جہیز لینے والے
ماہ ستمبر کے شمارے میں اویس مختار کا مضمون جہیز لینے والوں کی فکر کا تجزیہ پسند آیا۔ یہ دراصل ان جوانوں کی سوچ کا تجزیہ کرتا ہے جو بہ ظاہر جہیز کو ناپسندیدہ کہتے ہیں مگر جب مفت میں لاکھوں کا مال آتا اور ملتا دیکھتے ہیں تو اس کے لیے معذوریاں اور مجبوریاں وضع کرتے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ایک احساس جرم کا اظہار ہے ورنہ اس دور میں بھی سیکڑوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر بلا جہیز شادیاں کی ہیں۔ جس دور میں وہ یہ کام کر رہے تھے اس وقت ان کے گھر والوں اور اعزاء و اقرباء نے بھی کیا کیا باتیں کی ہوں گی۔ مگر وہ کسی بھی چیز کو خاطر میں نہیں لائے۔ کئی ایک نوجوانوں کو میں جانتا ہوں جنہوں نے ایسا کیا اور وہ کوئی مالدار خاندان سے بھی نہ تھے۔ مگر آج اللہ تعالیٰ نے انہیں خوب نواز رکھا ہے۔ اس کے برعکس میں نے کئی ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے خوب جہیز لیا۔ مگر ان کے ناکارہ پن کے سبب وہ یکے بعد دیگرے بکتا چلا گیا۔
اصل بات یہ ہے کہ ہم اللہ سے طلب کرتے ہیں یا بندوں سے۔ جو بندوں سے طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بندوں کا محتاج بنا دیتا ہے اور جو لوگ اللہ سے طلب کرتے ہیں اللہ انہیں بے نیاز کر دیتا ہے۔
ایک بات یہ عرض کرنی ہے کہ اگر ممکن ہو تو جہیز دینے والے والدین کی سوچ کا بھی تجزیہ پیش کیجئے۔ اس لیے کہ بہت سے والدین خود اس قبیح رسم کی دم پکڑے ہوئے ہیں۔
نور العین سحر
لکھنو (یوپی)
چند باتیں
چند گزارشات کے تحت یہ خط لکھ رہا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم بھی اپنے یہاں دینی اور معاشرتی اصلاح کی خواہش کے تحت حجاب اسلامی دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ چاہے گا تو لوگوں پر اس کا اچھا اثر ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ گزشتہ شماروں میں بعض بہت اچھے مضامین شائع ہوئے ہیں انہیں دوبارہ شائع کیا جاسکتا ہے۔ بعض رسالے قارئین کی خواہش پر ایسا کرتے بھی ہیں۔ آپ بھی کریں۔ اور ایک بات یہ عرض کرنی ہے کہ آپ کے پاس نئے لکھنے والوں کے بہت سے مضامین آتے ہوں گے جنہیں آپ شائع نہیں کرتے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ ان کی خوصلہ افزائی کی خاطر ان سے مواد اخذ کر کے نئی تحریر بنا کر شائع کردیں۔ اس طرح انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ کیسے لکھا جائے اور آگے لکھنے کا حوصلہ بھی ملے گا۔ اپنی ایک نظم ’’دادا کی نصیحت‘‘ بھیجی ہے۔ اگر آپ کو پسند آئے تو جگہ دیں۔
محمد اسماعیل معمارؔ
پلونچا (کرناٹک)
[معمار صاحب آپ نے یہ نہیں بتایا کہ کس شمارے کا کون سا مضمون دوبارہ شائع کریں۔ اگر اس کی نشان دہی ہوجائے تو ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ آپ کی نظم تو نہیں ملی۔ کب اور کیسے بھیجی ہے۔ اطلاع دیں۔ ایڈیٹر]
اچھے مضامین
میرا تعلق اورنگ آباد مہاراشٹر سے ہے اور میں حجاب اسلامی اس وقت سے پڑھ رہی ہوں جب دسویں کلاس کی طالبہ تھی۔ حجاب کے مضامین اچھے ہوتے ہیں اور پڑھنے والوں کو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری بہت ساری سہیلیاں بھی حجاب اسلامی کو پسند کرتی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ حجاب اسلامی میں میرے بھی مضامین شائع ہوں۔ اسی کوشش کے تحت ایک مضمون ارسال خدمت ہے۔
فاطمہ صدیقہ
اورنگ آباد (مہاراشٹر)
[آپ کا مضمون مل گیا، لکھنے کی کوشش جاری رکھئے اور کتاب سے نقل کرنے کے بجائے کتابوں کے مطالعہ کے بعد مضامین لکھئے۔ یقینا کوئی ایک مضمون لکھ کر ہی مصنف و قلم کار نہیں بن جاتا۔ گہرا مطالعہ اور مسلسل کوشش جاری رکھئے۔ ان شاء اللہ آپ کے قلم سے لوگوں کو روشنی ملے گی۔ ایڈیٹر]
مضبوط خاندان
ستمبر کا حجاب اسلامی سامنے ہے۔ گوشۂ حج و قربانی پسند آیا۔ اس شمارے میں مضبوط خاندان، مضبوط معاشرہ بہت پسند آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندان معاشرہ کی سب سے اہم کڑی ہے۔ جس طرح زنجیر چھوٹی چھوٹی کڑیوں سے مل کر بنتی ہے اسی طرح سماج خاندانوں سے مل کر بنتا ہے۔ اور کڑی جتنی مضبوط ہوگی زنجیر بھی اسی قدر طاقت ور ہوگی۔ مغرب کا معاشرہ اسی وجہ سے انتشار کا شکار ہے کہ اس کا خاندانی نظام بکھر گیا۔ شادیوں کا رواج کم ہوگیا، لوگ شادی کرنے کے بجائے یوں ہی ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بن باپ کے بچوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ یہ معاشرتی انتشار اور جرائم میں اضافے کا سبب ہے۔
ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک اور ان کے معاشرے بھی مغرب کی راہ پر چل رہے ہیں، اور ان کا انجام بھی وہی ہونا ہے جو مغربی سماج کا ہوا۔ اللہ کے فضل سے مسلم سماج پوری دنیا میں اس برائی سے محفوظ ہے۔ لیکن قطعاً محفوظ ہے یہ کہنا غلط ہے ۔ ہاں اس بات کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنے خاندانی نظام کا تحفظ کریں تاکہ معاشرہ بھی مستحکم رہے۔ حجاب اسلامی اس خدمت کو بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے۔lll
تیسیر عالم، پلامو (بہار)