گھر اور خاندان
اخلاقی لحاظ سے فساد زدہ اور مختلف قسم کی سماجی و معاشرتی برائیوں میں جکڑے سماج میں حجابِ اسلامی کی نظریاتی کوششیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ایک رسالہ سے معاشرے میں انقلاب تو نہیں آسکتا مگر اتنا یقین ہے کہ خاندانوں اورسماج کے ہزاروں افراد کے ذہنوں کو صالح اقدار سے روشناس ضرور کرایا جاسکتا ہے۔
حجابِ اسلامی کا اداریہ ’’گھر اور خاندان کی فکر‘‘ پسند آیا۔ آپ نے گھر اور خاندان کو مغربی تہذیبی یلغار سے محفوظ رکھنے اور اسلامی اقدار کو مضبوط کرنے کی وکالت کی ہے۔ یہ عین وقت کا تقاضہ ہے۔ اگرمسلم سماج نے اس بات پر توجہ نہ دی تو آئندہ نسلوں کے لیے دین پر تھوڑا بہت بھی قائم رہنا ناممکن حد تک دشوار ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں خواتین کا رول بہت کلیدی ہوتا ہے کہ وہی گھر میں بچوں کی تربیت اور ان کی فکر کی پرورش کرتی ہیں۔ اگر خواتین اس ضرورت اور اہمیت کااندازہ لگا لیں تو ایک بڑا مرحلہ کامیابی کے ساتھ طے ہوجائے گا۔ میری دعا ہے کہ حجابِ اسلامی ہر گھر میں پہنچے اور لوگ اس سے مستفید ہوں۔
نادرہسلطانہ
ٹونک (راجستھان)
ہم اور ہمارا سماجی رویہ
جولائی کا حجاب اسلامی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ سبھی مضامین پسند آئے۔ عید کے موقع پر پیش کیا گیا خصوصی گوشہ نئی چیز ہے۔نئی نئی چیزیں رسالہ میں پیش کی جاتی رہیں اور جدت و تنوع کی کوشش ہوتی رہے تو قارئین کو بھی اچھا لگتا ہے۔ گوشۂ عید میں تاثرات کے ذریعے جن بہنوں نے شرکت کی ہے وہ قابل مبارک باد ہیں۔
اس شمارے میں مضمون ’’ہم اور ہمارا سماجی رویہ‘‘ بہت پسند آیا۔ ملک میں، خاص طور پر بڑے شہروں میں یہ تاثر عام ہے کہ مسلم علاقے گندگی، بدنظمی اور جاہلانہ طرزِ عمل کامظہر ہوتے ہیں۔ ایسے میں زیر بحث مضمون کا مطالعہ ہمیں اصلاح اور اپنی روش کو بدلنے میں معاون ہوتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اجتماعی اور سماجی رویوں سے جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں اور اصلاحِ حال کی کوشش کریں۔ مضمون نگار نے جن چھوٹی چھوٹی باتوں کا ذکر کیا ہے وہ بہ ظاہر چھوٹی ہیں مگر اپنے اثرات کے اعتبار سے بڑی اہم اور ہمہ گیر ہیں۔ مثلاً آپ کے گھر کے کسی فرد نے چوتھی منزل سے محض اس وجہ سے کوڑے کا تھیلا نیچے پھینک دیا کہ اسے چار منزل اترنا اور چڑھنا پڑے گا۔ مگر اس کی اس کسل مندی نے پورے روڈ پر کوڑا پھیلا کر پورے محلے کو بدمنظر کردیا۔ ذرا غور کیجیے وہ کوڑا سڑک پر کیا منظر پیش کرے گا۔
کاش کہ ہم اپنے رویوں میں اسی طرح نفیس ہوجائیں جیسے اپنے لباس اور رکھ رکھاؤ میں ہوتے ہیں۔
فہمید نظیر الدین
(بذریعہ ای-میل)
چند باتیں
ماہ نامہ حجابِ اسلامی اچھا رسالہ ہے۔ اس کے مشمولات دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اتنا معیاری اور صالح اقدار کا حامل رسالہ اس بات کا حق دار ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے۔ میرے خیال میں یہ بھی ایک دینی اور دعوتی کام ہوگا۔ حجابِ اسلامی کے توسط سے چند باتیں قارئین تک پہنچائی جائیں تو شاید معاشرے اور خود میرے لیے خیر کا ذریعہ بن جائیں۔
