ایک ضروری وضاحت
ماہ جولائی ۲۰۰۹ء کا شمارہ ملا۔ قارئین کے خطوط حجاب کے نام میں جناب شاکر الاکرم بلارشاہ، مہاراشٹر کا گرفت نامہ و مشورہ نظر سے گزرا۔ جس میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہؓ کو واقعہ اِفک کا علم مائیکے پہنچ کر ہوا تھا۔ نہ کہ سسرال میں اور اس سلسلے میں اقتباس تفہیم القرآن، جلد سوم ، ص۳۱۲ نوٹ کردیا گیا اس ضمن میں لکھنا یہ ہے کہ سیرتِ صحابیہ کے تعلق سے میں مستند کتابوں کے حوالے ہی سے لکھا کرتی ہوں جن کتابوں کے حوالے سے یہ مضمون لکھا ہے، ان کتابوں کے نام اور ان کے صفحات کی فوٹو کاپی بھیج رہی ہوں۔
(۱)تفہیم القرآن سورئہ نور میں مودودی صاحب نے لکھا : ’’…البتہ جو چیز مجھے کھٹکتی تھی وہ یہ کہ رسول ﷺ کی وہ توجہ میری طرف نہ تھی جو بیماری میں ہوا کرتی تھی۔ آپ گھر میں آتے تو بس گھر والوں سے یہ پوچھ کر رہ جاتے ’’کیسی ہیں یہ؟‘‘ خود مجھ سے کوئی کلام نہ کرتے۔ اس سے مجھے شبہ ہوتا کہ کوئی بات ضرور ہے۔ آخر آپ سے اجازت لے کر میں اپنی ماں کے گھر چلی گئی…‘‘
(۲) الرحیق المختوم کے مصنف مولانا صفی الرحمن مبارک پوری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: ’’ادھر حضرت عائشہؓ کا حال یہ تھا کہ وہ غزوہ سے واپس آتے ہی بیمار پڑگئیں۔ اور ایک مہینے تک مسلسل بیمار رہیں۔ انہیں اس تہمت کے بارے میں معلوم نہ تھا… حضرت عائشہؓ نے واپس آکر اس خبر کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگانے کی غرض سے رسول اللہ ﷺ سے والدین کے پاس جانے کی اجازت چاہی۔ پھر اجازت پاکر والدین کے پاس تشریف لے گئیں۔ اور صورتِ حال کا یقینی طور پر علم ہوگیا تو بے اختیار رونے لگیں…‘‘
(۳) اسی طرح کی بات صحیح تایخ الاسلام والمسلمین کے مؤلف جناب مسعود احمد صاحب نے بھی صفحہ 308-311پر لکھی ہے۔ براہِ کرم آپ ان صفحات کا گہرائی سے مطالعہ کریں۔ اور فیصلہ کریں کہ کون صحیح ہے۔ کون غلط ہے؟ اور اگلے شمارے میں ا س تعلق سے تفصیل لکھیں۔ ورنہ ہمارے جیسے لکھنے والوں کے لیے عزت کا سوال ہے اور عوام میں ہمارا امیج خراب ہوگا۔
پیکرؔسعادت معز، صوبیداری، ہنمکنڈہ، وارنگل
[پیکر سعادت صاحبہ! آپ کے ارسال کردہ مذکورہ کتابوں کے صفحات کی کاپی اس خط کے ساتھ موصول ہوئی۔ ہم نے ان صفحات کا بغور مطالعہ کیا۔ ان صفحات سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ حضرت عائشہؓ کو رسولؐ کے گھر بیماری کے دنوں میں مسلسل یہ خیال ستاتا رہا کہ آخر کیا بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی توجہ حسبِ سابق میری طرف نہیں ہے۔ بیماری اور اس کیفیت کے سبب آپ نے اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت مانگی اور وہ مل گئی۔ وہاں پہنچ کر ہی صحیح حقیقتِ حال کا آپ کو علم ہوا۔ پھر ایک روزرسول اللہ ﷺ آپ کے والدین کے گھرآئے اور کہا کہ … اے عائشہ مجھے تمہارے متعلق ایسی اور ایسی بات کاپتہ لگا ہے۔ اگر تم اس سے بری ہو تو اللہ تعالیٰ عنقریب تمہاری برأت کا اعلان فرمادے گا۔ اور پھر یہی ہوا۔
