حجابِ اسلامی
ماہنامہ حجاب اسلامی کا ڈھائی سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ایک ضخیم خصوصی نمبر پیش نظر ہے۔ کسی سنجیدہ اردو ماہنامہ کا سترہ سال تک پابندی سے نکلتے رہنا اپنے آپ میں ایک حیرت انگیز واقعہ یا وقوعہ ہے۔ دوسری حیرت انگیز خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں دواخانوں کے علاوہ دیگر اشتہارات بھی ہیں۔
جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، یہ جریدہ خواتین کے لیے مختص ہے، لیکن عنوان کے اوپر تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کو طالبات بھی پڑھ سکتی ہیں۔ آخر ان کو بھی تو خواتین ہی ہونا ہے۔
مشمولات میں سارے مضامین حسبِ ذیل خاص عنوانات کے تحت ہیں گویا ان کو ایک ایک باب تصور کرنا چاہیے۔ وہ حسبِ ذیل ہیں: مسلم عورت کا گھریلو کردار، مسلم خاتون کا سماجی کردار، سماجی خدمت کی چند جہات، تین خاص میدان، مسلم خاتون کا دعوتی اور اصلاحی کردار، مسلم خاتون کا سیاسی کردار، مسلم خاتون کا معاشی کردار، غرض یہ کہ مسلم خواتین کی زندگی اور اس کے تلازمات کے تقریباً ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔
سماجی خدمت کی چند جہات کے تحت ایک مضمون بعنوان ’’سوشل میڈیا، سماجی تبدیلی اور خواتین‘‘ ایک اہم موضوع ہے اس لیے کہ نئی صدی میں سوشل میڈیا نام کی ایک ’’نمو‘‘ وجود میں آئی ہے اور آندھی کے غبار کی طرح معاشرے کے ہر پہلو پر پوری طرح محیط ہوگئی ہے۔ اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے بھی کہ اس میں سوشل کے نام پر بہت کچھ اَن سوشل بھی گھل مل گیا ہے، اس کدورت سے اچھی طرح آگاہ ہونا اور اپنے بچوں کو آگاہ کرنا بہت ضروری ہے اوریہ بارِ گراں سب سے زیادہ ماؤں کے حصے میں آتا ہے۔ اس لیے خود ان کا باشعور اور سمجھدار ہونا ضروری ہے۔ اگلی نسلوں کی رہنمائی کے لیے یہ باتیں تو ہمیشہ ہی ضروری رہی ہیں لیکن ہمارے روایتی معاشرے میں ماؤں کی جو عموماً خاتون خانہ ہوا کرتی تھیں اتنی خوبی کافی ہوا کرتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دین سے، اپنی زبان سے اور معاشرتی آداب سے اچھی طرح شناسا کردیں۔ اگلے مرحلے کی ذمہ داری عموماً باپ پر ہوتی تھی یعنی اس کی تعلیم کی کہ وہ کیسی ہو، حسب حیثیت کس درجہ تک ہو وغیرہ وغیرہ لیکن آج تعلیم کے میدان میں اتنی جہتیں ہوگئی ہیں اور تعلیم اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ عام آدمی کے لیے حسب خواہش اپنے بچوں کو کسی راہ پر لگانا مشکل ہوتا جارہا ہے، اور سب کچھ حسب خواہش اور حسب توفیق کرنے کے باوجود کسی حسب خواہش مستقبل کا ہونا غیر یقینی ہے۔
جس ’’نمو‘‘ کو سوشل میڈیا کہتے ہیں وہ اس اعتبار سے تو عوام کے لیے واقعی نعمت غیر مترقبہ ہے کہ آج بکاؤ میڈیا اور بکاؤ چینلوں نے جس طرح عوام کی سوچ پر شب خوں مارا ہے اس کے لیے سوشل میڈیا ایک موثر کاٹ ہے۔ اس نے عوام کو ایک نیا حربہ، اپنی آواز بلند کرنے کا ایک نیا آلہ فراہم کیا ہے لیکن اس کے غلط اور گمراہ کن استعمال کے اثرات سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے والدین میںبالخصوص ماؤں میں عصری آگہی کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ ان میں مذکورہ بالا خوبیوں کے ساتھ ساتھ نئے شعور اور بچوں کی تربیت کے نئے آداب اور اصولوں کو سمجھنا اور برتنا ضروری ہوگیا ہے۔ محولہ بالا مضمون اس لحاظ سے بہت معلوما ت افزا اور وقیع ہے کہ سوشل میڈیا سے متعلق بہت سارے اعداد و شمار اکٹھا کرکے پیش کیے گئے ہیں لیکن دراصل خواتین کو کیا کرنا چاہیے یہ بات بہت کم بتائی گئی ہے۔ مناسب ہوگا کہ حجاب اسلامی کی اشاعتوں میں اس طرح کے مضامین بالاستیعاب شائع کیے جائیں جن میں انھیں نئی گمراہیوں کے سامان سے آگاہ کیا جائے اور اپنے بچوں کو ان کے اثرات بد سے محفوظ رکھنے کی تدبیریں بتائی جائیں۔ معصوم بچے تو سوشل میڈیا کے پیش کردہ مواد کو صرف ایک دلچسپ چیز سمجھتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ سرایت کرنے والے اس زہر کی ہلاکت خیزی سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو اس بلائے بے درماں کے قبیح اثرات سے محفوظ بنانا اور بھی مشکل ہے تاہم معاشرتی اصلاحات کی کلید کہی جانے والی مطبوعات کو یہ کام ایک راہ عمل کے طور پر اختیار کرنا ہوگا۔
ہمارے سماج میں اب بھی بچوں کی پرورش اور تربیت کا کام ماؤں کے ذمہ ہے اس لیے لازم ہے کہ وہ اس بات پر نظر رکھیں کہ ان کے بچے کون سے ویڈیو، چینل، یا ٹی وی پروگرام دیکھتے ہیں اگر وہ دیکھیں کہ ان کے بچے کسی مخرب اخلاق یا خلافِ عقائد مواد کو پسند کرتے ہیں تو انھیں بہتر پروگراموں کی طرف متوجہ کرکے مخرب پروگراموں سے باز رکھا جائے۔ یہ کام بڑی ہوشیاری کا طالب ہے، کسی طرح کی سختی کرنے سے بچے ان پروگراموں کو دیکھنے کی دوسری تدبیریں اختیار کریں گے۔ ظاہر ہے مائیں سارے پروگراموںکو مانیٹر نہیںکرسکتیں، ایسے میں حجاب اسلامی اور اس طرح کی دیگر مفید مطبوعات کی کوشش ہونی چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا کے مفید اور مضر مواد سے ممکنہ حد تک آگاہی فراہم کرتے رہیں اور بہت سارے مفید اور عمدہ چینلوں کو بھی اس ضرورت سے آگاہ کرتے رہیں تاکہ وہ انھیں اپنے پروگراموں میں شامل کرسکیں۔
ہمارے ملک میں تقریباً ستر فیصدی آبادی اب بھی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور وہاں رہنے والوں کی اکثریت زراعت پیشہ ہے یا گھریلو صنعتوں میں روزی روٹی کماتی ہے۔ اس حقیقت کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے کہ اس علاقے کی پوری معاشی یا اقتصادی کارروائی میں عورت کا حصہ تقریباً نصف ہوا کرتا ہے۔ اب زراعت میں مشینو ںکا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے اس وجہ سے اس میدان میں عورتوں کی حصہ داری کم ہوتی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود کھیت کھلیان کی پیداوار گھروں میں پہنچ جانے کے بعد ساری عمل آوری عورت کے حصے میں آتی ہے۔ گھریلو صنعتوں میں شاید پارچہ بافی یعنی بنکری کی صنعت سب سے بڑی ہے اس میں گھر کی عورتوں کا حصہ بدرجہ اتم رہا ہے اور اب وہاں بھی مشینی عمل کے باوجود اس کی حصہ داری میں شاید زیادہ فرق نہ آیا ہو۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج شہروں میں بالخصوص تعلیم یافتہ خواتین کا مجموعی معاشی عمل میں شریک ہونا جو ایک مجبوری بنتا جارہا ہے وہ معاملہ صرف پس منظر اور کمائی کی نوعیت بدل جانے کا ہے ورنہ کمائی میں عورت کی حصہ داری ہمیشہ سے رہی ہے۔