lپہلی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں تعلیمی اداروں کا جو نظام ہے اس میں صرف گنتی کے ہی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں دینی تعلیم اور تربیت کا نظام رائج ہے۔ ایسے میں ہمارے بچے دین کیسے اور کہاں سے سیکھیں۔ یہ کمی نہیں پوری نہیں ہوپاتی اور پڑھ لکھ کر جب ہماری نوجوان نسل میدان عمل میں آتی ہے تو ان میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ایسے میں کیا کیا جائے اور اس کمی کو کیسے پورا کیا جائے، یہ اہم سوال ہے۔ میری رائے میں اس کمی کو ہم گھر کے ماحول سے پورا کرسکتے ہیں اور اس میں مائیں خاص طور پر اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں اور اس سلسلہ میں ان کی پوری مدد کی جائے مگر تربیت اور دینی علم کی فراہمی کی ذمہ داری گھر پر والدین ادا کریں۔ اور اس سلسلے میں بھی وہ اسی طرح سنجیدہ اور کوشاں رہیں جس طرح اسکولی تعلیم کے سلسلے میں رہتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ مسلم سماج میں بہت ساری جاہلانہ رسوم و رواج عام ہوگئی ہیں جو ایک طرف تو مالی فضول خرچی کا سبب ہیں دوسری طرف دین کے منافی ہیں۔ اگر ہم ان سے چھٹکارا پالیں تو اپنی دنیا و آخرت دونوں بنا سکتے ہیں۔ فضول خرچیوں سے بچی رقم سماجی و دینی کاموں میں لگ سکتی ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم ہر کام کرنے سے پہلے یہ دیکھیں کہ دین میں اس کا کیا مقام ہے۔ اگر وہ صحیح اور دین سے میل کھاتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے باز رہیں۔
امید ہے کہ قارئین حجاب اسلامی ان دو باتوں پر توجہ فرمائیں گے۔ وہاب اشرفی
ساکی ناکا، ممبئی
رسالہ پسند آیا
جولائی کا حجابِ اسلامی سامنے ہے۔ مضامین اچھے لگے۔ عید کے موقعے پر تحریروں کا گلدستہ پسند آیا۔ ’ہم اور ہمارا رویہ‘ مضمون بہت اچھا لگا۔ مضمون پڑھ کر دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کے لیے آسانیاں بیدا کرنے کی توفیق دے۔ اسی کے ساتھ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو یہی دعا مانگنے کی توفیق سے نوازے۔
عماد الدین منصوری، سدھارت نگر (یوپی)
حجاب پسند ہے
جون کا حجاب اسلامی بہت اچھا لگا۔ بزرگوں سے اکتاتا سماج، عورت حقوق اور آزادی کے درمیان بہت پسند آئے۔ رمضان المبارک کا ذکر ٹائٹل پر دیکھ کر خیال آیا کہ کیا رمضان آنے والا ہے۔ جی ہاں بس اگلے ہی مہینے سے بلکہ اسی مہینے سے تو رمضان شروع ہونا ہے۔ آپ نے بروقت قارئین کو متوجہ کیا کہ وہ استقبال رمضان کی تیاری کریں۔ حجاب اسلامی میرے گھر میں بڑے شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ کئی بار پاس پڑوس کی خواتین بھی مانگ لے جاتی ہیں۔ پڑوس کی خواتین کے مانگ لے جانے پر دل چاہتا ہے کہ یہ بھی کہدوں کہ آج اچھے اچھے اور خوش حال گھروں میں بھی رسالے منگوانے کا شعور نہیں۔ خاص طور پر دینی رسالوں اور اسلامی لٹریچر کی تو لوگ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ میں نے کئی خواتین سے کہا کہ حجاب اسلامی پڑھنا اگر پسند ہے تو محض 250/= روپے میں یہ آپ کے گھر میں آسکتا ہے۔ مگر وہ یہ کہہ کر ٹال گئیں کہ ’’جب پڑھنا ہوتا ہے تو آپ سے لے لیتے ہیں نا۔‘‘ حالاں کہ کئی لوگ معاشی اعتبار سے اتنے خوش حال ہیں کہ وہ سو حجاب خرید کر لوگوں کو دے سکتے ہیں۔ مگر وہ اپنے گھر اسلامی رسالہ منگانے پر 250/= خرچ کرنا نہیں چاہتے۔ حالاں کہ ان کے بچے بعض اوقات اس سے زیادہ قیمت کی چاکلیٹ اور بسکٹ کھا جاتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کا تعین کریں اور اس میں دین کو ہر جگہ ترجیح دیں۔lll
مومنہ اقبال (ٹیچر) قنوج (یوپی)