ایک نئی قاری کا خط
جون کا حجاب اسلامی میرے سامنے ہے۔ یہ میری ایک جاننے والی خاتون نے جو لکھنؤ یونیورسٹی میں لکچرر ہیں مجھے دیا ہے۔ میں نے رسالہ لیتے ہی بڑے شوق سے پورے رسالے پر نظر ڈالی اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اردو میں اتنا قیمتی رسالہ نکل رہا ہے اور مجھے خبر نہیں۔ میں ایک اسکول میں ٹیچر ہوں اور کئی رسالے اپنے گھر پر منگواتی بھی ہوں۔
آپ کے رسالہ میں جو مضامین شائع ہوئے ہیں نہایت قیمتی، مفید اور رہنما ہیں۔ دینی معلومات اور فکری و عملی مضامین سے لے کر گھر داری تک کے معاملات کو آپ کے رسالہ میں بڑی خوبی کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ ’گھریلو زندگی‘ بچوں کی تعلیم و تربیت اور دینیات کے تحت دیے گئے مضامین گھر کے ہر فرو کے لیے کارآمد ہیں۔
’روح کو گرما دینے والے چند واقعات‘، ’نفساتی مسائل‘ اور ’پانچ لاکھ زندگیوں کی فکر‘بہت زیادہ پسند آئے۔ ’پردے کی مخالفت کے پیچھے‘ ذہن وفکر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ رسالہ کو دیکھ کر اور پڑھ کر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ یہ رسالہ ہر اردو پڑھنے والے مسلم گھر میں پہنچے اور لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ رسالہ دنیا و آخرت کی فلاح کا سیدھا اور قابلِ عمل راستہ دکھاتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس کا فیض عام ہو اور زیادہ سے زیادہ خواتین تک پہنچے۔ میں نے آپ سے پانچ شماروں کی ایجنسی قائم کرنے کی درخواست کی ہے۔ براہِ کرم اس پر دھیان دیں تاکہ میں کچھ لوگوں تک رسالہ پہنچانے کا اپنا فرض ادا کرسکوں۔
سمیہ قمر،بخشی نگر، سلطان پور (یوپی)
[سمیہ قمر صاحبہ! آپ کی ایجنسی شروع کردی گئی ہے۔ آپ نے جن تاثرات کا اظہار کیا ہے ان پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ آپ جیسی فعال خواتین ہی حجاب اسلامی کی طاقت ہیں اگر لوگ اسی طرح کوشش کریں گے تو یقینا حجابِ اسلامی ایک دن ہر گھر میں نظر آئے گا۔ اللہ آپ کو اجر دے گا۔ ایڈیٹر]
حجاب کے لیے لکھنا چاہتی ہوں!
عرض تحریر یہ ہے کہ آپ نے میری تحریر ’’اخلاص‘‘ اور’’توبہ و استغفار‘‘ کو حجاب اسلامی میں جگہ دی جس کے لیے میں آپ کی بہت ہی زیادہ شکر گزار ہوں جس سے آئندہ کے مضمون کے لیے حوصلہ افزائی ہوئی اور میری آئندہ کی تحریر میں اصلاح بھی ہوئی۔
رسالہ حجاب اسلامی کے لیے میں مسلسل لکھنے کی کوشش کروں گی۔ اگر آپ کو میری تحریریں پسند آئیں تو اس میں ضروری تصحیح کے ساتھ حجاب اسلامی میں شائع کردیں۔ جس سے میری اور حوصلہ افزائی ہوگی اور میری تحریری صلاحیت بھی بڑھے گی۔ حجابِ اسلامی ایک فکری، دینی اور اصلاحی رسالہ ہے جو مسلم خواتین میں ہمہ جہت بیداری کا ذریعہ بن رہا ہے۔
نفیسہ بانو بنت عبدالقدوس، بیلاری، کرناٹک
[نفیسہ بانو صاحبہ! آپ کی دونوں تحریریں مئی اور جون کے شماروں میں شائع ہوچکی ہیں اور دونوں شماروں کی دو دو کاپیاں آپ کو بھیج دی گئی ہیں۔ آپ نے مضمون نگاری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے، یہ بڑی اچھی بات ہے مگر… اس کے بعد تو ہمیں آپ کے کسی مضمون کی ’زیارت‘ نصیب نہیں ہوئی۔ ایسا کیوں ہے؟ آپ کی تحریر یعنی یہ خط آپ سے عملی ثبوت مانگتا ہے۔ اب آپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ آپ واقعی لکھنے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں۔ اس لیے … بس لکھتی رہیں اور بھیجتی رہیں۔ ہم شائع کرتے رہیں گے۔ ایڈیٹر]
محنت رنگ لائے گی