دراصل ہمارے لیے بھی اکثر اوقات حوالوں کی تحقیق ممکن نہیں ہوپاتی اس لیے ہم قلم کار کی معلومات پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی بات کو شائع کردیتے ہیں۔ شاکر الاکرم کا خط بھی اسی طرح شائع کردیا گیا۔ آپ کا جوابی خط آنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ علمی اور صحافتی دنیا میں ایسا ہوجاتا ہے۔یہ عزت، بے عزتی یا امیج کا مسئلہ نہیں، محض معلومات کے سلسلے میں کنفیوژن کا معاملہ ہے۔ آپ اسے کسی اور انداز میں نہ سمجھیں۔ آپ کا خط شائع کرکے ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے معتبر حوالوں سے اپنی بات قارئین تک پہنچادی۔ ایڈیٹر]
ہم جنس پرستی کا فتنہ
جولائی کا شمارہ میرے ہاتھوں میںہے۔ ٹائٹل منفرد ہے اور خوشنما بھی۔ اس شمارے کے مشمولات میں جہیز سے متعلق تحریر ’ایک روگ ایک علاج‘ اور تربیت کے ضمن میں ’مقصد کے تعین میں بچوں کی مدد کیجیے‘ پسند آئے۔ افسانوں میں ڈیبی اور گل بانو دونوں ہی اچھے لگے۔ جو مضمون بہت زیادہ پسند آیا وہ تھا ’’ہندوستانی مسلم خواتین: غوروفکر کے چند پہلو‘‘ مضمون واقعی ذہن کو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ کاش کے مسلم سماج کے باشعور افراد ان پوائنٹس پر سوچیں جو اس مضمون میں اٹھائے گئے ہیں۔
ماہنامہ حجاب وہ رسالہ ہے جسے گھر کے تمام افراد پڑھ سکتے ہیں۔ اور گھر کے ہر فرد کے لیے اس میں بڑی مفید معلومات ہوتی ہیں۔ خواتین کے لیے تو بڑی نعمت ہے۔ ذہن و فکر کے لیے دینی معلومات سے لے کر کچن تک کے لیے مفید معلومات اس میں مل جاتی ہیں۔ خواتین کا ایک اہم ترین محاذ بچوں کی مناسب اسلامی تربیت و تعلیم ہے۔ اس سلسلے میںحجاب اسلامی بڑی کارآمد اور مفید باتیں ہر ماہ لے کر آتا ہے۔ میں اس مضمون کو سب سے پہلے پڑھتی ہوں۔ اس کے علاوہ اداریہ جو عام طور پر ملک کے سیاسی حالات پر ہوتا ہے اچھی رہنمائی کرتا ہے۔
گزشتہ دنوں میڈیا میں ہم جنس پرستی کا بڑا چرچا رہا۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت اور ملک کے اصحابِ اقتدار کے سامنے بھی سمتِ سفر متعین نہیں ہے۔ سیاسی پارٹیاں خاموش ہیں اور دفعہ ۳۷۷ کے خاتمے کو لے کر کوئی یہ ہمت نہیں کرپا رہا ہے کہ کھل کر اس کی حمایت کرے۔ بھارتیہ سبھیتا کے پرستار بھی گومگو کی کیفیت میں ہیں۔’شخصی آزادی‘ کی عجیب تعبیر ہے یہ۔ آج تک جو چیز فرد، سماج اور قانون سبھی کی نگاہ میں غلط اور جرم تصور کی جاتی تھی اسے جائز اور حق بجانب قرار دینے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ہمارے جمہوری نظام کا بھی عجب معاملہ ہے۔ یہاں لاکھوں لوگ اپنے حق کے لیے احتجاج کرتے ہیں مگر ان کی نہیں سنی جاتی اور کچھ سر پھرے احتجاج کرتے ہوئے نا جائز اور ’جرم‘ کی آزادی حاصل کرنے کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو حکومت کے ایوانوں میں ان کی بات اتنے زور وشور سے سنی جاتی ہے کہ قانون میں تبدیلی تک کے لیے وہ تیار ہوجاتے ہیں۔ اس پر اس شعر کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے
تھا جو ناخوب بہ تدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
مسئلہ اہم ہے اور نازک بھی۔ اس سے خواتین خاص طور متاثر ہوںگی۔ آپ سے درخواست ہے کہ معاملے پر روشنی ڈالیں۔
آمنہ وصی (ایڈووکیٹ)، اندور، ایم پی
حجاب اسلامی قابلِ تعریف
’’حجابِ اسلامی‘‘ قابلِ تعریف رسالہ ہے۔ جس طرح ہمارے ملک ہندوستان میں ہر رنگ ، زبان، نسل، فرقہ، طبقے کے لوگ پائے جاتے ہیں، اسی طرح حجاب میں بھی ہر عنوان کا مضمون مل جاتا ہے۔ فی الحال رسالہ پابندی سے مل رہا ہے۔ سرورق قابلِ ستائش بن رہا ہے، جو قارئین کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہے۔ ماہِ جولائی کا رسالہ ملا۔ ہر مضمون اپنے معیار سے بڑھ کر رہا ۔ افسانوی ادب میں ڈیبی بہت پسند آیا۔ قارئین کے لیے جو نیا کالم آپ نے شروع کیا ہے اس میں لکھنا چاہتا تھا مگر صفحات کی بندش نے مجبور کردیا، کیونکہ اس میں جو پہلا سوال ہے ’’مسلم خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ‘‘ محض اسی عنوان پر حجاب کے کئی صفحات شامل ہوجائیں، کیونکہ مسئلہ صرف ایک نہیں بلکہ مسائل ہیں اور سبھی مسائل ’’سنجیدہ‘‘ اور ’’بڑے‘‘ ہیں۔ ان شاء اللہ ان عنوانات پر تحریر ضرور بھجواؤں گا۔
محمد سہیل تنویر، ایوت محل، مہاراشٹر
کام کاجی خواتین کے مسائل
حجابِ اسلامی روزبہ روز سنورتا اور نکھرتا جارہا ہے۔ مضامین کا انتخاب بہت خوب ہے۔ آپ نے جس نہج پر حجابِ اسلامی کو چلانا شروع کیا ہے، وہ واقعی قابلِ تعریف ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنے رسالے میں ان خواتین پر بھی توجہ دیں جو کام کاجی ہیں۔ بعض وقت وہ بڑے مسائل میں پھنس جاتی ہیں۔ ان کے مسائل اور حل کو بھی حجابِ اسلامی کا موضوع ہونا چاہیے۔
خلیل اختر، دیوبند، سہارنپور، یوپی
مضامین اچھے لگے
ماہ جون کا شمارہ ملا، ٹائٹل انتہائی جاذبِ نظر تھا۔ اس سے زیادہ خوبصورت تو حجاب اندر ہوتا ہے۔ تمام مضامین اچھے لگے۔ پچھلے شمارے میں ’’اللہ سے فریاد‘‘ مضمون شائع ہوا تھا۔اس ماہ کے شمارے میں اس کی دوسری قسط پڑھ کر اندازہ ہوا کہ مضمون واقعی خواتین کے لیے روشنی کی لکیر ہے۔
اس شمارے میں سب سے زیادہ پسند آنے والی تحریر وہ تھی جو ’عالمی مدرس ڈے‘ پر لکھی گئی تھی۔ واقعی ’ماں‘ کا لفظ اپنی معنویت کھوتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
فرزانہ رباب، گوئیاں تالاب، رام پور، یوپی
——