ہمیں شک تھا مگر غلطی ڈاک کی تھی!
اگست ۲۰۱۰ء کا رسالہ ’’حجاب‘‘ اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ صفحۂ اول سے آخر تک معلومات کا خزانہ لیے دستیاب ہوا۔ ما شاء اللہ جرار احمد بھائی تعارف نہ کراتے تو اتنا پیارا رسالہ آنکھوں سے اوجھل ہوتا۔ میں ان کی ممنون و مشکور ہوں۔ معاف کیجیے مجھے آپ پر شک ہوگیا تھا۔ مارچ میںسالانہ خریدار بننے کے بعد سے ایک رسالہ بھی ہاتھ نہ لگا تھا۔ پوسٹ مین کی غلط فہمی سے وہ دوسرے گھر پہنچتا رہا۔ ہم آپ کو غلط سمجھتے رہے۔ شکر ہے بیک وقت تین رسالے انھوں نے پہنچائے۔ مئی، جون اور جولائی کے رسالے نہ ملے۔ افسوس ہے۔
پاکیزہ رسالے کے لیے پاکیزہ مضامین کا انتخاب بڑا مشکل کام ہے مگر یہ کام آپ انجام دے رہے ہیں، اس کے لیے مبارک باد۔ تمام دینی مضامین بے حد پسند آئے۔ افسانوں میں گڈا اور سوتیلی ماں، گوشۂ نو بہار میں کہانی بدقسمت چور ، پنسل کی ایجاد، ریڈیو کی تاریخ عمدہ رہے۔ تمام قلم کاروںکا بے حد شکریہ۔ خدا کرے یہ رسالہ بامِ عروج پر پہنچے۔ آمین!
نویدہ ترنم، مالور، کولار
گلیمر کی دنیا
اگست ۲۰۱۰ء کا حجاب اسلامی موصول ہوا۔ اداریہ گلیمر کی دنیا کا حال پڑھ کر حقیقت کی تہ تک اترنے کا موقع ملا۔ یہ ایک تلخ سچائی اور ایک سبق ہے ان لڑکیوں کے لیے جو گلیمر کی دنیا میں جانے کے لیے رات دن خواب دیکھتی ہیں اور ستاروں کو اپنا آئیڈیل مانتی ہیں۔ واقعی گلیمر کی دنیا بھی ایک عجیب دنیا ہے۔ جہا ںپیسہ ہے، عیش و عشرت بھی ہے، لیکن ساتھ ی یہ ایک ایسا خطرناک دلدل ہے جس میں پھنس کر انسان کے لیے نکلنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ ہم اخبارات و رسائل میں آئے دن عجیب و غریب قسم کے واقعات پڑھتے رہتے ہیں، جن میں ایسی نوعمر لڑکیوں کی درد بھری کہانی ہوتی ہے، جو اسٹار بننے کے لیے شہر گئیں اور پھر کہاں پہنچیں، اس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زندگی کا مستحکم نظریہ اور دین کی سوچ رکھنے والی خواتین آگے آئیں اور سماج میں پھیل رہی اس بدبودار سوچ کو صاف کرنے کی کوشش کریں۔ اس کاطریقہ یہی ہے کہ ہماری نوجوان لڑکیوں اور نئی نسل کو معلوم ہو کہ زندگی عظیم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے عظیم کاموں کے لیے ہمیں دیا ہے۔
اداریہ سے ایک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ دولت کی ریل پیل اور عیش و عشرت میں مست یہ اسٹار دراصل اندر سے بالکل غیر مطمئن ہیں اور ان کی زندگی میںحقیقی سکون نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس بظاہر چمکتی مگر حقیقت میںتاریک زندگی سے اس حد تک اکتاجاتے ہیں کہ خود کشی تک کرلیتے ہیں۔
’’کامن ویسٹ گیمس‘‘ بہت صحیح کہا ہے آپ نے۔ بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے دیش میں ایک طرف جہاں غربت و افلاس انتہا کو پہنچا ہوا ہے ، وہیں ہماری حکومت دوسری طرف اربوں روپئے محض گیمس پر خرچ کررہی ہے، بلکہ اب تو حکومت لٹا رہی ہے، سرکاری خزانہ۔ کاش کہ ہماری حکومت کچھ ان غریبوں کی طرف بھی دھیان دیتی، جن کے تن پر نہ تو کپڑے ہیں اور نہ دو وقت کی روٹی۔
حجاب اسلامی کے سبھی مضامین اچھے لگے۔ گوشۂ نو بہار میں اشعار کی کمی محسوس ہورہی ہے۔
صحیفہ خان، چمن گنج، کانپور
اگست کا شمارہ
ماہِ اگست کا حجاب اسلامی خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ موصول ہوا۔ ٹائٹل پر نظر پڑتے ہی احساس ہوگیا کہ رمضان آنے والا ہے اور اس کی تیاریاں شروع کردینی چاہئیں۔