حجاب کا پابندی کے ساتھ مطالعہ کرتی ہوں۔ آپ کی محنت قابلِ مبارک باد ہے۔ افسانے کافی سبق آموز ہوتے ہیں۔ دیگر مضامین بھی دلکش ہوتے ہیں۔ آپ رسالے میں ہر وہ چیز مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی ایک خاتون اور اس کے اہل خانہ کو ضرور ت ہو۔ اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ ان شاء اللہ محنت رنگ لائے گی اور لارہی ہے۔
مہناز عمیر، کھام گاؤں
حجاب اسلامی منفرد رسالہ ہے
میں ابھی دسویں کے امتحان سے فارغ ہوئی ہوں۔ پچھلے دنوں اردو اخبارات خاص طور پر منصف میں میرے مختصر مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ حجاب سے میرا تعلق پرانا ہے۔ اس لیے سوچتی ہوں کہ حجاب میں بھی لکھوں۔ حجاب اپنی نوعیت کا منفرد رسالہ ہے اور خواتین دینی بیداری اور فکر وشعور پیدا کرنے کے لیے مؤثر ہے اگر حجاب اسلامی میں میری تحریریں شائع ہوں تو بہت خوشی ہوگی۔
عروسہ طیبہ، ناندیڑ (مہاراشٹر)
[عروسہ تمہارا مضمون تاخیر سے آیا۔ اس لیے اس بار شاملِ اشاعت نہیں ہوسکا۔ تم اپنی محنت اور ’’قلمی شہادتِ حق‘‘ جاری رکھو۔ ان شاء اللہ تم ایک اچھی قلم کار اور صحافی بن جاؤ گی۔ آخر اس میدان میں بھی تو ہمارے تمہارے جیسے لوگوں کی سخت ضرورت ہے۔ اور یہ ضرورت پوری کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری بھی ہے۔ تمہاری تحریروں اور ایسی تمام بہنوں کی تحریروں کے لیے حجاب کے صفحات حاضر ہیں جو لکھنا چاہتی ہیں۔ ایڈیٹر]
حجاب اسلامی کا تازہ شمارہ
حجاب اسلامی کا تازہ شمارہ نظر نواز ہوا اور حجاب کا گوشہ گوشہ پڑھ کر انتہائی خوشی ہوئی۔ اور یہ خوشی اس وقت دوبالا ہوگئی جب پہلے ہی صفحہ پر ’’حجاب گفٹ اسکیم‘‘ دیکھی۔ واقعی تحفہ دینے کا یہ بہترین طریقہ آپ نے ڈھونڈ نکالا ہے۔ اپریل کے شمارے میں اپنا مضمون دیکھ کر بے انتہا مسرت ہوئی تھی۔ ویسے تو حجاب کے سارے مضامین اچھے لگے۔ لیکن مریم جمال کا ’’خواتین ریزرویشن‘‘ بہت معلوماتی رہا۔ سہیل آغا صاحب کا ’’کباڑی بازار‘‘ بھی اچھا لگا اور مسعود اختر صاحب کا ’’سی ڈی پلیئر‘‘ بہت تلخ لیکن حقیقت پر مبنی افسانہ لگا۔ والدین کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ بچوں کے لیے کیا مہیا کررہے ہیں انہیں کیا دکھا رہے ہیں۔ ابھی بھی مسلم والدین کے پاس وقت ہے کہ وہ سوچیں کہ اولاد کی محبت میں کہیں وہ ان کی ناجائز خواہشات کو تو پورا نہیں کررہے ؟
بہرحال آپ سے ایک گزارش ہے کہ آپ اپنا پرانا سلسلہ جس میں مسلم طالبات کے انٹرویو شائع کے جاتے تھے پھر سے شروع کردیں اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات کی فعال خواتین اور دعوتِ اسلامی میں سرگرم خواتین کے بھی انٹرویو شائع کریں تو بہتر ہے تاکہ دوسروں کو ان باعمل خواتین کے تجربات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم ہوسکے۔ امید ہے کہ ناچیز کی رائے پر آپ ضرور غور کریں گے۔
سعدیہ اختر عندلیب، ہاسن، کرناٹک
جسم فروشی اور اس کا سدِ باب
آج کل اخبارات میں جسم فروشی اور قحبہ گری کی خبریں عام ہوتی جارہی ہیں۔ وقفہ وقفہ سے اخبارات میں اس قسم کے اسکنڈلس کا بھانڈا پھوڑا جاتا ہے اور رپوٹیں نئے نئے حقائق لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ گزشتہ دنوں خواتین کمیشن کی رپورٹ آپ کے رسالے میں بھی شائع ہوتی تھی۔ حالیہ دنوں میں اسی طرح کی ایک رپورٹ مقامی ہندی اخبار میں بھی نظر سے گزری۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پورا سماج اس پر خاموش رہتا ہے اور معاشرے میں کوئی ہل چل پیدا نہیں ہوتی یہ ہماری سماجی بے حسی کی علامت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے اخبارات و رسائل جہاں اس قسم کی رپورٹیں شائع کریں وہیں اس کے سدباب کی راہیں بھی لوگوں کو سجھائیں۔ اس سلسلہ میں کچھ تلخ حقائق اور اصولی و فطری باتوں کا لحاظ اور اعتراف بھی ضروری ہے۔