ایک اور بڑے اہم پہلو کی طرف عموماً نظر نہیں جاتی وہ یہ ہے کہ کسی گھر کے مجموعی معاشی عمل میں صرف آمدنی کا شمار کیا جاتا ہے، بچت اور کفایت کے ذریعہ آمدنی میں جو اضافہ ہوتا ہے اس طرف توجہ نہیں ہوتی۔ خواتین گھر کے بہتیرے اخراجات میں اصراف سے گریز کرکے کم کمائی سے زیادہ کام لے سکتی ہیں۔ اب تو تعلیم اور علاج معالجہ صرف یہی دو امور کسی عام آدمی کی اوسط کمائی کا بڑا حصہ چوس لینے کے لیے کافی ہیں، ایسے میں تعلیم یافتہ خواتین بچوں کی پڑھائی اورٹیوشن پر خرچ ہونے والی مد میں بچت کرسکتی ہیں، اسی طرح سارے امور خانہ داری خصوصاً بچوں کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھ کر ان کی صحت مند کیفیت قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اسی طرح عہد حاضر کے بے رحم طبی نظام کی ضرب کو کچھ ہلکا کرسکتی ہیں۔ یہاں ایک بار پھر اپنی بات دہرانا چاہتا ہوں کہ اس باب میں حجاب اسلامی جیسے اور دیگر سنجیدہ رسالے خاص رہنمائی کرسکتے ہیں اور انھیں ایسا کرنا اپنا اخلاقی فرض تصور کرنا چاہیے۔
حجاب اسلامی کے زیر نظر شمارے میں خواتین کے معاشی کردار سے متعلق بڑے اچھے، معلومات افزا اور چشم کشا مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ بہت سارے اعداد و شمار کے ذریعہ سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی گرفت و گیرائی کی طرف اشارے کیے گئے ہیں، لیکن وہ آخری بات یعنی آمدنی پر بچت کے اثر پر گفتگو کم کی گئی ہے اس پر مسلسل اصرار کی ضرورت ہے۔
جہاں تک سارے الیکٹرانک میڈیا، تفریحات و اطلاعات کے سارے آلات کی ہمہ گیری کا تعلق ہے اس بارے میں بھی خواتین کی ذمہ داری پر مسلسل اصرار کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان الیکٹرانک آلات سے بچوں کے زیادہ شغف کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت خصوصاً بینائی کو پہنچنے والے نقصانات سے انھیں بچاسکیں۔ اکثر خواتین خود کو دیگر مصروفیات کے لیے آزاد رکھنے کی غرض سے بچوں کو ٹی وی کی طرف لگا کر اطمینان کرلیتی ہیں۔ یہ تغافل انتہائی مہلک ہے۔ یہ انتباہ کرتے رہنا ضروری ہے۔
میں ایک اور خاص بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ہمارے اسکولوں میں برسرکار معلّمات کا معاملہ ہے۔ ان کی کیفیت، حالات کار وغیرہ کی طرف کبھی سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی گئی۔ ان سے کتنا کام لیا جاتا ہے، کتنا مشاہرہ دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ خواتین ہیں جو بلاشبہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان میں سے اکثر مجبوراً گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دن میں کام اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جو ان کی گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ اضافی ہوتا ہے۔ شاید ہی کوئی تفریحاً یہ کام اختیار کرتی ہوں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں بھی معیار سے بہت کم ہوتی ہیں اور کام کا بار اتنا ہوتا ہے کہ انھیں اسکول کا زائد کام گھر لے جاکر کرنا ہوتا ہے، جس کی کوئی زائد اجرت نہیں ملتی۔ یہ سب نہایت غیر منصفانہ اور غیر اخلاقی ہے، اس پر معاشرے کے بااثر لوگوں کو توجہ ضرور دینی چاہیے۔ ہمارے سنجیدہ رسالوں میں اور دیگر اخبارات میں بھی اس پر مضامین لکھنے چاہئیں خصوصاً اس وجہ سے کہ اب تعلیم گاہیں اچھا خاصا نفع بخش کاروبار ہوگئی ہیں تو اس صنعت میں کارگزاروں کو شریک کرنا بھی فرض ہونا چاہیے۔
