون نگار نے کالج کی طالبات کو تحفظ اور اپنی دینی شناخت کے سلسلے میں اجتماعیت اور گروپ میں رہنے کی طرف متوجہ کیا ہے اور حقیقت میں یہ وہ نسخہ ہے جو اجتماعی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے اور صلاحیتوں کے فروغ میں بھی معاون ہوتا ہے۔
دراصل کالج اور یونیورسٹیاں اپنے اندر دعوتی کام کے وسیع مواقع کی جگہ ہیں اور وہاں اگر کام کیا جائے تو بڑے اچھے نتائج فراہم ہوتے ہیں۔ میں کیوں کہ خود ایک کالج میں پڑھاتی ہوں اس لیے مجھے اس کا اندازہ ہے۔ میں تو آگے بڑھ کر یہ کہتی ہوں کہ دین پسند اور فعال طالبات کو کالج کا انتخاب کرتے وقت یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ ایسے کالج میں جائیں جہاں دعوتی کام کے زیادہ مواقع ہوں کچھ خاص طالبات کو کچھ خاص کالج کا انتخاب صرف دعوتی کام کی غرض سے بھی کرنا چاہیے۔
اسامہ شعیب صاحب کا مضمون مخلوط تعلیم اور اس کے مسائل اہمیت کا حامل ہے۔ مضمون میں والدین کو جس طرف توجہ دلائی گئی ہے وہی اصل اور اہم ہے۔ امید ہے کہ والدین اس مضمون سے رہنمائی حاصل کریں گے۔
ڈاکٹر نکہت فاطمہ
بھوپال (مدھیہ پردیش)