رمضان سے متعلق تحریریں پسند آئیں خاص طور پر واصیہ اقبال کا مضمون بہت اچھا لگا۔ اس مرتبہ بزمِ حجاب میں اچھے، مفید اور معیاری مضامین پڑھنے کو ملے۔ انسان اور انسانیت، اپنے بچوں کو تازہ کھلائیے، اور اندھا پن ذہن وفکر کو جھنجھوڑنے والے ہیں۔ بزمِ حجاب میں تنویر آفاقی کا ترجمہ ’انشق القمر‘ پڑھ کر حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا۔ مگر حیرت کیسی یہ تو اللہ کا فضل ہے اور اس کا کرشمہ۔ وہ مناسب وقت پر انسانوں کے سامنے حقائق کو آشکارا کرتا رہتا ہے۔ مگر معاملہ تو انسانوں کا ہے کہ وہ اس سے سبق لیتے ہیں یا نہیں۔
فکر و آگہی کے تحت مضمون ’موت وحیا‘ بہت ہی زیادہ پسند آیا۔ کاش انسان اس مضمون کی حقیقت پر غوروفکر کرے۔
آپ نے اپنے رسالے کو جو رخ دیا ہے اور جس طرح کے مضامین اس میں شائع کرتے ہیں وہ آپ کی انفرادیت ہے۔ حجابِ اسلامی اردو کا ایسا منفرد رسالہ ہے جو خواتین اور لڑکیوں کے لیے خاص ہونے کے باوجود گھر کے ہر فرد کے لیے یکساں طور پرمفید اور کارآمد ہے۔ نیز گھر کا ہر ممبر اس رسالہ کو بلا جھجھک پڑھ سکتا ہے۔
میرے گھر میں تو اس کے کئی مضامین اجتماعی طور پر پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اور گاؤں کے اجتماع میں تو تقریباً چار پانچ مضامین ہر مہینہ پڑھ کر سنادیے جاتے ہیں۔ رسالہ اپنے مشن اور مقصد میں کامیاب ہورہا ہے اور خواتین اس سے مستفید ہورہی ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ ہر گھر تک پہنچے اور اس کی اشاعت خوب بڑھے۔
فریحہ انور (معلّمہ)، عمر کھیڑ، ایوت محل
مطالعہ کا رجحان
جولائی کا شمارہ موصول ہوا۔ اس میںمیرا مختصر افسانہ ’ایک رشتہ‘ شائع ہوا اس کے لیے شکریہ۔ ویسے وہ کہانی ہی نہیں تھی ایک حقیقت تھی اور ہے جسے کاغذ پر الفاظ کی شکل دے دی گئی۔
حجاب کے بارے میں کیا کہیں اپنے معیار کے حساب سے یہ اچھا جارہا ہے۔ ایسے رسالے کو ہر مسلمان گھر کی زینت ہونا چاہیے مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ مطالعے کا رجحان خواتین میں زیرو ہے۔ حالانکہ خواتین وقت کی کمی کا رونا ہوتی رہتی ہیں مگر وہی وقت چینلوں پر آرہے فسادی سیریلوں کی نظر ہوجاتا ہے اور انھیں احساس تک نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ نماز بھی قضا ہوجاتی ہے۔ اللہ ہمارے مسلمان گھرانوں پر رحم کرے۔ آمین!
محمد نصیر رمضان، مالیر کوٹلہ
ڈاک کی مہربانی
جون کا ماہنامہ حجاب ماہِ جولائی کی آخری تاریخ میں موصول ہوا۔ میری سوچ یہ تھی:
کیا ہوا کیا پتا خط (حجاب) کا آنا بند ہوا
کیا محبت کم ہوئی یا ڈاک خانہ بند ہوا
اب سمجھ میں آگیا کہ کوتاہی ڈاکخانے والوں کی ہے کہ ماہِ مئی ۲۰۱۰ء کا حجاب ہی اوڑھ بیٹھے۔ یہاں ہرماہ حجاب کا بے چینی و بے صبری سے انتظار ہوتا ہے۔ نہ ملنے پر ایک تشنگی سی برقرار رہتی ہے۔ ماہِ جون کے حجاب میں ایک مضمون بعنوان خود کشی شائع ہوا ہے۔ آپ کا شکر گزار ہوں۔
ماہنامہ حجاب اسلامی کے تعلق سے یہی کہوں گا کہ اس کی خوبصورتی اور نکھار میں ماہ بہ ماہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ قارئین کے خطوط حجاب کے نام پڑھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے چاہنے والوں اور شیدائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اللہ سے دعا گو ہوں کہ (آپ کا) زورِ بازو اور زیادہ…
شمیم ادھیکاری، پنویل