چنانچہ ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ لڑکے لڑکیاں دو مقناطیسی قوت ہیں، جن میں قدرت نے ایک دوسرے کے لیے کشش رکھی ہے اس کشش کی تکمیل کا نام شادی ہے۔ اس سے قبل اس کشش کے تمام عملی طریقے ایک دوسرے کے لیے تباہ کن ہیں، ان کے ہی لیے نہیں پورے معاشرے کے لیے، ان کا سدِ باب اسی سطح پر ہوتا ہے۔
٭گھر میں ماں باپ خود اپنی ازدواجی زندگی میں تنہائی کی حرکات کو انتہائی مخفی رکھیں۔ اس سطح پر احتیاط میں لاپرواہی بچوں میں ناسمجھی کی عمر میں بھی غلط حرکات کا موجب ہوتی ہے۔
٭بچی کی عمر ۱۳، ۱۴ سال ہونے پر اس کو بہت صاف انداز میں بتلادیا جائے کہ تمہیں اپنے ہی دائرے میں رہنا اور اسی دائرے میں اپنے سہیلی اور دوست بنانا ہیں۔ زبانی تاکید کے ساتھ ان کو اس طرح کا لٹریچر بھی فراہم کیاجائے۔
٭بچیوں کی تعلیم ایسے ہی تعلیمی ادارے میں دلائی جائے جہاں لڑکے لڑکیوں کے الگ الگ رہنے کا زیادہ سے زیادہ امکان ہو۔
٭بڑی ہونے پر بچیوں کے جیب خرچ اور دیگر ضروریات کا پورا پورا خیال رکھا جائے تاکہ انھیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔
٭بچیوں کے باہرتعلیمی اداروں میں داخلہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو ایسے ہی اداروں میں داخل کیا جائے جہاں گرلس ہوسٹل وغیرہ کا بندوبست ہو۔ یا پرائیویٹ ہوسٹل بھی ہو تو مخلوط نہ ہو۔
٭ مناسب رشتہ آجانے پر بچیوں کی شادی کردی جائے اور اگرسروس ہی کرانا ہے تو وہ سروس ہو جو خواتین کے ہی لیے مخصوص ہو یا مناسب ہو۔
٭ بچیوں کی ہر سطح پر دینی تعلیم بالخصوص مطالعہ قرآن پر لازمی توجہ دی جائے کہ وہ روزانہ کچھ نہ کچھ حصہ کلام پاک سے تلاوت کریں۔ غیر مسلم طالبات اپنے مذاہب کی بات سکھیں ۔
٭ گھر میں ایسی تمام اشیاء جو بے حیائی اور غیر اسلامی اور غیر اخلاقی قدروں کو بڑھاوا دیتی ہیں ختم کردی جائیں۔
واقعہ یہ ہے کہ باڑھ ہی کھیت کو کھانے لگی ہے تو کھیت کیونکر محفوظ و سرسبز رہ سکتا ہے۔ لڑکے لڑکیوں کا ملاقات پر ہاتھ ملانا ایک عام بات ہوتی جارہی ہے۔ اور یہ ماں باپ اور رشتہ دار تک کے سامنے ہوتا ہے۔
لڑکیوں کی شادی کے مصارف اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ماں باپ چشم پوشی سے کام لینے لگے ہیں، اچھا ہے اپنی مرضی سے ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرلے۔ بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو واویلا مچاتے ہیں ’’دکھاوے کے لیے‘‘ جب کہ اس فعل میں زیادہ وقت تو نہیں لگتا مگر خود بھی بڑی رقم کماتی ہیں اور جن دروازوں سے ہوکر جانا ہوتا ہے ہر موڑ پر گیٹ کیپر کو اچھی آمدنی ہوتی ہے۔
اس جرم کے مرتکب کو بر وقت اور عبرتناک سزائیں نہیں ملتی ہیں یہ بھی اس مرض کے پھیلنے کا ایک سبب ہے اور اہم سبب ہے ، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سماج اور حکومت ان جرائم کو روکنے میں غیر مؤثر ثابت ہورہے ہیں۔
اس سے قبل یہ وبا عام ہو ہر سطح پر اس کے سدِ باب کی کوشش کی جاتی ہے تو اچھا، کچھ دن چین سے گزرجائیں گے ورنہ جب یہ طوفانی ریلے میں بدل جائے گا تو ان گھروں کو بھی نہیں چھوڑے گا جو اپنے آپ کو بہت محفوظ خیال کرتے ہیں۔
محمد داؤد، نگینہ