ایک اور بات ، گلوبلائزیشن کے طفیل عملاً دن رات کی تفریق ختم ہوتی جارہی ہے چنانچہ بہت سے دفاتر میں ۲۴ گھنٹے کام ہوتا ہے۔ کارکنوں میں خواتین بھی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہماری خواتین کا مسئلہ خاص طور سے توجہ طلب ہے جو حج کے لیے بھی محرم کے ساتھ جانے کی پابند ہیں، مشکل یہ ہے بدلتے ہوئے سماجی اور معاشی حالات میں ہماری خواتین ایڈجسٹمنٹ کس طرح کریں۔ اس میں ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
رضوان اللہ
فرسودہ سوچ کا خاتمہ
ماہ نامہ حجابِ اسلامی کا خصوصی شمارہ ’’مسلم خاتون- گھر کے اندر، گھر کے باہر‘‘ بہت پسند آیا۔ آپ نے جس طرح سے موضوعات کا احاطہ کیا ہے وہ منفرد ہے۔
مسلم خاتون کے کردار اور تعمیری رول کے جو میدان آپ نے بیان کیے ہیں وہ تمام ہی میدان ایسے ہیں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح اجتماعی جدوجہد سے ہے۔ ہمارے سماج کی عورت کے ساتھ حادثہ یہ ہوا ہے کہ اسے سماج اور معاشرے سے کاٹ دیا گیا ہے اور صرف گھر اور اندرون خانہ کے رول کو قابلِ ستائش تصور کیا گیا ہے۔ یہ ’دینی ذہن‘ والوں کی سوچ ہے۔ میں کبھی کبھی حیران رہ جاتی ہوں کہ آخر یہ سوچ پروان کیسے اور کہاں سے چڑھی اور عورت کے اجتماعی رول کو ناپسندیدگی کی نظر سے کیسے دیکھا جاسکتا ہے۔ جب کہ اسلام کی تاریخ میں خواتین صنعت و تجارت میں بھی مصروف رہیں اور فوجی خدمات تک میں ان کا نمایاں رول رہا۔ حضرت اسماء ذات النطاقین کی زندگی سفر ہجرت کے انتظامات سے لے کر فتنوں کے دور میں ظالم حکمرانوں کو کھری کھری سنانے تک ہمارے سامنے ہے۔ اور علم و حکمت کے میدان میں تو سیکڑوں فقیہ اور مفسر و محدث خواتین ایسی نظر آتی ہیں جو اپنے آپ میں خود ایک تعلیمی ادارہ تھیں۔
اس پست خیالی نے جو بدقسمتی سے تقویٰ اور دین کے نام پر ہمارے اندر سمائی اس نے خواتین کے دین و ایمان کا ہی بیڑہ غرق کر دیا۔ مسجدوں میں جانا ختم، دینی مجلسوں سے دوری۔ ہاں بازاروں اور تفریحی مقامات پر بحث نہیں مسجد میں تراویح کی نماز کے لیے جانے پر بحث ہوتی ہے۔
آپ کا رسالہ امید ہے کہ دین کے نام پر کئی ’فرسودہ سوچ‘ کو ختم کر کے مسلم عورت کو ہمہ جہت اسلامی رول کے لیے تیار کرنے میں معاون ہوگا۔lll
ڈاکٹر رضیہ فراز
(بذریعہ: ای-میل)
خصوصی شمارہ
حجابِ اسلامی کا خصوصی شمارہ بہت اچھا لگا۔
آپ نے اس شمارے میں خواتین کے سماجی رول کو اچھی طرح کور بھی کیا ہے اور اس سلسلے میں اچھی رہ نمائی بھی کی ہے۔ معاشی میدان میں عورت کے رول پر جو مضامین ہیں وہ بڑے متوازن اور گائڈ کرنے والے ہیں۔
دعوت و اصلاح کے میدان پر آپ نے کھل کر گفتگو کی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری خواتین کو دعوت و اصلاح کے میدان میں فعال رول ادا کرنے کا اہل بنائے۔ آمین
منیرہ خلیل
(بذریعہ: واٹسپ)
حجاب اسلامی کے فروری 2019 کے خصوصی شمارے کو پڑھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ اگرچہ کچھ مضامین میں تشنگی کا احساس ہوتا ہے لیکن اپنے موضوع پر یہ مکمل دستاویز ہے۔ جن موضوعات پر تشنگی ہے امید ہے کہ آئندہ شماروں میں ان پر مضامین شائع کر کے بھرپور مواد فراہم کیا جائے گا۔
عبد الرحمن بٹ
(بذریعہ: ای-میل